ایرانی صدر کی حادثاتی موت اور کرغزستان میں پاکستانی طلبہ

اتوار کے روز رات گئے میں یہ دعا کرکے سویا کہ برادر اسلامی ملک ایران کے علم دوست صدر ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں محفوظ رہیں۔ خراب موسم‘ جنگل کی نوکیلی اور پتھریلی پہاڑیوں اور گہری دھند کے باوجود کئی ٹیمیں شب بھر صدر کے لاپتا ہیلی کاپٹر کی تلاش میں سرگرداں رہیں‘ تاہم قضا و قدر کو کوئی نہیں ٹال سکا۔ پیر کے روز اخبارات‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی وفات کی خبر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ عربی میں ایک عالم کی موت کو سارے جہاں کی موت قرار دیا گیا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی الساداتی دسمبر 1960ء میں اس دنیا میں آئے اور 19 مئی 2024ء کو اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ وہ ملک کے علما اور فقہا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
ابراہیم رئیسی 2021ء میں آٹھویں ایرانی صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی مختلف اہم مناصب پر فائز رہ چکے تھے۔ اتنے بڑے صدمے کے باوجود پڑوسی ملک نے راتوں رات رہبرِ اعلیٰ علی حسینی خامنہ ای کی صدارت میں ہنگامی اجلاس کے دوران ایرانی دستور کے مطابق نائب صدر محمد مخبر کو عبوری صدر کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ محمد مخبر آئین کے مطابق عدلیہ و انتظامیہ کے تعاون سے 50 روز کے اندر اندر نئے صدر کا انتخاب کرانے کے پابند ہوں گے۔ صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی اس حادثہ میں شہید ہوئے ہیں۔ ایرانی حکومت نے ان کی جگہ علی باقری کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا ہے۔ ہوش اُڑا دینے والے صدمے کے باوجود برادر ملک میں ہر قدم دستور کے مطابق اٹھایا گیا جو نہایت قابلِ داد ہے۔ اس انتہائی افسوسناک حادثے کے بعد عالمی میڈیا میں طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ یہ حادثہ کسی اندرونی و بیرونی سازش کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے‘ تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ایران میں دور دور تک فوج کی مداخلت کے کوئی آثار نہیں۔ اب تک کی صورتحال ایسی ہے کہ جس میں بظاہر کوئی خدشہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ ایران کا اگلا صدارتی الیکشن قدامت پسندی اور اعتدال پسندی کے انتخابی منشوروں اور نعروں کی بنیاد پر لڑا جائے گا۔
صدر ابراہیم رئیسی کی یہ خوبی مجھے بطورِ خاص بہت پسند آئی تھی کہ وہ غلطی کا اعتراف کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ صرف ایک ماہ قبل وہ پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر آئے تو ان کا یہ پروگرام کثیر المقاصد تھا مگر اس دورے کا اہم ترین ہدف دوطرفہ میزائل حملوں کے بعد تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کا خاتمہ تھا۔ ان کا دورہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ کئی لحاظ سے یادگار تھا۔ ابراہیم رئیسی مرحوم اتحادِ عالمِ اسلامی کے بہت بڑے داعی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ او آئی سی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف متفقہ مؤقف اختیار کرے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی دلائے۔ پاکستان میں انہوں نے کئی طرح کے دوطرفہ تجارتی معاہدے کیے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے ان کا پُرجوش خیر مقدم کیا تھا۔ وہ لاہور میں ''اقبال لاہوری‘‘ (ایران میں علامہ اقبالؒ کو اسی لقب سے پکارا جاتا ہے) کے مزار پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ وہ کراچی گئے تو وہاں انہوں نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر حاضری دی۔ غم کی اس گھڑی میں پاکستانی حکام اور عوام دل کی گہرائی سے وہ صدمہ محسوس کر رہے ہیں جس صدمے سے اہلِ ایران بالخصوص حادثے میں شہید ہونے والے صدر رئیسی‘ وزیر خارجہ حسین امیر اور دیگر شہدا کے لواحقین گزر رہے ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا کی آفات کچھ کم نہیں مگر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک نعمت بھی ہے۔ جمعہ کے روز سوشل میڈیا پر بشکیک‘ کرغزستان سے نہایت تشویشناک خبریں آنے لگیں۔ وہ وڈیوز بھی سامنے آ گئیں جن میں وہاں کے مقامی طلبہ بہت سے شرپسندوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر غیرملکی طلبہ‘ جن میں پاکستانی بھی شامل تھے‘ کو وحشیانہ طریقے سے پیٹ رہے تھے۔ اس وقت تک کوئی خبر مین سٹریم میڈیا پر نہیں آئی تھی۔ ڈری سہمی طالبات نے وڈیوز میں اپنے گھر والوں کو بتایا کہ کس طرح ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مسلح مقامی لوگ پاکستانی طلبہ و طالبات کے ہاسٹلوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کے کمروں کے دروازے توڑ کر اندرگھس کر انہیں مارا پیٹا اور ان کی قیمتی اشیا کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بعض سوشل میڈیا پوسٹس کے مطابق وہ چھ پاکستانی طلبہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ جمعہ کی شب اور ہفتہ کے روز تک کرغزستان میں پاکستانی سفیر یا سفارت خانے کا عملہ طلبہ و طالبات سے رابطے میں نہ تھا۔
حیران کن بات ہے کہ کرغزستان میں لاء اینڈ آرڈر کی ایسی خراب صورتحال ہے کہ شرپسند دو روز تک دارالحکومت میں دندناتے رہے اور غیرملکی طلبہ کے ہاسٹلوں اور ان کے رہائشی ٹھکانوں کو نشانہ بناتے رہے اور وہاں کی مقامی پولیس‘ فوج یا سکیورٹی کا کوئی ادارہ غیر ملکی طلبہ کی مدد کو نہ آیا۔ اس دوران جب پاکستان میں وہاں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے والدین نے شور مچایا تو تب پاکستانی حکومت حرکت میں آئی۔ اس وقت کرغزستان میں 12 ہزار پاکستانی طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں ‘اب تک تقریباً آٹھ سو سٹوڈنٹس اپنے اخراجات پر وطن واپس آ چکے ہیں۔ اگرچہ لاکھوں روپے کے اخراجات برداشت کرنے والے طلبہ و طالبات کی اچانک واپسی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ واپس آنے والے بہت سے طلبہ و طالبات نے میڈیا کو بتایا کہ ہماری حکومت کہتی ہے کہ وہاںسب اچھا ہے جبکہ وہاں ہرگز سب اچھا نہیں۔ ان طلبہ نے 19مئی کے روز بتایا کہ ابھی وہاں صورتحال بہت پریشان کن ہے‘ طلبہ و طالبات ڈرے سہمے ہوئے اپنے کمروں میں محصور ہیں۔ آنے والی طالبات نے تصدیق کی کہ مقامی طلبہ اب بھی ان کے کمروں میں زبردستی گھس کر ان پر بدترین تشدد کر رہے ہیں۔ واپس آنے والوں کے بقول اب بھی ہزاروں پاکستانی طلبہ وہاں کے کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور ہاسٹلوں میں بے یارو مددگار ہیں۔ اس ساری صورتحال کے حوالے سے دو تین سوالات نہایت اہم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ جمعہ کے روز سے لے کر اتوار تک وہاں سنگین صورتحال تھی اور طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ کرغزستان حکومت کا رویہ دیکھ کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بعض طاقتور ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تو ہم بات نہ کر سکیں تو چلیے کچھ سمجھ آتا ہے مگر کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ کرغزستان کو 12 ہزار پاکستانی طلبہ بھاری زرِمبادلہ بھی پیش کریں اور پھر اتنے بڑے سکیورٹی ایشو پر وہاں کا وزیراعظم‘ وہاں کا وزیر خارجہ یا کوئی اور ذمہ دار ہماری حکومت سے معذرت تک نہ کرے۔
اس سارے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کرغزستان حکومت سمجھے کہ غیرملکی طلبہ و طالبات کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور انہیں اتنے بڑے سکیورٹی رِسک سے دوچار کرنا برادرانہ تعلقات اور سفارتی آداب کے بالکل منافی ہے۔ پاکستانی و کرغزستانی وزرائے خارجہ مل کر کرغزستان میں طلبہ و طالبات کے اجلاس بلائیں۔ ان کے اعتماد کو بحال کریں اور انہیں یقین دہانی کرائیں کہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہیں ہو گا۔ اگر وہاں کی حکومت یہ یقین دہانی نہیں کراتی تو پھر اتنا بڑا سکیورٹی رسک لینا کسی طرح بھی مناسب نہ ہوگا۔ ایسے غیرمحفوظ ماحول میں اپنے بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑنا کوئی عقل مندی نہیں ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں