جسٹن ٹروڈ کا استعفیٰ جمہوریت کا حُسن ہے‘ مگر کیسے؟ آگے بڑھنے سے پہلے ٹروڈو کی کہانی اس کی زبانی کی درج ذیل چند سطریں ملاحظہ کر لیجئے۔
''اگرچہ میرا ذوقِ مطالعہ افسانوی ادب تھا تاہم وہ کتابیں میری سب سے زیادہ پسندیدہ تھیں جو یہ تصور پیش کرتی تھیں کہ عام آدمی غیرمعمولی کام کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ میرے والدین نے مجھے جو سکھایا اس کی تکمیل یہی تھی کہ میں دولت اور ظاہری نمائش سے قطع نظر اُن لوگوں کی اہمیت کو سمجھوں جن سے ملا ہوں‘‘۔
میں نے یہ مختصر اقتباس جسٹن ٹروڈو کی آٹو بائیو گرافی ''کامن گراؤنڈ‘‘ سے لیا ہے۔ اس کتاب کی جس بات سے میں بے حد متاثر ہوا وہ یہ ہے کہ جسٹن نے اپنے وزیراعظم باپ پیئر ٹروڈو کا بیٹا ہونے کے باوجود اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ وہ سیاست کے بجائے درس و تدریس سے اپنا مستقبل وابستہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے وزیراعظم باپ نے اپنے بچوں بالخصوص جسٹن کو سخت کوشی‘ عام آدمی کی دل سے قدر دانی‘ محنت اور مطالعہ کرنے کی تربیت دی تھی۔
موجودہ دور کے دو وزرائے اعظم کے طرزِ حکمرانی سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ دونوں نیم نہیں حقیقی جمہوری ملکوں کے حکمران تھے۔ ایک کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور دوسری 2017ء سے 2023ء تک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن۔ دونوں کا ایجنڈا سماجی و معاشی ناانصافی کا خاتمہ اور اپنے ملک کے شہریوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی پر مشتمل تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً دس سالہ شاندار حکمرانی کے بعد جسٹن ٹروڈو نے چھ جنوری کو لبرل پارٹی کی صدارت اور وزیراعظم کینیڈا کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اگر اس سوال کا جواب صرف ایک لفظ میں دینے کی کوشش کی جائے تو وہ لفظ ہے ''حقیقت پسندی‘‘۔ ٹروڈو کے مزاج کی حقیقت پسندی اور باہمی صلاح مشورہ اُن کی زندگی میں جابجا نظر آتا ہے۔ جسٹن اسی خود نوشت میں لکھتے ہیں ''کہ اپنے والد (وزیراعظم کینیڈا) کے ساتھ ان سفروں کا سب سے قیمتی وہ حصہ تھا جب مجھے یہ دیکھنے کا موقع ملتا کہ وہ اپنے فیصلے کس طرح کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے اردگرد موجود لوگوں سے سوالات کرتے اور اُن کا نقطۂ نظر سنتے اور اپنا مؤقف اُن کے سامنے پیش کرتے تھے‘‘۔
جسٹن ٹروڈو نے چھ جنوری کو مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا کو بتایا کہ یہ فیصلہ مہینوں کی سوچ بچار اور اپنی فیملی اور لبرل پارٹی کے سینئر لیڈروں سے باہمی مشوروں کا نتیجہ ہے۔ یہ استعفیٰ اس لحاظ سے بھی خاصا معنی خیز ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں چھ اکتوبر 2025ء کو کینیڈا کے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو کے سیاسی کیریئر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشکل حالات سے ہرگز گھبرانے والے نہیں۔ وہ اپنی عوام دوست پالیسیوں‘ نوجوانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے‘ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے کینیڈین شہریوں کے درمیان ہم آہنگی و یگانگت قائم کرنے اور کسی بھی شہری کے دکھ درد میں آگے بڑھ کر اس کی مدد کرنے کی بنا پر بہت ہر دلعزیز تھے۔
جب جون 2023ء میں بھارت کے خفیہ ایجنٹوں نے کینیڈا کے ایک سکھ شہری کو وہاں قتل کیا تو وزیراعظم ٹروڈو نے بھارت کے خلاف بڑا زور دار سٹینڈ لیا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں پائی جانے والی مہنگائی اور مکانوں کی قیمتوں اور ان کے کرایوں میں بہت زیادہ اضافے سے شہری بہت پریشان ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کی امریکہ کیلئے برآمدات پر بھاری محصولات عائد کرنے کا اُن کے استعفیٰ سے کوئی تعلق نہیں مگر اب یہ اعلان بھی کینیڈا کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ جسٹن کے والد پیئر ٹروڈو دوبار کینیڈا کے وزیراعظم رہے۔ وہ1971ء میں ایک وزیراعظم کے گھر میں ہی پیدا ہوئے تھے تاہم جسٹن کوچۂ سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 1998ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بی اے کیا۔ وہ چار برس تک وینکوور کے ایک سیکنڈری سکول میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ 2002ء میں وہ ایجوکیشن میں اعلیٰ ڈگری کیلئے مونٹریال آئے۔ ان دنوں لبرل پارٹی کے سینئر لیڈران کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور خاندانی پس منظر کی بنا پر انہیں لبرل پارٹی میں لانا چاہتے تھے۔ جبکہ ٹروڈو کوچۂ سیاست سے گریزاں تھے۔ تاہم انہوں نے خدمتِ خلق کیلئے اپنے طبعی ذوق و شوق کے مطابق سماجی فلاح و بہبود اور نوجوانوں کی ویلفیئر کے بعض اداروں کی ذمہ داری قبول کرلی اور ان میں بہترین خدمات انجام دیں۔ رفتہ رفتہ لبرل پارٹی کی سینئر قیادت نے انہیں اپنے والد کی سیاسی جماعت میں شمولیت پر قائل کر لیا۔
2013ء میں جسٹن ٹروڈو کینیڈا کی لبرل پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس وقت اس پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں صرف 34 سیٹیں تھیں۔ اکتوبر 2015ء میں ٹروڈو کی شخصیت کے کرشمے دنیا کے سامنے آ گئے۔ انہوں نے سخت محنت کے اصولوں پر اپنی الیکشن مہم چلاتے ہوئے 34 کے بجائے 184 سیٹوں سے لبرل پارٹی کو بے مثال کامیابی دلا کر پارلیمنٹ کی بڑی اکثریت والی حکمران جماعت بنا دیا۔ وہ کینیڈا کی تاریخ کے دوسرے سب سے کم عمر وزیراعظم بن گئے اور پیئر ٹروڈو کے بڑے بیٹے کی حیثیت سے کینیڈا کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ابن وزیراعظم تھے۔ٹروڈو اس وقت تک وزیراعظم رہیں گے جب تک پارٹی مارچ کے اواخر میں اپنا نیا صدر منتخب نہیں کر لیتی۔ اس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے۔
ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے ہوئے جسٹن ٹروڈو کے سامنے کئی بڑے چیلنجز آن کھڑے ہوئے ہیں۔ ٹروڈو نے اپنی روایتی پامردی سے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی عدالتوں سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا اور اگر وہ امریکی تاریخ میں پہلے سزا یافتہ صدر کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں داخل ہو گئے تب بھی عدالتی سزا ایک آسیب کی طرح ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ تاہم وہ اپنے مزاج کے مطابق دائیں بائیں اور دور نزدیک دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے پہلے کینیڈین درآمدات پر 25 فیصد محصول عائد کرنے کی بات کی تھی اور اب انہوں نے کہا ہے کہ کینیڈا امریکہ کی 51ویں ریاست کی حیثیت سے اس کا حصہ بن جائے۔ وزیراعظم ٹروڈو نے اس کا کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ کینیڈا قیامت تک امریکہ میں ضم نہیں ہوگا۔ ٹرمپ شاید اپنی ہی تاریخ سے آگاہ نہیں۔ دو پڑوسیوں کی حیثیت سے دنیا بھر میں امریکہ اور کینیڈا کے پرامن تعلقات کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ کنزرویٹو اپوزیشن پارٹی لیڈر نے کہا ہے کہ کینیڈا ایک عظیم خود مختار ملک ہے یہ کبھی امریکہ کی 51ویں ریاست نہیں بنے گا۔
جسٹن ٹروڈو کی عظیم سیاسی و انتخابی کامیابی اور اب ایک مقبول و ہر دلعزیز وزیراعظم کا مستعفی ہونا جمہوریت کا حسن ہے‘ مگر وہ کیسے؟ یہ جمہوریت ہی کا حسن ہے کہ کوئی بھی کرشماتی شخصیت شبانہ روز محنت سے 34 سیٹوں والی پارٹی کو 184 سیٹیں دلا سکتی ہے اور نتائج کو کہیں مینج نہیں کیا جاتا ۔یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ دو بار ایک پاپولر وزیراعظم ہونے کے باوجود ٹروڈو نے اپنے آپ کو کبھی ناگزیر نہیں سمجھا۔
ذرا جمہوریت کے اس بے مثال حسن کو دیکھئے کہ جب ٹروڈو نے محسوس کیا کہ اس کی مقبولیت کا گراف نیچے آ گیا ہے تو اس نے بلاتاخیر اپنا استعفیٰ قوم اور پارٹی کو پیش کر دیا۔