جنوری 2025ء میں کینیڈا کی لبرل پارٹی کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے جا رہا تھا۔ کئی سروے رپورٹوں میں یہاں تک کہا گیا کہ گزشتہ تین الیکشن مسلسل جیتنے والی پارٹی اس بار پارلیمنٹ میں سو سے بھی کم سیٹیں لے گی۔ اس کے مقابلے میں کنزر ویٹو پارٹی کے بارے میں یہ پیشگوئی کی گئی کہ وہ بہت بڑی اکثریت سے کینیڈا کا وفاقی انتخاب جیت لے گی۔ مگر دو ماہ بعد یہ کیا کرشمہ ہوا کہ لبرل پارٹی چوتھی بار انتخاب جیت گئی اور کنزر ویٹو پارٹی اندازوں سے بہت کم سیٹیں حاصل کر سکی اور اس کا لیڈر پیئر پوئیلیور اپنی سیٹ بھی ہار گیا۔
ماضی قریب کے دو وزرائے اعظم کے طرزِ حکمرانی سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ دونوں نیم جمہوری نہیں حقیقی جمہوری ملکوں کے حکمران تھے۔ ایک کینیڈا کی وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوش ہونے والے جسٹن ٹروڈو اور دوسری 2017ء سے 2023ء تک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم رہنے والی جیسنڈا آرڈرن۔ دونوں کا ایجنڈا سماجی و معاشی ناانصافی کا خاتمہ تھا۔ تقریباً نو برس تک اچھی حکمرانی کے بعد چھ جنوری 2025ء کو جسٹن ٹروڈو نے پارٹی کی صدارت اور وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اگر اس سوال کا جواب صرف ایک لفظ میں دینے کی کوشش کی جائے تو وہ ہے ''حقیقت پسندی‘‘۔ جی ہاں یہ وہی حقیقت پسندی ہے جس سے تیسری دنیا کے حکمران بالعموم اور پاکستان کے حکمران بالخصوص محروم ہوتے ہیں۔ سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی وہ اقتدار سے ہر حال میں چمٹے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹروڈو نے دیکھ لیا کہ اس کی مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا ہے۔ اس کے دوسرے دورِ حکومت میں گھروں کی قیمتیں اور فلیٹوں کے کرائے ناقابلِ برداشت ہو گئے۔ اسی طرح ٹیکسوں کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ٹروڈو نے حقیقت پسندی ہی نہیں بلکہ دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے تخت و تاج چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
کینیڈا کے نئے منتخب ہونے والے وزیراعظم مارک کارنی کا سیاست سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ وہ بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر اور ممتاز ماہرِ معیشت تھے لیکن انہوں نے اپنی انتخابی مہم نہایت جوش و خروش اور ذہانت و سمجھداری سے چلائی۔ ایک طرح سے ان کی انتخابی کامیابی کا سہرا ٹرمپ اور اس کے ٹیرف کے سر بندھتا ہے۔ مارک کارنی نے انتخابی مہم کے دوران ہونے والے ٹی وی مباحثوں میں ٹرمپ کی دھمکیوں بالخصوص کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے اور اس کی امریکہ کیلئے برآمدات کے ٹیرف میں بہت زیادہ اضافہ کرنے پر شدید تنقید کی۔ کارنی نے زور دے کر کہا کہ کینیڈا اپنی خود مختاری کا کبھی سودا نہیں کرے گا۔ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ اگر امریکہ ٹیرف کم نہیں کرے گا تو ہم نئی منڈیاں تلاش کر لیں گے۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ بات ووٹروں کی سمجھ میں آ گئی۔ کارنی نے وہ باتیں کیں کہ جو کینیڈا کے باشندوں کی دل کی آواز تھیں:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
کنزر ویٹو پارٹی ٹرمپ کی حامی سمجھی جاتی تھی۔ اگرچہ وہ بھی ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف تھی مگر وہ زور دار انتخابی مہم چلا سکی اور نہ ہی ٹرمپ کی کینیڈا کے بارے میں پالیسیوں کو شدت سے نشانۂ تنقید بنا سکی۔ اس لیے نہ صرف پارٹی بلکہ اس کا لیڈر پیئر پوئیلیور اپنی سیٹ بھی ہار گیا۔ جمہوریت کا یہ حسن بھی دیکھیے کہ اپوزیشن لیڈر نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کی اور یہ اعتراف کیا کہ لبرل لیڈر کارنی نے اُن سے کہیں بڑھ کر امریکہ کے پیدا کردہ حالات سے ذہانت و جرأت سے فائدہ اٹھایا۔ کیوبک بلاک کے سربراہ فغانسو وہ واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جو الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کے سب سے بڑے حسن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاور ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو ووٹ دیتے ہیں یعنی ووٹرز ہی ہارجیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ذرا پاکستان کے تناظر میں سوچئے کہ کیا یہاں بھی پاور ووٹرز کے ہاتھ میں ہوتی ہے یا کسی اور کے ہاتھ میں؟
یہ بھی جمہوریت کا کتنا بڑا حسن ہے کہ کسی ایک امیدوار یا پارٹی نے کینیڈا کے خود مختار الیکشن کمیشن پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ حقیقی جمہوریت میں کمیشن خود مختار ہوتا ہے‘ ہائبرڈ جمہوریت میں نہیں۔ حتمی نتائج آنے کے بعد اس وقت کینیڈا میں پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ لبرل پارٹی کے پاس 343 کے ہاؤس آف کامنز میں 169 سیٹیں ہیں جبکہ کنزر ویٹو پارٹی کے پاس 144‘ کیوبک بلاک کے پاس 22 اور نیو ڈیمو کریٹک پارٹی کو سات سیٹیں ملی ہیں۔ لبرل پارٹی کو حکومت تشکیل دینے کیلئے صرف تین سیٹوں کی ضرورت ہے ۔ این ڈی پی کے نوجوان حامیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹی کے چھ فیصد ووٹ آئے ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں اسے ایک ڈیڑھ فیصد سیٹیں ملی ہیں۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے کیونکہ اس سے ہر ووٹر کے حصے میں اپنے ووٹ کا ثمر ضرور آتا ہے اور اس کی آواز ایوان میں پہنچتی ہے۔ امریکی صدر نے سو سو طرح سے کینیڈین ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی کہ ان کی بات مان کر کینیڈا کے شہریوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو جائے گا۔ ان کی معیشت بہتر ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ‘ تاہم کینیڈا کے باشعور ووٹروں نے وہ فیصلہ کیا کہ جو انہوں نے اپنے اور اپنے ملک کیلئے بہتر سمجھا۔
الیکشن میں لبرل لیڈر کارنی کی کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں مبارکباد دی۔ کارنی نے ٹرمپ پر اپنا مؤقف نہایت جرأت مندی سے واضح کیا۔ دونوں قائدین کی بالمشافہ ملاقات جلد متوقع ہے۔ کارنی نے اپنے عوام کو بتایا کہ وہ امریکی صدر سے تجارت اور سکیورٹی کے بارے میں اپنی شرائط پر بات چیت کریں گے۔ مذاکرات اور بات چیت بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ کینیڈا کے عوام نے لبرل پارٹی کے نو منتخب قائد حزبِ اقتدار سے بڑی اونچی توقعات قائم کر لی ہیں۔ ممتاز اکانومسٹ اور بینکر کی حیثیت سے کارنی کی شہرت مسلمہ ہے۔ دیکھیے وہ معیشت کے علاوہ سیاست کے میدان میں کیا جوہر دکھاتے ہیں کہ کوچۂ سیاست میں وہ نو وارد ہیں۔
لبرل لیڈر کارنی نے سماجی نوعیت کا فلاحی ایجنڈا ترتیب دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنا پانچ نکاتی ترجیحی پروگرام کینیڈین عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس پروگرام کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ آنے والی حکومت گھروں کی تعمیر کو دُگنا کر دے گی اور ان کے تعمیراتی اخراجات میں ہر ممکن کمی کرے گی۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ٹیکسوں میں واضح کمی کی جائے گی تاکہ عام شہری کیلئے زندگی آسان ہو سکے۔ اُن کی منصوبہ بندی کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک کینیڈا نیشنل پاور گرڈ قائم کیا جائے گا تاکہ امریکی بجلی پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ دفاعی اخراجات میں دو فیصد اضافہ ہو گا۔ پانچواں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں گے اور اپنی آٹو انڈسٹری کو مضبوط تر بنانے کیلئے کوششیں تیز تر کر دیں گے۔
پاکستانی لیڈر بھی جمہوریت کے حسن کا بڑا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال کینیڈا کے جمہوری حسن کے صرف ایک نکتے کو ہم من حیث القوم اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیں تو ہمارے حالات سدھر سکتے ہیں۔ وہ نکتہ ہے کہ پاور کا فیصلہ ووٹر کرتے ہیں کوئی اور طاقت نہیں۔امریکہ کے علاوہ کینیڈا اور بھارت کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس موقع پر ہم آگے بڑھ کر کینیڈا کے ساتھ تجارتی لین دین کا دائرہ بہت وسیع کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں بااثر پاکستانی کینیڈین ہمارا دست و بازو ہوں گے۔