قارئین جانتے ہیں کہ خاکسار گزشتہ دو اڑھائی ماہ امریکہ میں مقیم رہا۔ اس دوران جب وہاں یہ خبر پہنچی کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز میو ہسپتال کے دورے پر تشریف لے گئیں تو وہاں مریضوں نے طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کے بارے میں شکایات کیں جس پر محترمہ نے مریضوں کے سامنے سر عام کھلی کچہری میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ملازمت سے ہٹا دیا۔ جب ''اپنا‘‘ کے پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کو یہ خبر ملی تو انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے اور اس عمل کا آغاز بنیادی صحت یونٹوں کو کنٹریکٹ پر دینے سے کر دیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کے اس اقدام پر ڈاکٹرز‘ نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کئی قارئین نے مجھے توجہ بھی دلائی کہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا جائے۔ تاہم وہاں پر وسیع تر خبروں تک رسائی نہ تھی اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وطن پہنچ کر زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر پیش کروں۔
اگر خوش گمانی سے کام لیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کے عوام کی بہتر طبی سہولتوں تک رسائی چاہتی ہوں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی صحت کی مطلوبہ سہولتوں تک آسان رسائی نہیں‘ لہٰذا وزیراعلیٰ نے علامات تو درست سمجھی ہیں‘ کسی حد تک اُن کی تشخیص بھی ٹھیک ہے مگر ہسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنے کا جو علاج انہوں نے سوچا وہ کسی طرح بھی درست نہیں۔ گویا تشخیص درست مگر طریقۂ علاج غلط ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کا آئیڈیا وزیراعلیٰ پنجاب نے پہلی بار دریافت نہیں کیا‘ ان سے پہلے بھی کم از کم دو تین بار پنجاب میں اس طرح کے تجربات ہوئے جو ناکامی سے دوچار ہوئے۔
کسی زمانے میں پنجاب کے سرکاری تعلیمی ادارے اور یہاں کے حکومتی میڈیکل کالج اور ہسپتال پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی مثالی سمجھے جاتے تھے۔ انہی سرکاری سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل سائنسدان‘ ڈاکٹرز اور پروفیسرز دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے وہاں اپنی مہارت‘ خدمت اور دیانت کی دھاک بٹھا دیتے۔ اسی طرح ان سرکاری تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات ملک کے اندر مقابلے کے امتحانوں میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے تھے۔ پھر پاکستان میں پرائیویٹ اور انگلش میڈیم سکولوں کی وبا عام ہوئی۔ اب امیروں کیلئے غیر ملکی نصاب والے انگلش میڈیم سکول اور حکومت کی طرف سے نظر انداز کیے گئے سرکاری اردو میڈیم سکول غریبوں کیلئے ہیں۔
18ویں ترمیم کے مطابق صحت اور تعلیم کے شعبے صوبوں کی تحویل میں آ چکے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت طبی سہولتوں کے پہلے سے موجود سرکاری سٹرکچر کی خامیوں کو دور کرتی اور عام آدمی کو عزت واحترام کے ساتھ حکومتی ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں میں اچھی صحت کی سہولتیں فراہم کرتی۔ اس کے بجائے پہلے سے آزمائے گئے ناکام تجربات کو دہرانے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ قانون کی پاسداری کرنے والے امیر یا غریب ملکوں میں حکومتیں جب کوئی نیا تجربہ کرنے کا ارادہ کرتی ہیں تو وہ اس شعبے کے موجودہ اور سابق اہلکاروں کے اجلاس بلاتی ہیں۔ اُن کی آرا سے مستفید ہوتی ہیں‘ نیز اہلِ حکمت ودانش سے بھی مشورہ کرتی ہیں۔ اس طرح وہ ماضی‘ حال اور مستقبل پر نظر دوڑا کر باہم مشاورت سے فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ حاکم یا خادم چند مقربین کی حسبِ منشا باتیں سن کر راتوں رات صدیوں سے چلنے والے نظام کی بساط لپیٹ دیں۔
طبی سہولتوں کی نجکاری کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ صحت کی سہولتوں کو حکومتی اور ریاستی انتظام سے نکال کر پرائیویٹ افراد یا کمپنیوں کو منتقل کر دیا جائے۔ ان کمپنیوں میں این جی اوز اور منافع کے حصول کیلئے کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ 1980ء کے عشرے میں جن ممالک میں یہ تجربات اس امید پر کیے گئے کہ پرائیویٹ کمپنیاں اپنی اچھی شہرت اور عمدہ منافع کیلئے مریضوں کو بہتر خدمات وادویات مہیا کریں گی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس اور بیچارے مریض رُل گئے۔ نجکاری کمپنیوں نے حکومتوں سے فنڈز تو لے لیے مگر بے وسیلہ لوگوں تک مطلوبہ سہولتیں نہ پہنچ سکیں۔
صوبہ پنجاب میں اس قسم کی کوششوں کا آغاز 90ء کی دہائی سے جاری ہے۔ نجکاری کی اس پالیسی کے پس پردہ اصل محرک یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے نزدیک سرکاری ہسپتال غالباً اوّلیں ترجیح نہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ حکومتی وسائل کی قلت اس کا اصل سبب ہے جبکہ واقفانِ حال ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگی حکومت نے خاص طور پر 90ء کے عشرے کے وسط میں ڈاکٹروں کی سینکڑوں مستقل اسامیوں کی تعیناتی روک کر مختصر مدت کے کنٹریکٹ پر ڈاکٹروں کی بھرتی شروع کی۔ کنٹریکٹ پر ڈاکٹروں کو بھرتی کرنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ ملازمت کے بارے میں بے یقینی اور معاشی عدم استحکام کی بنا پر اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے ڈاکٹروں نے غیر محفوظ مستقبل سے نجات پانے کے لیے بیرونِ ملک کو رخ کر لیا۔ حالانکہ میں کئی ڈاکٹر دوستوں کو جانتا ہوں کہ ایک ڈاکٹر دوست ایف آر سی ایس کرنے کے بعد برطانیہ میں اچھی ملازمت پر فائز تھے مگر وہ اپنی مادرِ علمی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تدریسی وتربیتی خدمات انجام دینے کے لیے وطن واپس آ گئے۔ جب ڈاکٹروں کو کوئی کنٹریکٹر ملازمت کے کسی تحفظ اور پنشن کے بغیر بھرتی کرے گا تو کون برطانیہ یا امریکہ وغیرہ سے ملازمت چھوڑ کر واپس آئے گا؟
پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے مرحلے پر آؤٹ سورس کیے گئے 150 مراکزِ صحت کی کوئی سرکاری رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔ تاہم واقفانِ حال کے حوالے سے ان مراکز کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ میں جعلی اندراجات‘ کمتر معیار والے غیر کوالیفائیڈ سٹاف کی بھرتیاں‘ حکومت کے طے کردہ معیار سے بہت کم تنخواہ ملنا اور دیگر مشاہدات شامل ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے کنٹریکٹرز کو کم اور تاخیر سے معاوضوں کی ادائیگی کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ پنجاب حکومت سمجھتی ہے کہ کنٹریکٹرز کو رقوم ادا کر کے وہ لوگوں کو مفت میڈیکل سہولتیں فراہم کر رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔ اس وقت پنجاب میں ہیلتھ کیئر کا اچھا سٹرکچر موجود ہے۔
پنجاب میں اڑھائی ہزار بنیادی ہیلتھ یونٹ ہیں اُن کے بعد پندرہ بیس یونٹوں کے اوپر رورل ہیلتھ سنٹر ہوتا ہے‘ پھر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہوتے ہیں اور پھر صوبے کے بڑے شہروں کے ہسپتال ہیں۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی کئی برس تک پنجاب کے شعبۂ صحت سے وابستہ نہایت اچھی شہرت کے ڈائریکٹرز ہیلتھ ودیگر اعلیٰ افسران سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا صحت کے شعبے میں بھی وہی مسئلہ ہے جو ملک کے باقی شعبوں میں ہے؛ یعنی کرپشن۔
18ویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس بہت کم فنڈ اور صوبوں کے پاس وافر مقدار میں فنڈز ہوتے ہیں۔ ہم نے بعض دوستوں سے سنا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز اُن باتوں پر بھی غور کرتی ہیں جو اُن کی منشا کے برعکس ہوتی ہیں۔ پنجاب میں شعبۂ صحت کی خامیوں کا علاج نجکاری نہیں بلکہ کرپشن کا خاتمہ ہے۔ پنجاب کے بجٹ کی آمد آمد ہے۔ سی ایم صاحبہ سے درخواست ہو گی کہ وہ پرائیویٹائزیشن کے عمل کو کچھ مدت کے لیے روکیں۔ ایک بار پھر اس معاملے کا ازسر نو جائزہ لیں اور کرپشن کے خاتمے کا تہیہ کر لیں پھر دیکھیں اسی سرکاری نظام اور انتظام سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں یا نہیں۔