اگرچہ مسلمانوں کی شمالی امریکہ میں آمد کا آغاز 16ویں صدی سے ہو گیا تھا تاہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مسلم تارکین وطن کی آمد 20ویں صدی کے اوائل سے نظر آنے لگی۔ 1960ء کی دہائی سے پاکستانی ڈاکٹرز اور دیگر تعلیم یافتہ ہنر مندوں کی امریکہ میں نقل مکانی کا آغاز ہو گیا تھا۔ مسلمان جہاں جاتے وہاں اپنے عقائد اور اپنی مساجد تعمیر کرنے کا جذبہ ساتھ لے کر جاتے ہیں‘ تاہم باہر سے آنے والوں پر مقامی کلچر اپنا رنگ دکھاتا ہے‘ لہٰذا شروع شروع میں بہت سے پاکستانی بھی اس رنگ میں رنگ گئے تھے۔ اسی لیے امریکہ سے دور بیٹھے ہوئے ہمارے کچھ علمائے کرام اور بعض ماہرین اجتماعیات کی رائے یہ تھی کہ تیسری جنریشن تک پہنچتے پہنچتے اسلامی رنگ بہت مدہم پڑ جائے گا‘ مگر ہوا اس کے برعکس۔ آج تیسری جنریشن کے امریکی مسلمان نوجوانوں کی اسلام اور سیرتِ طیبہ کے ساتھ زبردست گہری وابستگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
یہ نوجوان علم دین شوق وذوق سے حاصل کرتے ہیں اور پھر اسلامی مراکز اور مساجد میں اپنے جیسے نوجوانوں اور ٹین ایجرز کے اندر دین کے ساتھ دلی وابستگی نہایت حکمت و دانائی سے پیدا کر دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی لہر چلائی گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ متعصب لوگوں کی یہ مہم بری طرح ناکام ہوئی۔ اس منفی مہم کے نتیجے میں ایک طرف مسلم نوجوان سنجیدگی کے ساتھ علم دین کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب ان پر اسلام کی حقیقی روح منکشف ہوئی تو پھر انہیں اپنے دین پر حق الیقین کی سعادت نصیب ہو گئی۔ انہیں معلوم ہوا کہ اسلام کا پیغامِ امن کسی ایک خطے یا ایک نسل یا ایک زبان بولنے والوں کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لیے ہے۔
دوسری طرف اس نفرت انگیز مہم کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر متعصب غیر مسلموں نے اخلاصِ نیت کے ساتھ اسلام کو جاننے اور سمجھنے کی سعی کی۔ اسی بنا پر گزشتہ ربع صدی سے بطورِ خاص امریکی غیر مسلم جن میں گورے‘ کالے اور دیگر پس منظر سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین شامل ہیں‘ بڑی تعداد میں مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری مسلم جنریشن کے یہ نوجوان سکالرز اسلامی مراکز‘ مساجد‘ مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات اور سیمیناروں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو بزبانِ انگریزی دورِ جدید کے اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مشائخ سوشل میڈیا جس میں یوٹیوب‘ ایکس‘ فیس بک اور نجانے آج کے کن کن مؤثر ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے ہر گوشے میں دلوں پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ یوں دل سے نکلی ہوئی بات اپنا اثر دکھاتی ہے۔
ڈیلس امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک اہم کائونٹی ہے۔ اس کائونٹی میں تقریباً تیرہ‘ چودہ کے قریب ٹاؤنز ہیں جو اپنی سٹی کونسل رکھتے ہیں اور خود کفیل و خودمختار ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک اہم موضوع ہے جس پر آئندہ ایک الگ کالم میں ان شاء اللہ روشنی ڈالوں گا۔ ڈیلس میں نوجوان اسلامی سکالرز کی ایک کہکشاں جمع ہو گئی ہے جو دلوں کو نورِ ایمانی سے منور کرتی ہے۔ ان مشائخ میں شیخ یاسر قاضی‘ شیخ عمر سلیمان‘ ڈاکٹر آصف حرانی‘ شیخ یاسر برجاس وغیرہ موجود ہیں۔آج ہم آپ کی ملاقات شیخ یاسر قاضی سے کروائیں گے۔ پاکستان میں بھی انہیں فالو کرنے اور اُن کے لیکچرز سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ شیخ یاسر قاضی اس وقت ماشاء اللہ پچاس برس کے ہو گئے ہیں۔ وہ مختلف تدریسی ودینی فرائض گزشتہ کئی برس سے امریکہ کے مختلف شہروں میں انجام دے رہے ہیں۔ آج کل وہ ڈیلس کے شہر پلینو کے ایسٹ پلینو اسلامک سنٹر کے ریذیڈنٹ سکالر ہیں۔شیخ یاسر قاضی کی زندگی کی علمی کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی۔ ہم یہی کہانی اُن کی زبانی سننے کے لیے ڈاکٹر بلال حسین اور جمشید صدیقی کے ہمراہ ٹھیک 9 بجے مئی کے تیسرے ہفتے کی خوشگوار صبح کو ایسٹ پلینو عالیشان گنبد والے وسیع و عریض اسلامی مرکز میں اُن کے آفس پہنچ گئے۔ امریکی کلچر کے مطابق وہاں کوئی حشم خدم نہ تھے۔ قاضی صاحب خود ہی گول میز کے اردگرد کرسیوں کو ترتیب سے لگا رہے تھے۔ مختصر دعا سلام اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد براہِ راست گفتگو کا آغاز کر دیا گیا۔ زیادہ تر سوالات میں نے پوچھے مگر درمیان میں کہیں کہیں ڈاکٹر بلال اور جمشید میاں نوجوانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے آج کے مسائل کے بارے میں ڈاکٹر قاضی کا نقطۂ نظر معلوم کرتے رہے۔
شیخ یاسر نے اپنے تعلیمی سفر کی نہایت اثر انگیز کہانی سناتے ہوئے یوں آغاز کیا کہ اُن کے والد گرامی پروفیسر مظہر قاضی 1962ء میں کراچی سے امریکی شہر ہیوسٹن منتقل ہوئے اور ہیوسٹن یونیورسٹی میں پتھالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔بعد ازاں وہ ساؤتھ ٹیکساس کے ایک کالج میں پتھالوجی پڑھاتے رہے۔ 30 جنوری 1975ء کو ہیوسٹن میں یاسر قاضی پیدا ہوئے۔ اس طرح وہ پیدائشی امریکن ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ہیوسٹن میں حاصل کی‘ پھر ان کے والد گرامی اپنے بچوں کی اسلامی ماحول میں تعلیم وتربیت کے بارے میں متفکر ہوئے تو انہوں نے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں درخواست دے دی۔ وہ بحیثیت پروفیسر وہاں منتخب کر لیے گئے۔ کچھ ماہ بعد پروفیسر مظہر قاضی اپنے اہل و عیال سمیت جدہ منتقل ہو گئے۔یہاں یاسر قاضی جدہ کے منارہ انگلش میڈیم سکول میں داخل ہوئے اور سیکنڈری سکول کا امتحان اچھے گریڈ میں پاس کر لیا۔ پھر وہ واپس امریکہ آ گئے۔ ہیوسٹن یونیورسٹی میں نوجوان یاسر قاضی نے بی ایس کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ میرے استفسار پر قاضی صاحب نے بتایا کہ یہاں تک ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کبھی کوئی دینی سکالر بنیں گے۔ کہنے لگے: یہ ڈگری لینے کے بعد ایک خیال دامن گیر ہو گیا جس نے کئی روز تک مجھے بے قرار رکھا کہ اب تم اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کیلئے پر تول رہے ہو مگر کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ جس دین کے تم نام لیوا ہو اور حافظ قرآن بھی ہو‘ اس کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ اس سوال کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ قاضی صاحب نے بتایا کہ میں نے ریسرچ شروع کی تو معلوم ہوا کہ اس وقت دنیا بھر میں اعلیٰ دینی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز مدینہ یونیورسٹی ہے۔ انہوں نے پختہ ارادہ باندھ لیا کہ ان شاء اللہ وہ مدینہ یونیورسٹی سے دینی تعلیم حاصل کریں گے‘ اس لیے وہاں داخلے کیلئے درخواست ارسال کر دی گئی۔ درخواست قبول ہو گئی اور یوں یاسر قاضی صاحب دس برس تک مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ اتنے طویل عرصے تک انہیں روضہ رسولﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے کا موقع ملا۔ دس برس کے دوران انہوں نے عربی زبان پر دسترس حاصل کر لی۔ قرآن‘ تفسیر‘ احادیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔
مدینہ یونیورسٹی سے بی اے اور پھر ایم اے کرنے کے بعد قاضی صاحب کے ایک مستند عالم دین بن گئے تاہم دینی تعلیم کی اتنی سیرابی کے بعد بھی ابھی ان کی تشنگی باقی تھی۔ واپس امریکہ آنے کے بعد وہ مختلف یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور دینی مراکز میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے امریکہ کی مشہور زمانہ ییل یونیورسٹی سے درساتِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے 13ویں صدی کے مشہور مفکر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی تعلیمات کے بارے میں مقالہ تحریر کیا تھا۔تعلیمی سفر کی یہ ایک حیران کن داستان ہے۔ کسی اگلے کالم میں ہم شیخ یاسر قاضی کی دینی و علمی سرگرمیوں اور اُن کے افکار اور خدمات کے بارے میں لکھیں گے۔