ہمیں جماعت‘ اہلِ جماعت اور ہر امیر جماعت اسلامی سے دلی لگاؤ رہا ہے۔ جناب حافظ نعیم الرحمن سے بھی کئی برس پر پھیلا ہوا گہرا تعلقِ خاطر ہے۔ یہی دلی لگاؤ کبھی کبھی اس خوگرِ حمد کو اپنی اختلافی رائے پیش کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جس کی دیانت و امانت کا اپنے ہی نہیں پرائے بھی اعتراف کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی اس ملک کے کراچی جیسے بڑے شہروں کی کئی بار میئر رہی‘ ایوانوں اور وزارتوں کا حصہ بھی رہی مگر آج تک اس کے اخلاص فی العمل اور دیانت و امانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ بانیٔ جماعت اسلامی‘ مفسر قرآن مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اجتہادی کارنامہ ہی یہ ہے کہ انہوں نے نقلی و عقلی دلائل سے سارے عالم اسلام کے اصحابِ فکر و دانش پر واضح کیا کہ اسلامی نظام دورِ حاضر میں جمہوریت کے ذریعے قائم ہوگا‘ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ۔ اس لئے وطن عزیز میں جب کبھی عدالتی نظام‘ جمہوریت یا انتخابی سیاست کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان کی سیاسی قوتوں نے جماعت اسلامی کی طرف رہنمائی کیلئے دیکھا۔
گزشتہ برسوں کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی کی حیثیت سے حافظ نعیم الرحمن صاحب نے جماعت اسلامی کو عروس البلاد میں بڑی سیاسی کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ یقینا ان کی یہ سیاسی کامیابی ہی اہلِ جماعت کے نزدیک انہیں امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کرنے کا بڑا سبب بنی ہوگی۔تاہم ان دنوں پاکستان اور پاکستان سے باہر یہ تاثر ہے کہ جماعت اسلامی مین سٹریم سیاست سے کنارہ کش ہو گئی ہے۔ پاکستان کے بہت سے سیاسی و صحافتی حلقوں کے تجزیوں کے مطابق جماعت اسلامی نے اپنی روایت کے برعکس نظریاتی‘ سیاسی‘ عدالتی اور جمہوری معاملات میں درپیش مشکلات میں قوم کی رہنمائی کرنے کے بجائے عوام کو درپیش روزمرہ مشکلات پر حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنوں تک خود کو محدود کر لیا ہے۔
ایوان میں اپوزیشن کے کئی ووٹوں کو مختلف قسم کے ترغیبی حربوں سے مینج کر کے عدلیہ کو پابہ جولاں کرنے کیلئے 26ویں آئینی ترمیم منظور کروائی گئی۔ اب شنید ہے کہ عدلیہ کو مزید فکس اَپ کرنے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے‘ اور حکومت نے ایوان میں دو تہائی اکثریت کا بندوبست بھی کر لیا ہے۔ اس پر جماعت اسلامی نے کسی بڑے قانونی و سیاسی فورم پر کسی سیمینار کا کوئی اہتمام کیا‘ نہ عدالت عظمیٰ میں چارہ جوئی کی اور نہ ہی بار کونسلوں اور عوامی سطح پر کوئی احتجاج کیا۔ اسی طرح پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں طویل تاخیر اور اس کو بیورو کریسی کی تحویل میں دینے کیلئے قانون سازی کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جماعت ہمیشہ بلدیاتی انتخابات میں پیش پیش رہی مگر اس مرتبہ پنجاب میں غیر متحرک دکھائی دے رہی ہے۔ دو تین ماہ قبل امریکہ کی کئی ریاستوں میں جانے کا موقع ملا۔ جہاں بھی گئے وہاں جماعت سے دلی لگاؤ اور گہری ہمدردی رکھنے والے پاکستانی امریکنوں نے عملی سیاست سے جماعت کی دوری پر خاصی تشویش کا اظہار کیا۔ ڈیلس کی ایک مسجد میں ایک سینئر پاکستانی ڈاکٹر نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اُن کے پیغام کو من و عن محترم حافظ نعیم الرحمن تک پہنچاؤں۔ تین چار ہفتے قبل منصورہ لاہور میں جناب حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات ہوئی تومیں نے ان کا پیغام حافظ صاحب تک پہنچایا کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ حافظ صاحب! کیا آپ بھی مقتدرہ سے پیوستہ ہو کر امید ِبہار کے متمنی ہیں؟ حافظ صاحب نے کہا کہ اگر ہم مقتدرہ سے پیوستہ ہوتے تو کراچی کے میئر ہوتے۔ یہ بات تو رہی اپنی جگہ مگر جماعت اسلامی ان دنوں پاکستان بالخصوص پنجاب کے سیاسی منظر نامے پر کہیں دکھائی یا سنائی نہیں دے رہی۔جماعت اسلامی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیوں میں تسلسل نہیں۔ یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے۔ شاید جماعت کو ادراک نہیں کہ سیاست ایسی گاڑی نہیں کہ جس پر آپ جب چاہیں سوار ہو جائیں اور جب چاہیں کہیں راستے میں اُتر جائیں۔ یہ گاڑی چھوٹ جائے تو آپ اپنی منزل مقصود سے کوسوں دور رہ جاتے ہیں۔ سیاست ایک مسلسل سفر کا نام ہے‘ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ جب چاہیں انتخابات میں حصہ لیں‘ جب چاہیں بائیکاٹ کر دیں‘ جب چاہیں کسی الائنس کاحصہ بن جائیں اور جب چاہیں کوئی ٹھوس متبادل انتخابی حکمت عملی اختیار کیے بغیر انتخابی اتحاد کو چھوڑ دیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے گزشتہ انتخاب میں حصہ لینے والے 300امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ دلجمعی سے اپنے اپنے حلقے میں کام کریں‘ ان کی خدمت کریں اور مربع خلائق بن جائیں‘ اگلے دو تین انتخابات میں عمومی طور پر آپ ہی جماعت کے امیدوار ہوں گے۔ ان امیدواروں نے اسی جذبے کے ساتھ کام کیا۔ وہ اگلے انتخاب کے لیے بھی اپنے خاندانی‘ شخصی اور علاقائی وسائل کو بھرپور طریقے پر استعمال میں لا رہے تھے۔ اب دو تین ماہ قبل موجودہ امیر جماعت اسلامی جناب حافظ نعیم الرحمن نے اسلام آباد اور کئی دوسرے مقامات پر اعلان کیا کہ ہمارا کوئی امیدوار نہیں‘ جب وقت آئے گا تب دیکھا جائے گا۔پنجاب اور خیبر پختونخوامیں ایسا تو عوامی سطح پر مقبول ترین پارٹیاں بھی افورڈ نہیں کر سکتیں۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ایک عملی حاصل کا نام ہیں۔ یہاں برادریاں‘ رشتہ داریاں‘ خاندانی و علاقائی وابستگیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ خود جماعت اسلامی نے دیربالا سے 1970ء میں صاحبزادہ صفی اللہ صاحب کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ صاحبزادہ صاحب کا خاندان وہاں کا معزز روحانی خاندان ہے۔ پھر بعد کے انتخابات میں ان کے بھائی فتح اللہ صاحب اور پھر ان کے بھتیجے صاحبزادہ طارق اللہ ایم این اے منتخب ہوئے۔ یہ دونوں بھی ارکان جماعت تھے۔
جماعت کے ایک سابق مفکر نائب امیر جماعت اسلامی جناب خرم مراد مرحوم نے جماعت کی کامیابی اور ایوانوں میں اس کی یقینی موجودگی کیلئے ایک انتخابی منصوبہ پیش کیا تھا جس کے مطابق جماعت کو سارے ملک میں کم از کم پچیس، تیس سیٹوں پر تحریک سے وابستہ الیکٹ ایبلز کو اپنا امیدوار نامزد کرنا چاہیے۔ سراج الحق صاحب نے اس منصوبے پر عمل درآمد کیا اور جماعت سے وابستہ 800امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو اس یقین دہانی سے مختلف علاقوں کے انتخابی اکھاڑے میں اتارا ۔ اب حافظ صاحب کے اعلان کے بعد یہ 800امیدوار شکستہ دل ہو کر انتخابی اکھاڑے سے باہر بیٹھے ہیں۔ اب جماعت ووٹروں کو کیسے یقین دلائے گی کہ وہ سیاست میں غیر سنجیدہ نہیں؟
تقریباً ایک ماہ قبل ہونے والی ملاقات میں امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن صاحب پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کیلئے زیادہ متحرک محسوس نہ ہوئے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ سردست جناب حافظ نعیم الرحمن کی پنجاب میں انتخابی پالیسی یہ ہے کہ جب ''وقت آئے گا تب دیکھا جائے گا‘‘ وقت تو سر پر آ چکا ہے۔ گزشتہ ایک برس اس لحاظ سے جماعت کے پاس سنہری موقع تھا کہ پی ٹی آئی میدان میں نہ تھی اور مسلم لیگ (ن) بوجوہ میدان میں نکل نہ سکتی تھی مگر جماعت نے اس موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
ہماری درخواست ہوگی کہ جناب حافظ نعیم الرحمن اپنی انتخابی پالیسی پر نظرثانی فرمائیں۔ جماعت دینی جماعتوں کے الائنس میں جائے یا اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرے۔اگر خدانخواستہ جماعت مستقبل قریب کے مقامی‘ صوبائی اور مرکزی ایوانوں میں منتخب نہیں ہوتی تو یہ مولانا مودودیؒ کے اس فلسفے کی نفی ہو گی کہ ہم اسلامی انقلاب کردار سازی اور انتخابی کامیابی سے لائیں گے۔