ابوجی

برسوں بیت گئے۔ لیکن یادوں کی تختی پر لکھے حروف ابھی تک نمایاں ہیں۔ شیشم کی گھنی چھائوں‘ بیریوں کے نیم ملگجی سائے‘ انتہائی نگہداشت میں رکھی جانے والی رنگ برنگے گلابوں کی کیاریاں‘ درو دیوار کی مانوس خوشبو اور چار کمروں پر مشتمل ایک سادہ سا گھر جہاں ہر روز صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ‘ سورج کی کرنوں کے ساتھ موسیقیت لے کر آیا کرتی تھی۔ جہاں کالے تیتراور طوطے کی بولیاں فضائوں کو مسحور کرتی تھیں ۔ جہاں ''اٹھوجاگو‘‘ کی آوازیں چہل پہل کا محرک ہوتی تھیں اور یوں زندگی کی بھاگ دوڑ ''سونے جاگنے‘‘ اور ''بھاگنے دوڑنے‘‘ کی کشمکش میں ڈھل جاتی۔بے فکری اور لا اُبالی پن کا حسین ترین دور اور زندگی بہت خوبصورت...اتنی خوبصورت کہ دوبارہ ایسی نہ ہوسکی۔
گائوں کا سادہ ساگھر ... گھر کیا تھا ایک دنیا تھی اورآپ اُس گھر میں بسنے والی دنیا کے ضامن و ذمہ دار تھے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ دھوپ چھائوں کے سارے جھگڑے اور بہار خزاں کے سب بکھیڑے آپ کے ذمہ تھے۔ زندگی کے جاڑوں میں حدت آپ کے ذمے‘ مسافتوں کے تپتے صحرا میں سایہ آپ کے ذمے۔ لُو میں سرد جھونکا آپ کے ذمے‘بارش میں چھتری آپ کے ذمے‘ اندھیروں میں روشنی آپ کے ذمے‘ پھول آپ کے ذمے اور کیاریاں آپ کے ذمے! اور ہم سب جنم جنم کے نکھٹو ‘سست رو اور بے فکرے لوگ...کیل اُکھڑ جائے یا پینٹ ‘اینٹ سرک جائے یا چھت ٹپک جائے‘سب کی نظریں بے ساختہ آپ کی طرف اُٹھ جاتیں! یوں یہ گھر لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے تعمیر ہوا اور تسلسل کے ساتھ اُس کی نوک پلک درست ہوتی رہی۔چند سال قبل میرے ساتھ گائوں آئے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کا گھر کون سا ہے تو مجھ سے یہ دعویٰ نہ ہو سکا کہ یہ میرا گھر ہے ۔ میں نے گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ جو چار کمروں پر مشتمل گھر ہے یہ ہمارے ابوجی کا گھر ہے اُنہوں نے ایسے سلیقے سے اس کی تعمیر کی کہ پچاس برس لگ گئے۔بعد میں ایک گھر راولپنڈی میں بھی تعمیر کیا کہ آپ کے خیال میں گائوں کا گھر عزت ہوتا ہے اور شہر کا گھر ضرورت !
پھر زندگی کے چند اور برس بیت گئے اور آپ مسلسل ''اللہ مالک ہے‘‘ کے یقین کے ساتھ چلتے رہے۔جب بھی کبھی کسی مشکل میں جا پھنستے تو آپ کا یقین کامل''اللہ مالک ہے‘‘ ہمیں مسائل سے یوں نکال دیتا جیسے مکھن سے بال نکل جاتا ہے۔سخی ایسے کہ ہمیشہ ہماری جدو جہد میں شانہ بشانہ رہے اور ہماری ضرورتیں پوری کرتے رہے اور درویش صفت ایسے کہ ہماری کامیابیوں کے حصول کے دوران ساتھ ساتھ رہے لیکن کامیابیوں کے ثمرات سے یوں لا تعلق ہو گئے جیسے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے ۔
زندگی میں آپ دوبار شدید علیل ہوئے۔ 2009ء میں جب میں منگلا تعینات تھا تو آپ شدید بخار کی زد میں آگئے۔ میں نے آپ کو علاج کی غرض سے فوری طور پر منگلا منتقل کیا۔ میری اور ڈاکٹروں کی پریشانی اُس وقت زیادہ ہوگئی جب ہسپتال میں پندرہ دن گزر گئے اور بخار ٹوٹنے کو نہیں آیا۔ میرے لیے بہت مشکل دن تھے ۔ سخت مایوسی اور پریشانی کے عالم میں سارا دن آپ کی عیادت کو آنے و الے عزیز و اقارب کو دیکھتا اور رات کو آپ کے پاس ہسپتال میں سو جاتا۔ شدید ذہنی دبائو اور اُلجھن کی وجہ سے رات کے کسی پہر اُٹھ کے بیٹھ جاتا ۔ایک رات میری آنکھ کھلی تو میں نے وضو کر کے دو نفل ادا کیے اور خالق کائنات سے دعا کی کہ میں کسی بڑے صدمے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور مجھے مہلت درکار ہے ۔ دو دن بعد رات کے پچھلے پہر مانگی ہوئی مہلت مل گئی ۔ سی ٹی سکین کے ذریعے ٹی بی تشخیص ہوئی اور جس دن ٹی بی کا علاج شروع ہوا بخار کا زور ٹوٹ گیا اور آپ اگلے چند دنوں میں صحت یاب ہو کر واپس راولپنڈی چلے گئے ۔
کچھ برس مزید بیت گئے اور چند ضروری کام بھی تکمیل پاگئے ۔ فروری 2016 ء کی ایک سرد شام آپ نے مجھے اسلام آباد سے راولپنڈی بلوایا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ''یار میری ٹانگوں سے لگتا ہے جان نکل گئی ہیــ‘‘ ۔ ایک بہادر آدمی اور غیر ت مند باپ جس نے اپنے بڑے بیٹے سے زندگی بھر پانی کا گلاس تک نہ مانگا اُس کی زبان سے ایسے الفاظ سن کر میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا۔ لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس بار بہادر آدمی کا کردار مجھے ادا کرنا تھا ۔ میں آپ کو لے کر اسلام آباد آگیا اور اگلے دن ہی مختلف ٹیسٹ شروع کروا دیے ۔ جیسے جیسے مختلف رپورٹس آنا شروع ہوئیں تو پریشان کن حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے ۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور چھ ماہ تک سانس کی ڈوری ٹوٹ سکتی ہے۔ میں شدید ذہنی دبائو اور کرب کا شکار ہوگیا۔ جیسے جیسے میں مختلف ڈاکٹروں سے مشاورت کرتا تو میرے خدشات یقین میں بدلتے گئے کہ مہلت ایک بار دی جا چکی ہے اور اب شاید مزید مہلت کی گنجائش نہیں رہی۔ مجھے اندازہ تھا کہ آپ بہادر آدمی ہیں اور اگر آپ کی بیماری کی تفصیلات آپ سے شیئر کر لیتا تو آپ حوصلے سے سنتے اور مردانہ وار مقابلہ کرتے لیکن پھر بھی ہم نے فیصلہ کیا کہ آپ کو وہ حقیقت نہ بتائی جائے جو بہر طور آپ جان چکے تھے ۔
اور پھر فروری سے جون تک رفاقتوں کی کئی صدیاں گزر گئیں ۔ میں شب و روز آپ کے ساتھ بھاگ دوڑمیں لگا رہا ۔یہ بھاگ دوڑ اس لئے نہیں کہ مجھے متعدد ڈاکٹروں کی تشخیص پر شبہ تھا بلکہ اس لیے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے ساتھ گزارنے کا موقع مل گیا ۔ آخری دس دن سخت مشکل کے دن تھے ۔ میں ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا اور جوں ہی میں تھوڑی دیر کیلئے کسی ضرورت کے تحت ادھر اُدھر ہوتا آپ فوراً میرے بارے میں پوچھنا شروع ہو جاتے اور میں فوراً آپ کے کمرے کی طرف بھاگتا۔ مجھے دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں چمک آجاتی اور میں بے بسی پر روہانسا ہو جاتا ۔مجھے سمجھ نہ آتا کہ مجھ جیسے دنیا کے بے بس اور کمزور انسان سے آپ نے کیا اُمید پال رکھی تھی۔ اسی دوران ایک دن ایک خیال اچانک میرے دماغ کے آر پار ہوا۔ میں نے سوچا کہ موت کی ٹائم لائن تو کسی کو معلوم نہیں ۔ اگر وقت کے دھارے میں موت کی ٹائم لائن پر میرا نام پہلے اُبھر آیا تو آپ کی آنکھوں میں پلنے والی اُمید کا کیا ہو گا۔ میں بار ہا اعتراف کر چکا ہوں کہ میں آپ کی ساری اولاد میں سب سے سست رو واقع ہوا ہوں۔ باجی یاسمین ایسی بیٹی اللہ نصیب والوں کو عطا کرتا ہے۔عظمت جیسے کام کے بیٹے کم کم ہوتے ہیں ۔ نازنین اور انجم جیسے بچے بھی خوش قسمتی سے عطا ہوتے ہیں لیکن ایک اعزاز تھا جو میرے حصے میں آگیا۔ آخری تین دن جب آپ کی یادداشت آپ کا ساتھ چھوڑ گئی تو آپ کو صرف ایک نام یاد رہ گیا اور وہ میرا نام تھا۔
آج چھ جون ہے ۔آپ کو ہم سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے ہیں ۔ یہ پانچ برس بھی عام سالوں کی طرح گزر گئے۔ ان پانچ برسوں میں بھی سارے موسم ایسے ہی آئے جیسے آیا کرتے تھے... بظاہر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے ہوا کرتا تھا۔ وہی بہار‘ وہی خزاں‘ وہی ساون ‘وہی بھادوں! لیکن زندگی ویسی نہ ہوئی جیسی ہوا کرتی تھی اور شاید کبھی دوبارہ نہ ہو سکے جیسی ہوا کرتی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں