گفتگو اور مکالمے کی روایت

میں گزشتہ ہفتے دو دن کے لیے لاہور میں تھا۔ لاہور میں مجھے دو دنوں میں تین سیمینارز میں شرکت کرنا تھی اور بہت سے ایسے کام نمٹانے تھے جو کئی ماہ سے التوا میں چلے آرہے تھے۔ ہفتے کی صبح مجھے میرے بہت ہی محترم دوست جناب ڈاکٹر پیر طارق شریف زادہ کا فون آیا کہ اُن کے ہاں ماہانہ 'مجلسِ زندہ دِلاں‘ کی نشست کا اہتمام ہے اور مجھے فرمایا کہ چونکہ آپ لاہور میں موجود ہیں‘ اس لیے شرکت کریں۔ نشست کے اوقات شام ساڑھے سات سے لے کر رات ساڑھے نو بجے تک تھے۔ میرا ڈاکٹر صاحب سے عقیدت و احترام کا رشتہ ہے۔ وہ ایک سچے عاشقِ رسول ہیں‘ کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیز اُن کے علم سے استفادہ کرتی ہیں اور متعدد بار وہ بین الاقوامی سطح پر بطور سیرت سکالر پاکستان کی نما ئندگی کر چکے ہیں۔ میں اپنی مصروفیات مختصر کرکے رات نو بجے کے قریب ماڈل ٹاؤن میں واقع اُن کی رہائش گاہ پر حاضر ہو گیا۔ نشست میں چالیس کے قریب لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی اور مختلف موضوعات پر گفتگو جاری تھی۔ میرے لیے ایسی مجلس حیرت کا باعث تھی جس میں علمی اور عقلی مباحث کا اہتمام ہو اور زیادہ خوشگوار حیرت یہ کہ بہت سے نوجوان اِس مباحثے میں انتہائی سنجیدگی سے شریک تھے اور دلچسپی کے ساتھ سیرت‘ تصوف اور تاریخ کے حوالے سے سوال و جواب میں محو تھے۔ میں نے محترم ڈاکٹر صاحب‘ جو اِس مجلس کے روح رواں ہیں‘ سے مجلس کے پس منظر کے بارے میں دریافت کیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے بتایاکہ 'مجلسِ زندہ دِلاں‘ کا تصور سے تشکیل تک کا عمل معروف صوفی ادیب محترم اشفاق احمد کی محبت و شفقت کی مرہونِ منت ہے۔ ڈاکٹر صاحب‘ اشفاق احمد سے اپنے تعلق کو بہت عقیدت سے بیان کرتے ہیں۔ 1997ء میں جب ڈاکٹر صاحب کی اشفاق صاحب سے ملاقات ہوئی تو گفتگو کے لیے ایک خوبصورت بیٹھک کا اضافہ ہوا اور بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں یہ سلسلہ گاہے گاہے چلتا رہا اور ڈاکٹر صاحب اور اُن کے رفقا اس مجلس سے فیض حاصل کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد جب اشفاق احمد صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے ان مجالس پر رائے چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے ان مجالس کو پہلی مرتبہ 'مجلسِ زندہ دِلاں‘ کہہ کر تبصرہ کیا جس پر اشفاق احمد صاحب نے اس نام کی محبت بھری تائید کر دی۔ اشفاق احمد صاحب کے بعد چند سال یہ مجلس تعطل کا شکار رہی لیکن اب ماہانہ نشست کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے اور ڈاکٹر صاحب خود اس مجلس کے روحِ رواں ہیں اور اس فیضِ عام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
'مجلسِ زندہ دِلاں‘ میں جن چار موضوعات کو مباحث کا مرکز بنایا جاتا ہے اُن میں سیرت‘ تصوف‘ پاکستانیت اور اقبالیات سرِ فہرست ہیں۔ عصرِ حاضر کے مسائل بھی گفتگو کا محور ہوتے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب سیرت سکالر ہیں اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ سیرت کو عام کرنے سے معاشرے میں ہر سطح پر مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ چونکہ آج کل سوشل میڈیا کی بدولت بہت سارے حقائق کو باآسانی مسخ کیا جا سکتا ہے‘ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ مستند حوالوں سے اسلامی تاریخ اور اُس سے جڑی روایات کو زندہ رکھا جائے اور اُن کو اگلی نسل تک منتقل کیا جائے۔ مجلس میں کسی ایک اہم کتاب کے حوالے سے گفتگو بھی ہوتی ہے۔ وہ اہم کتاب جو انسانی زندگیوں پر مثبت انداز میں اثر انداز ہوئی ہو اور لفظوں کی تاریخ میںاہم اضافہ ہو۔ پھرکسی ایک صدی کے حوالے سے بھی مجلس میں گفتگو ہوتی ہے۔ صدی میں ہونے والے اہم واقعات جن کی انسانی تاریخ میں اہمیت ہو اور صدی میں ہونے والی ایسی سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں جو تاریخ کا رُخ موڑنے میں اہم کردار ادا کر چکی ہوں‘ بھی زیرِ بحث آتی ہیں۔ نشست میں کسی ایک اہم تاریخی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو ہوتی ہے جس کی جدوجہدِ زندگی کے دوران علمی‘ سماجی اور معاشرتی خدمات قابلِ ذکر ہوں۔ گفتگو کے بعد مفصل سوالات و جوابات کا سلسلہ ہوتا ہے جس میں بہت سے علمی اور عقلی حوالوں سے ایسے سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں جس سے مشکل اور مبہم مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ تحقیق کے آدمی ہیں اِس لیے تمام سوالوں کے جوابات میں مکمل تحقیق شدہ حقائق کے ساتھ بحث کی جاتی ہے اور مستند حوالوں سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں موجود مختلف مستند کتابوں اور حوالوں کے مطابق قریب قریب سیرت سے متعلق 28ہزار واقعات ہیںجو کسی بھی ریاست کے سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی مسائل کے لیے راہ نما ہو سکتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں 240کے قریب واقعات کا مختلف مجالس میں اور منبر سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ سیرت کے حوالے سے بہت سا کام کرنے کو باقی ہے۔ سیرت کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ ہر سال 7سے 9ربیع الاول کو سیرت پر تین روزہ تقریبات الحمرا میں منعقد کرتے ہیں۔ تقریبات کا انعقاد جدید خطوط پر اور دیگر عصری ابحاث کے تناظر میں ہوتا ہے۔ 'مجلسِ زندہ دِلاں‘ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر خوبصورت گفتگو اور مکالمے میں شریک ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت طالب علم‘ وکلا‘ ڈاکٹرز‘ لیکچررز‘ ادیب‘ شاعر‘ صحافی اور بیوروکریٹ غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جن کی ہمارے نظام میں ایک کلیدی حیثیت ہے اور مثبت تبدیلی کی ابتدا بھی اِسی طبقے سے ہو سکتی ہے۔
'مجلسِ زندہ دِلاں‘ سے چند بڑے مقاصد حاصل ہوتے نظر آتے ہیں۔ مجلس گفتگو یا مکالمہ کے تصور کو اُجاگر کرتی ہے۔ گفتگو اور مکالمہ کی دانش کی دُنیا میں بڑی اہمیت ہے کہ دُنیا میں گفتگو اورمکالمہ سے ہی بڑے مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاتی ہیں۔ دوسرا اہم مقصد جو مجلس سے حاصل ہوتا نظر آتا ہے وہ نوجوان نسل جو سماجی ذرائع ابلاغ پر حد سے زیادہ انحصار کرنا شروع ہو گئی ہے‘ اُن میں مثبت رجحانات کا فروغ دینا ہے۔ گفتگو سے مثبت رجحانات کا فروغ اور مکالمہ سے شاندار روایات کا احیاء ممکن ہے۔ گو مکالمہ اور گفتگو کتاب بینی کا کسی حد تک نعم البدل ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی مجلس کے پلیٹ فارم سے کتاب سے رغبت پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک اور اہم مقصد جو مجلس کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر صاحب کی کوشش ہے وہ نوجوان نسل کی ذہن سازی ہے۔ جس انداز سے سماجی ذرائع ابلاغ پر نوجوان نسل کو اپنی روایات سے دور کیا جا رہا ہے اور منفی رجحانات کو فروغ دیا جا رہا ہے یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کی مثبت انداز میں ذہن سازی کریں۔ جہاں پر نوجوان نسل نہ صرف گفتگو اور مکالمہ میں شریک ہو بلکہ رواداری اور مثبت رجحانات کی طرف راغب ہو۔
ڈاکٹر پیر طارق شریف زادہ صاحب علمی کاوشوں پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جس عقیدت کے ساتھ وہ سیرت کا پیغام عام کر رہے ہیں وہ اُن کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! معاشرے میں گفتگو اور مکالمے کے ذریعے سے سیرت کا علم بلند کیے رکھیے۔ شاندار اسلامی روایات کے احیاء کا دیا جلائے رکھیے۔ علم کو دلیل کے میزان میں تولنے کے ا نتہائی اہم کام میں جُتے رہیے کہ یہ فکر کے چولستان میں بادِ خوشگوار کا کام ہوگا۔ اور شاید یہ اِس مشکل ترین دور میںقوم اور معاشرے کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں