بلیو اکانومی

اگرچہ صدیوں سے معاش کے حصول کے لیے بنی نوع انسان کا سمندر پر انحصار رہا ہے مگر جون2012ء میں اقوامِ متحدہ کے ایک فورم پر جب پہلی بار ''بلیو اکانومی‘‘ کا تصور پیش ہوا تو اُس کے بعد سے یہ موضوع مسلسل دُنیا میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔معیشت کی جانکاری رکھنے والے دانشوروں نے پانی سے جڑی معیشت کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیا اور پالیسی ساز اداروں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ سمندروں کی دُنیا میں ایک جہاں آباد ہے جو بنی نوع انسان کے لیے معاشی منفعت کا سبب بن سکتا ہے بشرطیکہ سمندر سے جڑے وسائل کو ایک منظم طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔ میری ٹائم (Maritime) ریاستوں کے لیے معاشی مواقع بلا شبہ اُن ریاستوں اور ممالک سے زیادہ ہیں جو سمندروں سے دُور ہیں یا زمین میں محصور یعنی لینڈ لاکڈ ہیں۔ بلیو اکانومی کا انحصار سمندری وسائل تک رسائی اوراِس کی کامیابی کا راز اُن وسائل کو بروئے کار لانے میں مضمر ہے۔
ا قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا کی60 فیصد آبادی ساحلوں پر آباد ہے۔ دُنیا کے تین ارب لوگ اپنے معاش کے حصول کے لیے سمندروں سے رجوع کرتے ہیں یا سمندری وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ اِس وقت دُنیا کی90 فیصد سے زائد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے اور اُس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ 2030ء تک موجودہ سمندری تجارت کا حجم دوگنا تک بڑھ جائے گا۔ اِس وقت دُنیا کا سب سے اہم مسئلہ خوراک کی کمی یا فوڈ سکیورٹی ہے۔ بلیو اکانومی کے ماہرین کے نزدیک خوراک کی کمی کا حل بھی سمندر میں چھپے وسائل تک رسائی اور اُن سے جڑی معیشت میں پنہاں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پانی سے جڑی معیشت کا حجم 24 کھرب ڈالر سے زائد ہے جس میں 2کھرب ڈالر کے حساب سے سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بلیو اکانومی فشریز، جہاز رانی، ذرائع نقل وحمل، سیاحت، توانائی اور دیگر کئی شعبوں کے فروغ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
پاکستان ایک اہم میری ٹائم ریاست ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کے پاس ایک ہزار کلو میٹر سے زائد طویل ساحلی پٹی ہے جو اَن گنت سمندری وسائل سے مالا مال ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان کے پاس 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر کا خصوصی اکنامک زون ہے جبکہ اس کے علاوہ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا براعظمی شیلف بھی ہے جو ہماری ملکی حدود میں شامل ہے۔ یہ 2 لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ صوبہ پنجاب کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے اور اِس کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ خصوصی اکنامک زونز میں پاکستان کو سمندری حیات کے وسائل سے متعلق تحقیق و تلاش کا مکمل اختیار حاصل ہے اور اِس سے بہت سی معاشی راہیں کھلنے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ بلیو اکنامی سے بھرپو ر فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اِس کے تمام عناصر کو فوکس کیا جائے لیکن میری رائے میں کم از کم دو اہم شعبے؛ شپنگ اور فشریز ایسے ہیں جن پر فوری طور پر بہ آسانی کام شروع کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے شپنگ سیکٹر کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا شپنگ سیکٹر وسائل کے تناسب سے بہت محدود ہے اور پاکستان کو درآمدات کے حجم کے اعتبار سے صرف فریٹ کی مد میں 6 بلین ڈالرز کے قریب خرچ کرنا پڑتے ہیں جو شپنگ کی صنعت میں سرمایہ کاری سے بچائے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ بین الاقوامی تجارت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو شپنگ کی صنعت کو بھی فروغ دینا پڑے گا۔ شپنگ کے شعبے میں پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں کوئی جامع حکومتی پالیسی ہی موجود نہیں ہے جو شپنگ کے شعبے کے مقاصدکو طے اور ریگولیٹ کرتی ہو۔ حالانکہ شپنگ کے شعبے کی ترقی ہی سے بلیو اکانومی کی ترقی جڑ ی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ایتھوپیا کی ہے۔ ایتھوپیا نے2000ء میں ایک قانون بنایا تھا کہ ملک کی تمام درآمدات ایتھوپیا کے جہازوں کے ذریعے ہی سے ملک میں آ سکیں گی اور اس مقصد کے لیے کوئی غیر ملکی جہاز استعمال نہیں ہوگا۔ اِس قانون کی وجہ سے آج ایتھوپیا کا شپنگ کا شعبہ مسلسل ترقی کر رہا ہے۔
شپنگ کی طرح فشریز کا شعبہ بھی بلیو اکانومی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔بین الاقوامی سطح پر فشریز کے شعبے کا گلوبل جی ڈی پی میں 270 ارب ڈالرز کا حصہ ہے اور820 ملین (82 کروڑ) افراد فشریز کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں اور اُن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ سات لاکھ لوگ فشریز کے شعبے سے منسلک ہیں۔ یہ شعبہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جون 2019ء میں پاکستان نے 32 ملین ڈالر کی مچھلی برآمد کی اور اس کو اگر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ فشریز کو سی پیک کے ساتھ منسلک کر کے بھی بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین اس وقت فشریز کی صنعت میں بہت جدید اور بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے اور پاکستان اِس مد میں چین کے تجربے سے بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
لندن میں مقیم ڈاکٹر نجم عباس‘ جو میری ٹائم کے معاملات اور بلیو اکانومی پرخصوصی نظر رکھتے ہیں‘ کا خیال ہے کہ پاکستان کو بلیو اکانومی کے وژن پر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کے بلیو اکانومی وژن کے لیے ملک میں موجود بلیو اکانومی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دانشوروں، یونیورسٹیوں‘ جہاں میری ٹائم اور بلیو اکانومی کے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں‘ اور میڈیا کو اِ س مشق میں شامل کرنا پڑے گااور سوچنا پڑے گا کہ کیسے میری ٹائم سیکٹر کو جلد از جلد ترقی دی جا سکتی ہے کیونکہ دُنیا میں معیشت، تجارت اور جدید ٹیکنالوجی کے محرکات تیزی سے بدل رہے ہیں۔بلیو اکانومی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں درکار اہلیت کو بھی حاصل کرنا ہوگا۔ بلیو اکانومی اور میری ٹائم میں ہمارے لیے کیا مواقع ہیں اور اُن کو کیسے ذریعۂ معاش میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ اِس کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
بلیو اکانومی اور میری ٹائم سکیورٹی کے لیے پاک بحریہ کا کردار نمایاں نوعیت کا ہے۔ پاکستان کے پانیوں کی محافظ نیوی ایک انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ فورس ہے۔ پاک بحریہ کے آپریشنل کردار کی بدولت نہ صرف وہ ہر وقت سمندروں میں موجود رہتی ہے بلکہ بلیو اکانومی اور میری ٹائم سکیورٹی سے متعلق تمام پہلوؤں پر بھی اُس کی گہری نظر ہے۔ آنے والے وقت کا تقاضا ہے کہ پاک بحریہ پاکستان میں بلیو اکانومی کے فروغ کے لیے کردار ادا کرے اور لوگوں میں بلیو اکانومی اور میری ٹائم سکیورٹی کے بارے میں آگاہی دے۔ یہ آگاہی پاک بحریہ کے زیرِ انتظام چلنے والے ادارے بالخصوص یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ اِسی تناظر میں پاک بحریہ وار کالج نے میری ٹائم سکیورٹی ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لو گ شریک ہوئے۔ ورکشاپ کے دوران میری ٹائم سکیورٹی کے تمام پہلوؤں پر مباحث کا اہتمام کیا گیا اور بعد ازاں شرکا کو گوادر، اورماڑہ اور کراچی بھی لے جایا گیا تاکہ شرکا کو زمینی حقائق سے بھی آگاہی ہو۔ میری ٹائم سکیورٹی ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر پاک بحریہ وار کالج بلا شبہ مبارک باد کا مستحق ہے۔
بلیو اکانومی پاکستان کا مستقبل ہے اور پاکستان کا مستقبل ہی ہم سب کا مفاد ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے پالیسی ساز ادارے، علمی مراکز، دانشور، کاروباری حضرات اور سول سوسائٹی کے نمائندگان آگے آئیں اور اپنے اپنے حصے کا دِیا جلائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں