ا قتصادی پابندیاں اور انسانی حقوق

کسی بھی ملک پر لگنے والی اقتصادی پابندیوں کے بیشتر محرکا ت سیاسی ہوتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اقتصادی پابندیوں کا ایک زاویہ انسانی حقوق سے متعلق ہوتا ہے جو بڑی حد تک دُنیا کی آنکھ سے اوجھل رہتا ہے۔ بڑی طاقتوں کی دیگر ملکوں کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ا قتصادی پابندیاں کسی ریاست کے غیر موافق یا جارحانہ طرزِ عمل کو روکنے کے لیے ایک پالیسی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔ ویسے تو اقتصادی پابندیوں کے استعمال کا ذکر 432 قبل مسیح میں بھی ملتا ہے جب ایتھنز کے لوگوں نے تاجروں پر پابندی لگائی تھی اور اپنے مطالبات منوائے تھے لیکن ماضی قریب میں اقتصادی پابندیوں کا سیاسی استعمال پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد تواتر سے دیکھنے میں آیا۔ بین الاقوامی اداروں‘ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ نے بھی اقتصادی پابندیوں جیسے عمل کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ چونکہ بین الاقوامی اداروں پر طاقتور ممالک کا اجارہ رہتا ہے‘ اِس لیے طاقتور ممالک نے بعض اہم مقاصد کے حصول کے لیے نہ صرف دوسرے ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں بلکہ اپنے اتحادیوں اور دوست ممالک کو اُن ممالک سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے سے بھی روکا۔ ایران، کیوبا، شام، شمالی کوریا اور ویتنام اب تک سب سے زیادہ اقتصادی پابندیوں کی زد میں رہے ہیں۔ اقتصادی پابندیوں سے سیاسی اہداف تو شاید کسی حد تک حاصل ہو جاتے ہوں لیکن ہدف بننے والی ریاست کے لوگوں کی سماجی اور معاشی زندگیوں پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد کسی ملک کو خاص طرزِ عمل کی سزا دینا یا کسی خاص اقدام سے روکنا ہوتا ہے اور اُس کی قیمت ریاست سے زیادہ وہاں کے لوگوں کو ادا کرنا پڑتی ہے جو شاید کبھی بھی پابندیوں کی وجہ کا محرک نہیں ہوتے۔
حالیہ تاریخ میں امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی جانے والی پابندیاں قابلِ ذکر ہیں۔ ایران پر پہلی بار پابندیاں 1979ء میں لگائی گئیں جب ایران میں انقلاب آیا تھا اور ایرانی طلبہ کا ایک گروہ تہران میں امریکی سفارتخانے پر حملہ آور ہوا تھا۔ ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں باضابطہ طور پر 1992ء میں منظور کی گئی تھیں‘ جو کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہیں۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ یہ ہے کہ ایران مجموعی طور پر اس بین الاقوامی آرڈر کے دھارے میں شامل نہیں جس کو امریکی سرپرستی حاصل ہے اور امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ایران کا طرزِ عمل خطے میں امریکی مفادات کے برعکس ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام بھی اِن پابندیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے ایرانی عوام بدترین انسانی بحران کا شکار ہیں۔ معاشی ترقی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور ایران کے عوام بنیادی انسانی ضرورتوں کے حوالے سے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ معاشی ترقی کے سکڑتے مواقع ، بیروزگاری، ضروری ادویات اور طبی سامان کی کمی، مہنگائی اور غربت جیسے مسائل ایران کی مشکلات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ کووڈ کے دوران معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران شرحِ اموات کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک تھا لیکن بین الاقوامی کمپنیاں ممکنہ قانونی چارہ جوئی کے پیشِ نظر ایران کو طبی و امدادی سامان فراہم کرنے سے گریزاں رہیں۔ اِنہی پابندیوں کی وجہ سے ایران ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے کووڈ ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹرز اور دوسرے حفاظتی طبی آلات درآمد نہیں کر سکا۔ پابندیوں کی وجہ سے ایران میں بنیادی ضرورت کی اشیا میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت وہاں ایک کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، متوسط ایرانی طبقہ سکڑ کر 45 فیصد تک رہ گیا ہے۔ بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، کرنسی کی قدر میں گراوٹ اور افراطِ زر میں مسلسل اضافے نے ایران میں بہت زیادہ اضطراب اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی رپورٹ میں اِن تمام عوامی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پابندیوں سے مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل ہوئے یا نہیں‘ یہ ایک الگ بحث ہے؛ البتہ ایرانی عوام کے امریکہ کے حوالے سے مخاصمانہ رویے میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اگرچہ حکومت بھی تنقید کی زد میں رہتی ہے لیکن عمومی طور پر اس پر عوامی اعتماد میں اضافہ دیکھنے کو آیا ہے۔ امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے عوام میں امریکی سرپرستی میں چلنے والے عالمی نظام اور مغربی طرزِ فکر پر بھی سوالات اُٹھتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس امریکہ نے کیوبا پر پابندیوں کے ساٹھ سال مکمل کیے۔ کیوبا پر اقتصادی پابندیاں شاید جدید تاریخ کی سب سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی پابندیاں ہیں۔ اِن ساٹھ سالوں میں متعدد بار اقوامِ متحدہ نے کوشش کی کہ کسی طور اِن پابندیوں میں نرمی لائی جائے یا یہ ختم کر دی جائیں لیکن امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ سفارتی حکمتِ عملی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ صدر جان ایف کینیڈی نے 1962ء میں کیوبا پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک کیوبا کی معیشت کو ان پابندیوں سے تقریباً 144 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے کیوبا کے عوام کو بھی‘ ایران کی طرح‘ بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ لوگوں کو خوراک اور ادویات کے حصول کے علاوہ کاروبار کرنے میں بھی کافی مشکلات درپیش ہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے کچھ ایسے ریگولیٹری تقاضے ہیں جن کی وجہ سے کیوبا کو دوسرے ممالک کے ساتھ معاملات طے کرنے میں دُشواری پیش آتی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کیوبا کی حکومت کی کووڈ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی تھی۔
شام پر بھی امریکی پابندیاں عائد رہی ہیں۔ 1979ء میں پہلی بار شام پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ 2011ء میں امریکہ کے علاوہ کئی دوسرے ممالک نے بھی شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ شام میں حکومت کی جانب سے اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اِن پابندیوں کی بڑی وجہ گردانی جاتی ہے لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اِن پابندیوں کی وجہ صرف ''انسانی حقوق‘‘ نہیں بلکہ خطے میں جاری مختلف ملکوں کے درمیان جاری سیاسی کشمکش ہے۔ 6 فروری کو ترکیہ اور شام میں ایک ہولناک زلزلہ آیا جس میں ترکیہ کے ڈیڑھ کروڑ کے قریب افراد متاثر ہوئے۔ ترکیہ میں مشکلات ضرور ہیں لیکن وہاں امدادی کارروائیاں بلا تاخیر شروع ہو گئیں، لیکن شام میں امداد اور ریسکیو کی کارروائیاں کئی دن تک شروع ہی نہ ہو سکیں۔ یہ ایک مجرمانہ تاخیر تھی اور بہت سی انسانی جانوں کے نقصان کا سبب بنی۔ یہ تاخیر شام پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ہوئی۔ یوں شام میں بسنے والے معصوم لوگ سنگ دلانہ بین الاقوامی سیاست کی نذر ہو گئے۔
اب خبر آ رہی ہے کہ بہت سے ملکوں کی طرف سے اقوامِ متحدہ پر دباؤ ہے کہ وہ شام کی صورتِ حال پر بین الاقوامی سیاست سے بالاتر ہو کر سوچ بچار کرے اورہنگامی بنیادوں پر شام کی مدد کرے۔ اِس سوچ بچار پر مزید بہت سا قیمتی وقت گزر جائے گا اور خدشہ ہے کہ اموات میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا۔ بڑی طاقتوں کے نزدیک اقتصادی پابندیوں کی ایک سیاسی منطق ہے لیکن یہ خیال کبھی پذیرائی حاصل نہیں کر سکا کہ اِن ریاستوں میں انسان بھی بستے ہیں اور اُن کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جو کرۂ ارض پر بسنے والے دیگر اِنسانوں کے ہیں۔ اگر بوجوہ طاقتور ممالک ایسا نہیں کرتے تو اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کچھ ایسے قوانین بنائے اورکچھ ایسے راستے رکھے کہ قدرتی آفات کی صورت میں‘ طاقتوروں کے سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر انسانیت کے لیے مخصوص وقت کے لیے پابندیاں معطل کر دے تاکہ انسانی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ انسانیت کو بلاتفریق بین الاقوامی اداروں کے ایجنڈے پر ٹاپ پر ہونا چاہیے۔ اگر یہ کام مستقل طور پر نہیں ہو سکتا‘ تب بھی قدرتی آفات کی صورت میں انسانوں کو انسان ہونے کا احساس دلانے کا بندوبست تو ہونا ہی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں