بیٹیاں بھی ماؤں جیسی ہوتی ہیں

چوبیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ گزرے کل کا واقعہ ہے جب میرے آنگن میں میری بیٹی عائشہ کی صورت میں رحمتوں کا نزول ہوا تھا اور خوشیوں نے میرے گھر میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ گھر میں بیٹی کیا آئی‘ گھر میں مستقل طور پر ایک رونق سی لگ گئی۔ ہر کوئی اس کی آمد پر یوں پُرمسرت تھا جیسے کسی بچے کے ہاتھ ایک خوبصورت سا کھلونا آ گیا ہو جو یکساں طور پر سب کی توجہ کامرکز ہو۔ اس کی آمد سے محبتوں کے ایک خوشگوار سلسلے کا آغاز ہوا۔ ہم سب کے مزاج میں ایک خوشگوار مگر غیر معمولی تبدیلی آ گئی۔ روزمرہ کے معاملات پہلے جیسے نہ رہے۔ سب سے اہم یہ کہ میرے اندر بیک وقت ایک بچے اور ایک سنجیدہ آدمی نے جنم لیا۔ بچہ اِس لیے کہ مجھے ایک بار پھر اپنی بیٹی کے ساتھ پل پل اپنا بچپن جینا تھا اور سنجیدہ آدمی اِس لیے کہ اولاد آپ کو زیادہ ذمہ دار اور سنجیدہ بنا دیتی ہے۔ بیٹی آنے کے بعد ہمارے گھر کا مرکز یکسر تبدیل ہو گیا۔ وہ ہنستی تو یوں لگتا تھا کہ پورے گھر کے در و دیوار قہقہوں میں لوٹ پوٹ رہے ہیں اور گھر کے اندر رکھی ہر شے میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ در آئی ہے۔ وہ جب اُداس ہوتی تو یوں لگتا جیسے سارا گھر اُداسیوں کے سرمئی بادلوں میں ڈوب کر رہ گیا ہے اور گھر میں رکھی ہر ایک شے پر مردنی چھا گئی ہے۔
موسم آتے جاتے رہتے ہیں اور زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ گزرتے شب و روز یادوں کا حصہ بن کر سوچوں کو مہکاتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، نازک سے نین نقش، توتلی زبان اور بچپن کے بے شمارواقعات ہماری زندگی کو بہار کے رنگوں سے مزین کرتے چلے گئے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ ہر معمول کے منظر پر نظر ٹک جاتی ہے۔ ہلکی ہلکی شرارتیں بہت بھلی لگتی ہیں۔ کبھی اُٹھا ہوا پہلا قدم اہم دِکھائی دیتا ہے تو کبھی منہ سے نکلا ہوا پہلا لفظ سب سے خوبصورت سنائی دیتا ہے۔ کبھی بچوں کو آسمان کی طرف اُچھالنا بھلا لگتا ہے اور کبھی اُنگلی پکڑ کر چلنا ایک انتہائی خوشگوار احساس اجاگر کرتا ہے۔ یوں ہم نے اپنی بیٹی کے ساتھ گزارے لمحے خود پر طاری کیے اور وہ سارے پل خود بھی جئے۔ شاید اسی حسین رفاقت کا تسلسل والدین اور بچوں بالخصوص باپ اور بیٹی کے پیار کو امر کرتا ہے۔
بیٹیوں کی زندگی میں وہ وقت جلد آ جاتا ہے جب وہ شعور اور آگہی کی منزل تک آجاتی ہیں اور چھوٹی عمر میں بڑی بڑی باتیں کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ہمیں بھی متعدد بار سرپرائز ملا۔ پھر وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ بیٹیوں کو از خود محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ ایسا نہ کہیں جو مناسب نہ ہو اور کوئی ایسا تقاضا نہ کر بیٹھیں جو والدین کو بوجھ لگنا شروع ہو جائے۔ بچپن میں جب ہم مارکیٹ جاتے تو وہ اپنی ضرورت کی اشیا کی الگ سے ایک فہرست بناتی تھی اور کہتی تھی ''بابا! آپ پہلے میری چیزیں پوری کریں‘‘ لیکن پھر رفتہ رفتہ وہ ایسا کہنے سے گریزاں ہوتی گئی۔ اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ماں باپ تو صدیوں سے اپنے بچوں کی خواہشیں پوری کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سماج میں بہت سے لوگ بیٹیوں اور بیٹوں میں بلاوجہ تفریق کرتے ہیں جس سے یہ عام تاثر اُبھرتا ہے کہ بیٹے شاید بیٹیوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ پھر اسی سے ایک اور ملتا جلتا تاثر نمو پاتا ہے کہ مسلم معاشروں میں شاید عورتوں کی وہ عزت و تکریم حاصل نہیں جو اُن کا حق ہے۔ میں نے جب بھی بیرونِ ملک سفر کیا تو مجھ سے لوگوں نے مسلم معاشرے میں عورتوں کے حقوق، عورتوں کی آزادی اور عورتوں کے استحصال سے متعلق سوالات ضرور کیے۔ میں اکثر یہ جان کر حیران ہو جاتا کہ بہت سے سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس جھوٹے مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلم ممالک میں اگر کہیں عورتوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے تو وہ مذہبی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔ مغرب میں یہ خیال بھی عام ہے کہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو استحصال کا نشانہ بنانا اور اُن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا روایتی طور پر درست ہے۔ میں ہمیشہ ایسے فورمز پر اور اِس قسم کے خیالات کے حامل لوگوں کے سامنے حضور پاکﷺ کی زندگی سے ایک خوبصورت روایت کا ذکر کرتا ہوں کہ نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی کی عزت و تکریم کی شاندار مثال قائم کی ہے جو شاید عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک انتہائی اہم مثال ہے۔ مستند احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی حضور کریمﷺ سے ملاقات کی غرض سے اُن کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہؓ تشریف لاتیں تو آپﷺ نہ صرف اُن کے عزت و احترام میں کھڑے ہو جاتے بلکہ آگے بڑھ کر اُن کا استقبال کرتے۔ حضور کریمﷺ اکثر خاتونِ جنت کو اپنی نشست پر بٹھا دیتے اور بسا اوقات اپنی وہ چادر مبارک‘ جو مسلمانوں کے نزدیک یقینا بہت باعثِ تکریم سمجھی جاتی ہے‘ اُن کے بیٹھنے کے لیے زمین پر بچھا دیتے۔ اِس طرح کی تکریم بیٹی یا کسی عورت کے لیے عزت و احترام کا انتہائی خوبصورت و اعلیٰ معیار ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
چوبیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا۔ میں عائشہ کے ساتھ کبھی خوشی‘ کبھی غم کے جھمیلوں میں اُلجھا رہا۔ اِن چوبیس برسوں میں ہم نے زندگی کا ایک ایک لمحہ جیا۔ کبھی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا جشن منایا تو کبھی بڑی بڑی ناکامیوں سے مل کر نبرد آزما ہوئے۔ بہت سے خواب دیکھے اور اُن کی تعبیروں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ میں ہمیشہ اس کے ساتھ تو رہا مگر کچھ فاصلے پر تاکہ جو اعتماد میں اس میں دیکھنا چاہتا تھا‘ وہ حاصل کرنے کے لیے اُسے میری بیساکھیوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اُس نے میری اُنگلی پکڑی، اِس لیے نہیں اُس کو خود پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اِس لیے کہ وہ مجھے اپنی کامیابیوں کا سٹیک ہولڈر بنانا چاہتی تھی۔ گاہے گاہے میں نے اُس کا ہاتھ تھاما کیونکہ مجھے خود بھی ایک گائیڈ کی ضرورت تھی‘ ایسا گائیڈ جس پر میں اندھا اعتماد کر سکوں۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم دونوں زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ میں اب اُدھیڑ عمری کی جانب رواں دواں ہوں اور وہ زندگی کے بڑے مقاصد کی طرف بڑھ چکی ہے۔ اب مجھے کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتا کہ وہ مجھے اکثر ڈانٹ بھی دیتی ہے۔ کبھی دوائی وقت پر نہ لینے پر، کبھی گھر دیر سے پہنچنے پر اور کبھی یونہی صرف استحقاق کے طور پر! اِس لیے ایک دِن جب رات گئے اس نے فون کر کے مجھ سے پوچھا کہ اتنی دیر ہو گئی ہے‘ آپ کہاں ہیں اور کیا آپ نے کھانا کھا لیا ہے؟ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ اُس کے لہجے میں میری ماں کا سا رُعب و دبدبہ در آیا ہے۔ اُسی وقت موقع کی مناسبت سے ایک شعر وارد ہوا :
صحراؤں میں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
بیٹیاں بھی ماؤں جیسی ہوتی ہیں
پچیس فروری کو عائشہ گھر سے رخصت ہوئی تو بظاہر وقت تھم سا گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ محبتوں کے سلسلے کا خودکار نظام کچھ دیر کے لیے معطل ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ گزارے برسوں کی رفاقت اور اُنسیت سے پھوٹتی کہانیاں میرے دماغ میں ایک فلم کی طرح چلنے لگیں۔برسوں پہلے وہ میرے آنگن میں اُتری تھی تو نہ صرف خود تواتر سے مہکتی رہی بلکہ پورے گھر کو مہکاتی رہی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت تھی اور ہمارے گھر پر رحمتوں کے سائے کے طور پر سایہ فگن رہی۔ شاید زندگی دوبارہ ویسی نہ ہو سکے جیسی ہوا کرتی تھی لیکن دُعا ہے کہ عائشہ سمیت سبھی بچیوں کے لیے رحمتوں، خوشیوں اور کامیابیوں کے نئے اُفق ابھریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں