پورے ملک میں مانا جا رہا ہے کہ جنتا دل یونائٹیڈنے نریندر مودی کے خلاف بگل بجادیا ہے۔اگر بی جے پی نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوارکے طورپرنامزد کرے گی تو یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا ۔یہ سوچ سطحی ہے اور دلیل کے پیمانہ پر کھری نہیں اترتی ۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ جدیو نے اپنی تجویز میں وزیر اعظم کی خصوصیات شمارکرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی لیکن مودی کا نام لے کر انہیں مستردکرنے میں اس کا قلم کانپ گیا۔ قلم سے زیادہ لچکدار زبان ہوتی ہے‘لیکن زبان بھی مودی کے نام پر نہیں ہل پائی؟ نتیش کمار نے وہ سب کہا جو مودی پر تیر کی طرح پیوست ہورہاتھا لیکن انہوں نے نام لے کر مودی پر حملہ کیوں نہیں کیا؟ نام لے کر وہ مودی پر حملہ کرتے تو اپنی رسوائی کرواتے۔لوگ کہتے ’’سوت نہ کپاس اور ہوا میں لٹھم لٹھا‘‘ ابھی بی جے پی نے ہی مودی کے نام کا اعلان نہیں کیا تو جنتا دل یونائٹیڈ’’ آ بیل سینگ مار‘‘ کیوں کرے؟ جنتا دل یونائٹیڈکے صدر شردپوار یادو نے اس بے معنی بحث کو نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے اتحاد کو مضبوط بنانے کی وکالت بھی کی ۔نتیش نے حملہ تو کیا لیکن ایسی چالاکی دکھائی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ انہوں نے ایسے تیور دکھائے جس سے بہار میں ان کااقلیتی ووٹ متاثرنہ ہو اور اتحاد بھی بنا رہے۔انہوں نے اٹل جی کو مثالی لیڈر بتایا، پگڑی کے ساتھ’’ٹوپی پہننا ‘‘بھی ضروری سمجھا اور چوطرفہ ترقی کا نعرہ لگایا لیکن دسمبر تک کی مہلت دے دی‘ یعنی بی جے پی سے کہا کہ اس سال کے آخر تک وہ اپنے وزیر اعظم کے امیدوارکی نامزدگی کردے۔ سیاست میں آٹھ ماہ کا وقت بہت طویل ہوتا ہے ۔اگر انتخابات دسمبر سے پہلے ہی ہوجائیں تو سارا جھگڑا ختم۔وزیر اعظم کے امیدوار کے بغیر الیکشن تو لڑا جا سکتا ہے۔یوں بھی بی جے پی کے دوراندیش صدر راج ناتھ سنگھ نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ جنتا دل یونائٹیڈمودی کی مخالفت کرنے پر مجبور ہے‘اسی لئے انہوں نے پہلے دن ہی وزیر اعظم کے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے سے انکار کر دیا تھا۔مودی کے نام کے اعلان سے اتحاد میں کشیدگی کا ڈر تو تھا ہی، کئی دیگرخطرات بھی تھے ۔جب اعلان کے بغیر ہی ہرجگہ اس نام کا طوطی بول رہا ہو تو اس کا اعلان کیوں کیا جائے؟ یوں بھی اعلان سے کیا فائدہ ہے؟ لال کرشن اڈوانی کے نام کی بھی پچھلی بار جم کرتشہیر کی گئی تھی۔لیکن کیا نتیجہ نکلا؟ ویسے بھی پارلیمانی نظام میں مستقبل کے سربراہ کے نام کا اعلان کرنا کہاں تک مناسب ہے؟ ایسے اعلانات تو امریکہ جیسے صدارتی نظام حکومت میں ہوتے ہیں۔پارلیمانی نظام میں انتخابات کے بعد وہی وزیر اعظم بنتا ہے جس کے نام پر پارلیمنٹ میں کامیاب پارٹی مہرلگادیتی ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کا لیڈر کوئی ہوتا ہے اور انتخاب جیتنے کے بعد پارلیمانی لیڈر (وزیر اعظم)کوئی اور بنتا ہے۔چنانچہ 1977ء میں الیکشن آنجہانی جے پرکاش کے نام پر لڑا گیا اور وزیر اعظم بنے مرار جی اور چرن سنگھ۔رام مندر تحریک کے لیڈر اڈوانی تھے اور وزیر اعظم منتخب ہوگئے اٹل بہاری واجپائی ۔اسی طرح کانگریس کی انتخابی مہم کی لیڈر تھیں سونیا گاندھی لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت کے لیڈر بنے ڈاکٹر منموہن سنگھ۔ووٹ ڈالنے والے عوام وزیر اعظم کا انتخاب نہیں کرتے ۔وہ صرف ارکان پارلیمنٹ کومنتخب کرتے ہیں یا اجتماعی طور پر کسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ پھر وہ پارٹی اپنے وزیر اعظم کو منتخب یا نامزد کرتی ہے۔اس لئے ہندوستان جیسے پارلیمانی نظام والے ملکوں میں اگر ہمیں صحیح جمہوریت قائم کرنی ہے تو ہمارا زور وزیر اعظم کے عہدے کے نام پر الیکشن کے بجائے اصول، پالیسیوں اور پروگراموں پر انتخاب لڑے جانے پرہونا چاہیے ،اسی بنیاد پر امید کی جاتی ہے کہ انتخابات سے پہلے کسی بھی نام کا اعلان نہیں کیا جائے گا تو پھر اتحاد کے ٹوٹنے کا سوال ہی کہاں پیداگا؟ بی جے پی اس اتحاد کو بالکل نہیں توڑنا چاہتی بلکہ وہ اسے کافی بڑا اور مضبوط بنانا چاہتی ہے ۔اگر وہ نتیش کو جانے دے گی تو اسے زیادہ نقصان نہیں ہوگا ۔اسے لوک سبھا میں 20-25 سیٹیں کم ملیں گی۔جنتا دل کا وجود بہار کے باہر کہاں ہے؟ یہ سب جانتے ہیں کہ جنتادل یونائٹیڈ کی طرف سے مودی کی مخالفت نظریہ کی بنیادپر نہیں ہے۔اگر مودی اتنے ہی اچھوت ہیں تو نتیش اس وقت بی جے پی کی حکومت میں وزیر کیوں بنے رہے جب گجرات میں قتل عام ہو رہا تھا؟ اس وقت ہی اتحاد کیوں نہیں توڑ دیا؟ گویا نظریہ سے اہم اقتدارہے۔بہار میں اقتدار میں جڑے رہنا ہے اس لئے اقلیتوں کی خوشامد ضروری ہے۔اگر مودی یا بی جے پی کی لہر اٹھ گئی اور اسے غیرمتوقع اکثریت مل گئی تو اس کے جوساتھی اتحاد سے ہٹ جائیں گے وہ بھی انتخابات کے بعد بغیر بلائے اقتدار کامزہ حاصل کرنے کے لئے واپس آجائیں گے ۔ نتیش نے وزیر اعظم کے لئے جوصفات بتائی ہیں وہ سب کی سب صحیح ہیں ۔ان پر وہ تو کھرے اترتے ہیں لیکن اتفاق ہے کہ وہ بی جے پی میں نہیں ہیں ۔وہ ہوتے تو ان کے نام پر انتخابات کے بعد فوراً اتفاق ہوسکتاتھا لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جو خصوصیات انہوں نے بتائی ہیں، کیا وہ کافی ہیں؟ ہندوستان جیسے وسیع ملک کوچلانے کے لئے کیا صوبائی تجربہ کافی ہے؟ اس کے علاوہ کوئی بھی پارٹی اپنے قومی رہنماؤں اور پارلیمانی پارٹی کے لیڈروں کو ایک ہی جھٹکے میں الگ کس طرح کر سکتی ہے؟ اس لیے ابھی سے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کا اعلان غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ابھی سے کسی بھی لیڈر کے نام کا رسمی اعلان پوری پارٹی کو ہی پس وپیش میں ڈال سکتا ہے، خاص طورپر وہ اگر کسی سرکاری عہدے پر براجمان ہو۔آج کل ہر عہدہ مشکل میں ہے۔چاہے وہ وزیر کا ہو، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا۔کب کونسا گھوٹالہ گلا گھونٹ دے اور کونساعدالتی فیصلہ پھانسی کا پھندہ بن جائے، کسی کو بھی پتہ نہیں۔اس لئے اقتدار کی یہ دکان بغیر نام والے بورڈ کے ہی چلتی رہے، اسی میں سب کا فائدہ ہے۔جس کے نام سے سب سے زیادہ مال فروخت ہوگا، اسی کے نام کابورڈ انتخابات کے بعد دکان پر اپنے آپ لٹک جائے گا۔آئی این ایس انڈیا (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)