وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں تین اہم صنعتی اور ترقی یافتہ ملکوں فرانس‘ جرمنی اور کینیڈا کا دورہ کیا۔ یہ سہ ملکی دورہ اب تک کے سبھی دوروں سے زیادہ کامیاب مانا جا سکتا ہے۔ تینوں ملک یوں بھی مشرق کے ملکوں سے زیادہ طاقتور اور خو شحال ہیں ‘جن میں مودی اب تک گئے تھے۔ یورپ کے ممالک اور کینیڈا کے ساتھ بھارت کے تعلقات جتنے گہرے ہو سکتے تھے ‘نہیں ہوئے۔ اس کے اسباب میں اگر ہم گہرے نہ اتریں تو بھی ماننا پڑے گا کہ مودی کے اس سہ ملکی دورے نے ہماری پچھلی سبھی کمیوں کو پورا کر دیا ہے۔ مودی نے ان ممالک کا دورہ کرتے وقت کچھ ایسے کرشماتی کام بھی کیے جو اب تک کسی وزیر اعظم نے اتنے بڑے پیمانے اور اتنے جوش و خروش سے نہیں کیے۔انہوں نے ان ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں کے سبھی جلسوں کو خطاب کیا۔اپنے ہزاروں سننے والوں کو خود اعتماد ی اور جوش سے بھر دیا ۔ان جلسوں میں انہوں نے ان الزامات کا بھی کڑا جواب دیاجو‘بھارت پر لگا دیے جاتے ہیں۔ وہاں بھارتیوں کے ان جلسوں میں بولتے ہوئے مودی کا لہجہ کبھی کبھی چناوی مشن جیسا ہو جاتا تھا ۔کانگریس نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ حقیقت میں یہ عوامی جلسے‘ موجودسننے والوں کیلئے تو ہوتے ہی تھے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کروڑوں بھارتیوں کیلئے بھی ہوتے تھے‘ جو انہیں ٹی وی چینلوں پر دیکھتے۔ انہوں نے فرانس میں ان دس ہزار بھارتی جوانوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا، جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنی قربانی دی ۔
فرانس کے ساتھ ریفل نام کے لڑاکا طیاروں کا سودا برسوں سے لٹکا ہوا تھا۔بوفورس سکینڈل کی جلی کانگریس کی قیادت ریفل کو اتنی پھونکیں مارتی رہی کہ نوبت سودا ختم ہونے تک جا پہنچی۔ لیکن بھارتی فضائی فوج کے کہنے نے بازی پلٹا دی۔ فوج میں لڑاکا طیاروں کی کمی نے وزیر اعظم کو آناً فاناً فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے اس دورے کے دوران 36 جہازوں کاسوداکر لیا۔ ان کے پیرس جانے سے پہلے بھارتی اور فرانسیسی اخبار بھی لکھ رہے تھے کہ یہ سودا اس دورے کے دوران طے پانا مشکل ہے۔ ریفل طیاروں کی فروخت پر فرانسیسی سرکار تو بہت خوش ہے لیکن کچھ لوگ اس سودے کو ''میک ان انڈیا‘‘ کے خلاف مان رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس طرح بنے بنائے جہاز اور ہتھیار بیرونی ملکوں سے خریدتے رہے تو آپ کے ''میک ان انڈیا‘‘مشن کا کیا ہوگا ۔
فرانس سے بھارت نے چار ارب ڈالر کے یہ طیارے ہی نہیں خریدے ‘اس دورے کے دوران مزید 17سمجھوتے بھی ہوئے ‘جن میں سب سے اہم وہ ہے ‘جس کے تحت فرانسیسی کمپنی 'اریوا‘ بھارت کے جیتا پور میں چھ جوہری بھٹیاںلگائے گی۔ دس ہزار میگاواٹ صلاحیت کی یہ جیتا پور سکیم بھارت کے پر امن جوہری پروگرام میں چار چاند لگا سکتی ہے ۔۔فرانس نے بھارت میں سرمایہ کاری اگلے پانچ سال میں پانچ گنا بڑھا دی ہے۔ چالیس کروڑ ڈالر سے دو بلین ڈالر کر دی ہے۔ پانڈی چری اور ناگپور جیسے تین بھارتی شہروں کو 'چست شہر ‘ بنانے کی ذمہ داری بھی فرانس نے لی ہے ۔اس نے بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر اور 21 جون کو عالمی ''یوم یوگ‘‘ اعلان کرنے کی بھی حمایت کی ہے۔ فرانسیسی صدر کے ساتھ مودی کی ذاتی کیمسٹری اتنی اچھی بیٹھ گئی کہ اس کا فائدہ دونوں ملکوں کی سیاست کو بھی مل سکتا ہے ۔ فرانس‘ امریکی گٹوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی خود مختاری بنائے رکھتا ہے‘ جیسے کہ بھارت غیر جانبدار رہا ہے ۔فرانس اور بھارت کی فطرت ایک جیسی ہے ۔یہ دونوں ملک چاہیں تو افریقہ‘ مغرب اور وسطی ایشیا میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔اقوام متحدہ میںیہ دونوں ملک کئی مدعوں پر قدم سے قدم ملاکر چل سکتے ہیں ‘جیسے کہ 2013ء میں افریقی
ملک مالی میں پیدا ہوئے سنگین مسئلے کے وقت انہوں نے کیا تھا۔اگر بھارت کے لیڈر اور نوکر شاہی انگریزی کی غلامی کچھ کم کریں اور فرانسیسی زبان کو اہمیت دیں تو فرانس بھارت کے کافی نزدیک آ سکتا ہے ‘جیسے کہ وہ ماریشئس کو اپنے نزدیک بنائے رکھتا ہے۔ ہمارے زیادہ سے زیادہ شاگرد (طلبا) فرانس میں پڑھیں اورفرانسیسی شاگرد بھارت میں۔ سیاح بڑھیں ‘ویزا آسان ہو وغیرہ وغیرہ مدعوں پر اچھے سمجھوتے ہوئے ہیں ۔
جہاں تک جرمنی کا سوال ہے‘ اس کے ساتھ فرانس کی طرز کا خریدو فرخت کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے‘ لیکن دونوں ملکوں کے بیچ اقتصادی اور سیاسی مدعوں پر گہری سمجھ بنی۔ مودی نے ہنوور کے تجارتی میلے کا افتتاح کیا۔ اس میں چار سو بھارتی کمپنیاں اور تین ہزار جرمن کمپنیوں کے مالکان نے حصہ لیا۔مودی نے جرمنی کی بڑی بڑی کمپنیوں کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ سیدھی بات چیت کی ۔انہیں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کیا‘انہیں سبھی سہولیات کی تسلی دی۔بھارت کی مضبوط اقتصادیات کے امکانات کا نقشہ کھینچا۔جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور مودی نے دونوں ملکوں کے بیچ زبان ‘تعلیم‘ شہری ترقی ‘ریلوے ‘بجلی‘ تجارت وغیرہ شعبوں میں تعاون بڑھانے کابھی عزم کیا۔
شریمتی اندرا گاندھی کے بعد نریندر مودی‘ کینیڈا کے دورے پر جانے والے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں ۔کینیڈین وزیر اعظم کے ساتھ ان کا پہلے سے تعارف کافی کار آمد ثابت ہوا۔ 1974ء میں اندرا گاندھی نے بم دھماکہ کیا تھاتو کینیڈا نے بھارت پر پابندی لگا دی تھی لیکن اب کینیڈابھارت کو اگلے پانچ سال میں تین ہزار ٹن یورینیم دے گا۔ رقبے کے لحاظ سے بھارت سے چھ گنا بڑے اس ملک کی آبادی صرف چار کروڑ ہے۔ اس میں معدنیات کے کئی طرح کے خزانے ہیں۔ ان خزانوں کے دروازے بھارت کیلئے کھل رہے ہیں۔ بارہ لاکھ بھارتی وہاں رہتے ہیں ۔اب کئی شعبوں میںتعاون تو بڑھے گا ہی‘دونوں ملک ویزا پالیسی میں چھوٹ دیںگے۔اس دورے کے دوران امریکی صدر بارک اوباما کے جاری کیے ٹویٹ سے مودی کی شان میں اضافہ ہوا۔ گھریلو سیاست میں یہ دورہ مودی کو کافی راحت پہنچائے گا۔کل ملاکر وزیر اعظم مودی کا یہ سہ ملکی دورہ بھارتی خارجہ پالیسی کی تاریخ میں یادگار ہو گیا ہے ۔
بھائی‘ آپ بھارت سے نتھی کب ہوں گے؟
پہلے پرکاش کارت اور اب سیتارام یچوری کے بننے سے میرے جیسے لوگ خوش کیوں نہیں ہوں گے؟ایک کے بعد ایک یہ دونوں مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری بنے ہیں۔ یہ دونوں جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے طالب بھی رہے ہیں ۔یہ دونوں میرے جیسے پرانے شاگردوں کو کافی عزت اور پیار سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمیں بھی ان پر فخر ہے لیکن ان دونوں کو دیکھ کر رحم بھی آتا ہے۔ نمبودری پد اور ہری کشن سرجیت سنگھ سے بھی میرا تعلق رہا ہے۔ یہ پرانے سانچے میں ڈھلے ہوئے لوگ تھے ۔یہ پرانی لکیر پیٹتے رہتے تھے تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوتی تھی لیکن میں پرکاش کارت اور سیتارام یچوری سے امید کرتا تھا کہ یہ لوگ نہ صرف مارکس وادی پارٹی میں نئی جان ڈالیں گے بلکہ دنیا میں مارکس واد کو بھی نئی راہ دیں گے: کیونکہ یہ دونوں کافی پڑھے لکھے‘ اچھے کردار کے اور پوری طرح نڈر جوان تھے لیکن افسوس کہ ان کی لیڈر شپ میں پارٹی بالکل ہی زمین کے ساتھ جا لگی ہے۔ اور یہ اب بھی رٹُو طوطوں کی طرح ڈیڑھ سوسال پرانے مارکس وادی لینن وادی محاوروں کو ہی پیٹے چلے جا رہے ہیں ۔یہ تب ہو رہا ہے جبکہ اس پارٹی کے لیڈر ملک کے سب سے بیدار باشندے ہیں ۔
میرا پہلا سوال تو یہی ہے کہ وہ مارکس وادی پارٹی کے سیکرٹری کیوں ہیں ‘صدر کیوں نہیں ؟سوویت یونین ختم ہو گیالیکن وہ ابھی بھی سوویت کمیونسٹ پارٹی کی نقل پیٹے جا رہے ہیں ؟وہ بھارت میں سیاست کر رہے ہیں اور ڈھرا انہوں نے سوویت پکڑ رکھا ہے۔ وہ ابھی بھی سرد جنگ کا کمبل لپیٹے ہوئے ہیں ۔وہ امریکہ کو اپنا دشمن مان کر چلتے ہیں جبکہ روس اور چین اسی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔مارکس کی جدو جہد اور انمول اصولوں کو ‘جو کہ بھارت پر نافذ نہیں ہوپاتے ‘انہیں زبردستی تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کیا وہ یہ مانتے ہیں کہ بنگال ‘کیرل اور تری پورہ میں جو ان کی سرکاریں بنیں ‘وہ مارکس واد کی بنیاد پر بنیں یا چلیں ؟وہ تو بنگالی اور ملیالی ٹائپ وطن پرستوں کی اولاد یں تھیں ،اگر مارکس واد کی بنیاد پر کوئی سرکار بننی چاہئے تھی تو وہ یوپی‘ایم پی‘بہار‘ چھتیس گڑھ اور اڑیسا میں سب سے پہلے بننی چاہئے تھی۔ ان کی تعدا دوہیں سب سے زیادہ ہے ۔جن پارٹیوں کو آپ برجوا (بورژوا) کہہ کر کوستے ہیں ‘انہیں کے ساتھ آپ تعاون بھی کرتے ہیں۔ابھی تک بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ آپ کا اتحاد کیوں نہیں ہوا؟ایک پارٹی چین سے نتھی ہو گئی تو دوسری روس سے!بھائی ‘آپ بھارت سے نتھی کب ہوں گے؟ آپ کو عوام کی زبان میں بات کرتے شرم آتی ہے ۔پارٹی کی ساری کارروائی انگریزی میں چلتی ہے ۔سیتارام یچوری سے امید ہے کہ وہ پارٹی کے منشور کے غیر ملکی سانچے کو توڑیں گے ۔تیسرے مورچے سے جُڑیں گے۔ اس کے منشور کی رہنمائی کریں گے اور ملک میں مضبوط اپوزیشن کوتعمیر کریں گے۔