"DVP" (space) message & send to 7575

اب بنی کرسی اصلی مورچہ

کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر ویرپا موئلی کا کہنا ہے کہ کانگریس کے بنا اپوزیشن اتحاد بنانا مناسب نہیں ہے۔ اس کامطلب یہی ہوگا کہ آپ بھاجپا کے مخالفین میں پھوٹ ڈال رہے ہیں اور اسے مضبوط بنا رہے ہیں۔ موئلی کا کہنا ہے کہ سبھی مذاہب سے ہٹ کر‘ سبھی پارٹیوں کو ایک ہو کر بھاجپا کے خلاف الیکشن لڑنا چاہیے۔ ان سبھی پارٹیوں کا ایک مشترکہ پروگرام ہو‘ جس کی بنیاد پر 2019ء کے چنائووں میں بھاجپا کو شکست دے سکیں۔ موئلی نے یہ ٹپنی تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر رائو کی اس بات پر کی ہے کہ ملک میں اس وقت ایک غیر بھاجپائی اور غیر کانگریسی مورچہ بنانا چاہیے۔
رائو کی یہ بات انہیں زیب دیتی ہے‘ کیوںکہ بھارتی لیڈر صوبائی پارٹیوں کو گھاس نہیں ڈالتے۔ ان کا اتحاد چنائو جیت جائے‘ تب بھی یہ صوبائی لیڈر حاشیہ کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رائو نے یہ بھی دیکھ لیا کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کا مطلب ہے کہ راہول گاندھی کو لیڈر قبول کرنا۔ راہول گاندھی کے ساتھ اتر پردیش میں اتحاد کرکے اکھلیش یادیو کا کیا حال ہوا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کے تمام اضلاع میں کانگریس ابھی بھی زندہ ہے لیکن اس کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے‘ نہ ہی کوئی پالیسی ہے۔ آپ بغیر مذہب والی قوتوں کا مورچہ بنانے جا رہے ہیں اور اس مورچے کے امکانی لیڈر آج کل کیا کر رہے ہیں؟ دھوتی اور کنٹھی لپیٹ کر مندروں میں دھوک مار رہے ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ چوٹی اور جنیئو چڑھا کر شیو جی کی بھی پوجا کر لیں۔ انہیں دیکھ کر ان کی بغیر مذہب والی پارٹی کے کارکنان کی ہنسی کے فوارے چھوٹتے رہتے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ اس مورچے کا سیکولر ہونے سے کوئی لینا دینا نہیںہے۔ یہ مورچہ ضرور بنے لیکن یہ بغیر مذہب نہیں‘ کرسی مذہب بنے گا۔ عوام کی مودی سرکار سے دلچسپی کے خاتمے کا فائدہ سبھی اٹھانا چاہتے ہیں۔ عہدۂ وزیر کے درجن بھر امیدوار اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس بطور آپشن بھارت کا کوئی نقشہ نہیں ہے۔ ان میں کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے‘ جسے چنائو کے پہلے ساری پارٹیاں رضا مندی سے قبول کر لیں۔ ان کے پاس کوئی لوہیا‘ کوئی جے پرکاش‘ کوئی رام دیو‘ کوئی انا ہزارے بھی نہیں ہے۔
سشما کو مجرم کیوں ٹھہرائیں؟
بھارت میں سیاست کا سٹینڈرڈ کتنا گرتا جا رہا ہے۔ اب اپوزیشن نے سشما سوراج پر ہلا بول دیا ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے عراق کے شہر موصل میں گمشدہ 39 بھارتی لوگوں کے قتل کی تصدیق کیا کی‘ اپوزیشن پارٹی والوں نے ایوان میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ انہوں نے صرف ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ سشما نے پہلے بار بار یہ دعویٰ کیوں کیا تھا کہ وہ سب لوگ محفوظ ہیں اور ان کی تلاش جاری ہے۔ اپوزیشن کا الزام یہ ہے کہ سشما نے مرنے والوں کے خاندان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ان اپوزیشن والوں سے کوئی پوچھے کہ کسی مستند جانکاری کو حاصل کیے بنا سشما یہ کیسے کہہ دیتیں کہ وہ سب مارے گئے ہیں؟ مرنے والوں کے خاندان سے دھوکہ کرنے کا سشما یا سرکار کو کیا فائدہ ہونے والا تھا؟
سشما نیچر سے امید پرست لیڈی ہیں اور مصیبت میں پھنسے بھارتیوں کی مدد کرنے پہ سدا تیار رہتی ہیں۔ سشما کی کڑی محنت سے ہی 2014ء میں 46 بھارتی نرسوں کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑایا گیا تھا۔ کئی پاکستانی مریضوں کو خاص ویزا دے کر سشما نے ان کی جان بچائی۔ اسی کڑی میں ان کے مملکتی وزیر اور بھارت کے سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ تین بار موصل گئے اور انہوں نے ان گمشدہ بھارتیوں کی کھوج کے لیے زمین آسمان ایک کر دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان مقتولوں کے بیچ سے بھاگ کر بچ نکلے ہرجیت مسیح کے اس دعوے پر سرکار نے بھروسہ نہیں کیا کہ اس کے سارے ساتھی مارے گئے ہیں لیکن مسیح کے پاس بھی دکھانے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ اب بھارت سرکار کی کڑی کوشش سے ان سب لوگوں کی نعشیں کھوج نکالی گئی ہیں اور ان کی پہچان بھی کر لی گئی ہے۔ سرکار ان کے خاندان والوں کی کچھ مالی امداد بھی دے گی۔ ایسے میں حزبِ اختلا ف کو سرکار کی ٹانگ کھنچائی کرنے کے بجائے مرنے والوں کے رشتہ داروں سے ہمدردی اور امداد کی پہل کرنا چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ سرکار اور اپوزیشن کی گزارش یہ ہونی چاہیے کہ شام اور عراق جیسے جنگی میدانوں پر بھارتی شہریوں کوجانے سے روکا جائے۔ روزی روٹی کی تلاش میں بھارتی لوگوں کو اپنی جان ہتھیلی پررکھنا پڑتی ہے‘ کیا بھارت کے لیے یہ عزت کی بات ہے؟
ٹرمپ‘ بولٹن اور پونپیوں کی تکڑی 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کمال کے آدمی ہیں۔ میں گزشتہ پچاس پچپن برس سے امریکی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ جب میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا تھا اور بعد میں بھی‘ جب میں امریکہ کئی بار گیا تو وہاں کے لیڈروں سے برابر ملاقات ہوتی رہی لیکن ٹرمپ جیسے کسی امریکی لیڈر سے میں نہ تو کبھی ملا اور نہ ہی اس کے بارے میں کبھی سنا۔ ٹرمپ نے اپنے لگ بھگ ایک سال کے دورِ اقتدار میں اپنے درجنوں صلاح کاروں‘ وزراء اور ساتھیوں کو نکال باہر کیا ہے۔ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کی چھٹی کر دی تھی‘ اب سلامتی کے صلاح کار ایچ آر میکاسٹر کو بھی انہوں نے گھر بٹھا دیا ہے۔ میکاسٹر کے پہلے اس عہدہ پر میخائل فن تھے۔ فن کو صرف 22 دن بعد ہی ٹرمپ نے دھکا لگا دیا تھا۔ اب اس عہدہ پر وہ جان بولٹن کو لا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کے عہدہ پر بیٹھیں گے اب مائیک پونپیوں‘ جو سی آئی اے کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ وولٹن اور پونپیوں کی جوڑی کیا غضب ڈھائے گی‘ کچھ پتا نہیں‘ کیوں کہ دونوں ہی اپنی شدت پسند سوچ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان تقرریوں پر جب امریکہ میں جم کر چرچا چھڑا تو ٹرمپ نے کہا‘ ذرا دیکھتے رہیو‘ میں اب کیا کرتا ہوں۔بولٹن ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے اور شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ رہتے ہوئے انہوں نے عراق حملے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کی پیشکش کی تھی۔ بش نے انہیں اقوام متحدہ میںقونصلیٹ بنا دیا تھا لیکن سینیٹ نے ان کی تصدیق نہیں کی تھی۔ اب بھی یہ تصدیق آسان نہیں ہو گی۔ تصدیق ہو یا نہ ہو‘ ٹرمپ کے حقیقی صلاح کار تو وہ اب بھی ہیں ہی۔ ٹرمپ‘ بولٹن اور پونپیوں کی یہ تکڑی یورپی ممالک کو بھی کیوں بخشنے لگی؟ چین کے خلاف بھی اب کھلم کھلا مشن چلنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ ٹرمپ کی جیسی عقل ہے اور جیسے صلاح کار وہ کھوج لائے ہیں‘ وہ ایک بار پھر دنیا میں سرد جنگ کی شروعات کر دیں۔ ویسے بھارت کو فکرمند ہونے کی زیادہ ضرورت دکھائی نہیں پڑتی۔

کانگریس کے ساتھ اتحاد کا مطلب ہے کہ راہول گاندھی کو لیڈر قبول کرنا۔ راہول گاندھی کے ساتھ اتر پردیش میں اتحاد کرکے اکھلیش یادیو کا کیا حال ہوا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کے تمام اضلاع میں کانگریس ابھی بھی زندہ ہے لیکن اس کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے‘ نہ ہی کوئی پالیسی ہے۔ آپ بغیر مذہب والی قوتوں کا مورچہ بنانے جا رہے ہیں اور اس مورچے کے امکانی لیڈر آج کل کیا کر رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں