بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ جے شنکر نے الگ الگ مواقع پر افغانستان کے بارے میں جو بھی کہا ہے وہ صحیح ہے لیکن حیرانی ہے کہ بھارت کی طرف سے کوئی ٹھوس پہل کیوں نہیں ؟ جی20 کے اجلاس میں مودی کا خطاب افغانستان کے موجودہ مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ جیسے سلامتی کونسل کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے مودی نے مطالبہ کیا کہ کابل میں ایک مخلوط حکومت بنے، وہ شہریوں کے ہیومن رائٹس کی حفاظت کرے‘ عورتوں کا احترام کرے اور افغان ریاست کوپٹڑی پر لاکر افغان عوام کو تباہی سے بچائے۔ ان کا سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ طالبان سرکار دہشت گردوں کو بالکل پناہ نہ دے۔وہ کسی بھی ملک کا مہرہ نہ بنے اور پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کو پھیلنے سے روکے۔ تقریباً یہی بات وزیر خارجہ جس ملک میں جاتے ہیں‘ باربار دہراتے ہیں۔ بھارتی حکومت اسی میں خوش ہو رہی ہے کہ اس وقت اس نے پاکستان کو گھسیٹ کر حاشیہ پر ڈلوا دیا ہے‘ مگر یہاں اہم سوال یہ ہے کہ بھارت کا اصل مسئلہ افغان مسئلے کو حل کرواناہے یا ہمسایہ ملک کو ڈپلومیٹک پٹخنی مارنا؟ امریکی صدر بائیڈن نے ابھی تک وزیر اعظم عمران خان سے ہیلو تک نہیں کی‘مگرہماری یہ سوچ غلط ہے کہ یہ ہماری وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے اور چین اور امریکہ کے بیچ اس وقت سرد جنگ چل رہی ہے۔ جیسے ہی چین سے امریکی تعلقات سہج ہوئے پاکستان دوبارہ امریکہ کا فیورٹ بن جائے گا۔مگر بھارت افغانستان کے معاملے میں کواڈ کے چنگل میں اس طرح پھنسا ہوا ہے کہ اس کی آزاد خارجہ پالیسی کہیں چھپی چھپی سی نظر آتی ہے۔بجائے اس کے کہ بھارت طالبان سے سیدھی بات کرتا جیسا کہ امریکہ‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور یورپی ممالک کررہے ہیں‘ بھارتی وزیر خارجہ دیگر چھوٹے موٹے ممالک کے چکر لگارہے ہیں۔جو ممالک طالبان سے سیدھے بات کررہی ہیں ان کے مقابلے بھارت افغانستان کے نزدیک ہے اور اس نے وہاں 500 سے زیادہ تعمیری کام بھی کئے ہیں‘ مگر امریکہ کی دعوت پر ہم پہلے قطر گئے اور روس کی دعوت پر اب ماسکو جاکر طالبان سے چلنے والی بات میں شامل ہوں گے۔ یہ بین الاقوامی میٹنگیں نئی دہلی میں کیوں نہیں ہوسکتیں؟ کیابھارت فٹ پاتھ پر کھڑا کھڑا تماش بین ہی بنارہے گا؟
کیا نریندر مودی تانا شاہ ہیں؟
کیا نریندر مودی تانا شاہ ہیں؟ ایک ٹی وی چینل کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ بالکل نہیں‘ یہ مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ نریندر مودی سب کی بات دھیان سے سنتے ہیں۔ اس وقت مودی سرکار کتنے جمہوری طریقے سے کام کررہی ہے‘ اب تک کسی دوسری سرکار نے ایسا نہیں کیا۔ امیت شاہ نے ایسے کئی اقدامات گنوائے جو مودی نے کئے اور ان اقدامات سے بھارت میں بہتری آئی۔امیت شاہ کے اس بیان سے کون منکر ہو سکتا ہے؟ کیا ہم بھارت کے کسی بھی پردھان منتری کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے عوامی مفاد کے قدم نہیں اٹھائے؟ چندر شیکھر‘ دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال تو کچھ ماہ تک ہی پردھان منتری رہے لیکن انہوں نے بھی کئی قابلِ ذکر کام کئے۔شاستری جی‘ مرار جی ڈیسائی‘ چودھری چرن سنگھ اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر پائے لیکن انہوں نے بھی بھرپور کوشش کی وہ جنتا کی سیوا کرسکیں۔ جواہر لال نہرو‘ اندرا گاندھی‘ نرسمہا راؤ‘ اٹل بہاری واجپائی اور راجیو گاندھی کی آپ جو بھی خامیاں گنوائیں‘ان سابق وزرائے اعظم نے کئی تاریخی کام انجام دیے۔ منموہن سنگھ حالانکہ سیاستدان نہیں لیکن وزیر اعظم دوادوار تک رہے اور انہوں نے بھی قابل ذکر اقدامات کئے۔ساری اپوزیشن مودی کو بے دخل کرنے کیلئے بے تاب ہے لیکن وہ متحد کیوں نہیں ہوپاتی؟ کیونکہ اس کے پاس کوئی ایسا مدعا نہیں ہے۔ اس کے پاس نہ تو کوئی رہنماہے اور نہ ہی سیاست ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ بھارت میں ہم کوئی بنیادی بدلاؤ نہیں دیکھ پارہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کورونا وبا کا مقابلہ سرکار نے جم کر کیا اور خواندگی میں بھی اضافہ ہوا‘ غریبوں‘ پسماندہ‘ دلتوں‘ کسانوں اور محروموں کو کچھ فوائد بھی اس سرکار نے دیے ہیں لیکن ا بھی بھی روایتی سیاست ہی چل رہی ہے۔اس کی اصل وجہ نیتاؤں میں وژن کی کمی ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں کیلئے نوکر شاہوں پر منحصر ہیں۔ نوکر شاہوں کی یہ نوکری آمریت سے بھی بری ہے۔مودی نہ تو عوام سے ملتے ہیں نہ انہوں نے آج تک اپنے ''مارگ درشک منڈل‘‘کی ایک بھی میٹنگ بلائی۔ انہوں نے حکومت اپنے تین چار اہم نوکر شاہوں کے بھروسے چھوڑرکھی ہے۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ دیگر وزرائے اعظم کی طرح وہ ماہرین سے کوئی صلاح مشورہ بھی لیتے ہیں۔اس کا نتیجہ کیا ہے؟نوٹ بندی بری طرح سے مار کھاگئی اور بھارتی خارجہ پالیسی دم چھلابن کررہ گئی۔اگر کابینہ اجلاس میں نوٹ بندی پر بحث ہوئی ہوتی تو ملک پر اس کا قہر ٹوٹتا کیا ؟ سبھی پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت بھی صفر ہے۔
دو صحافیوں کیلئے نوبیل پرائز
فلپائن کی خاتون صحافی ماریہ ریسا اور روس کے دمتری موراتوو کو نوبیل انعام دینے سے نوبیل کمیٹی کا وقار بڑھ گیا ہے۔ آج کی دنیا اظہارِ خیال کے خوفناک بحران سے گزر رہی ہے‘ مگر ان دونوں صحافیوں نے اپنے اپنے ملک میں حکومت کے دباؤ کے باوجود سچ کا جھنڈا بے خوفی سے بلند کیا۔جن ممالک کو ہم بڑے ممالک اور پرانی جمہوریتیں کہتے ہیں ایسے ملک اظہارِ رائے کی آزادی کے حساب سے بہت پسماندہ دکھائی پڑتے ہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم ٹیبل کے 180 ممالک میں فلپائن کا نمبر 138واں ہے اور بھارت کا 142واں۔ اگر صحافت کسی ملک کی اتنی پسماندہ ہوتو اس کی جمہوریت کا حال کیا ہوگا؟ جمہوریت کے تین ستون بتائے جاتے ہیں۔ مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ۔میری رائے میں ایک چوتھا ستون بھی ہے؛ صحافت‘ جو سب کی خبر لے اور سب کو خبر دے۔ پہلے تین ستونوں کے مقابلے یہ ستون سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ہر حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ ا س کو کھوکھلا کیا جائے۔بقیہ تینوں تو اکثر پہلے سے قابو میں ہی رہتے ہیں لیکن صحافت نے امریکہ اور برطانیہ جیسے جمہوری ممالک میں بھی ان کے صدور اور وزرائے اعظم کے دَم پھلارکھے ہیں۔یہ کام ماریہ نے فلپائن میں اور موراتوو نے روس میں کر دکھایا ہے۔ فلپائن کے صدر نے منشیات کے خلاف ایسی جان لیوا مہم چلائی کہ اس کی وجہ سے سینکڑوں بے قصور لوگ مارے گئے یا جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔ اس گھناؤنے قتل عام کے خلاف ماریہ نے اپنی آن لائن نیوز ویب سائٹ سے صدر کو بوکھلا دیا تھی۔صدرنے ما ریہ کو دھمکیاں دیں لیکن وہ ڈٹی رہیں۔ اسی طرح موراتوو نے اپنے اخبار کے ذریعے مظالم کی پول کھول کر رکھ دیا۔ روس میں تو اخباروں پر کمیونسٹ پارٹی کا سخت شکنجہ کسے رکھنے کی پرانی روایت تھی۔اب سے 50‘55سال پہلے جب میں ماسکو میں تھا تو روسی زبان کے بورنگ اخباروں کو دیکھ کرمجھے ترس آتاتھا لیکن اب کمیونسٹ حکومت ختم ہونے کے باوجود صحافت کی آزادی کے حساب سے روس کا مقام دنیا میں 150 واںہے۔ ایسی دم گھوٹو حالت میں بھی موراتوو نے صدر پوتن کی گدی ہلارکھی تھی۔ چیچنیا میں کئے گئے وحشیانہ مظالم کی خبریں موراتوو اور ان کے ساتھیوں نے ہی اجاگر کیں۔ ان کے چھ ساتھی صحافیوں کو اسی لئے موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔ اسی لئے نوبیل انعام قبول کرتے ہوئے انہوں نے ان چھ ساتھی صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ یہ انعام انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایسے بے خوف اور غیر جانبدارصحافی ابھی بھی کئی ہیں جو نوبیل انعام سے بڑے اعزاز کے حقدار ہیں۔ مذکورہ دو صحافیوں کی قدر ایسے سبھی صحافیوں کا حوصلے ضرور بڑھائے گی۔ ماریہ اور موراتوو کو مبارکباد!