"DVP" (space) message & send to 7575

کس کی ہمت‘ جو انگریزی کو ہٹا ئے

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھاجپا کی ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کئی مدعے اٹھائے، ان میں زبان کا مدعا اہم تھا۔ بھارت میں قومی زبان ہندی کولے کر پچھلے دنوں جنوب میں کافی جھگڑے چھڑے تھے۔ مودی نے یہ تو بالکل ٹھیک کہا کہ سبھی بھارتی زبانوں کو مناسب احترام دیاجانا چاہئے لیکن مودی نے یہ نہیں بتایا کہ پچھلے 75 سال میں بنی تمام سرکاریں کیا بھارت کی ایک بھی زبان کو اس کا مناسب احترام اور جگہ دلاسکی ہیں؟ مودی سمیت تمام وزرائے اعظم نے انگریزی کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ تمام زبانوں کو اپنی نوکرانی بنا کر انگریزی خود مہارانی بنی بیٹھی ہے۔ سرکاریں چاہے کانگرس کی ہوں، بھاجپا کی ہوں، جنتا پارٹی کی ہوں، سماج وادی پارٹی کی ہوں، کمیونسٹ پارٹی کی ہوں ، صوبائی پارٹیوں کی ہوں، سبھی آج تک انگریزی کی غلامی کرتی رہی ہیں۔ ان تمام لوک سبھاؤں اور ریاستی اسمبلیوں میں قانون ہمیشہ انگریزی میں بنتے رہے ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے انگریزی میں ہوتے رہے ہیں،کابینہ کے تمام فیصلے انگریزی میں ہوتے رہے ہیں اور بھارت کی اعلیٰ نوکر شاہی انگریزی کی سب سے بڑی غلام بنی رہتی ہے۔ کیا انگریزی کے بغیر کوئی اونچی سرکاری نوکری کسی کو مل سکتی ہے؟جب میرے ماسکو، لندن اور نیویارک کے ہم جماعت پہلی بار بھارت آئے تھے تو وہ یہاں کے بازاروں کی انگریزی نیم پلیٹوں کو دیکھ کر اور دہلی میں انگریزی کے اتنے اخباروں کودیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی آزاد ملک میں ہم نے ایسی ثقافتی غلامی نہیں دیکھی۔بھارت کی تعلیم اور میڈیکل میںبھی انگریزی چھائی ہوئی ہے۔ اب سے تقریباً50‘55سال پہلے جب میں نے اپنی بین الاقوامی سیاست کا مقالہ ہندی میں لکھنے کی مانگ کی تھی تو بھارت کی پارلیمنٹ ٹھپ ہو گئی تھی۔ آخر کار میری جیت ہوئی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سب سے پہلی پی ایچ ڈی لینے والوں میں میرا نام تھا لیکن آج تک بھارت کی کتنی یونیورسٹیوں میں کتنی پی ایچ ڈی ہندی میڈیم سے ہوئی ہیں؟ اسی طرح کئی وزرائے صحت نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میڈیکل کی پڑھائی ہندی میں شروع کروائیں گے، لیکن کیا آج تک وہ شروع ہوئی ؟ عدالت کی کارروائی، وکالت اور ڈاکٹری ملک میں ٹھگی کے سب سے بڑے دھندے اسی وجہ سے بنے ہوئے ہیں کہ انہوںنے جادو‘ ٹونے کی شکل لے لی ہے۔ انگریزی کی بجائے اگرمقامی زبانوں کو تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہر بھارتی شہری نہ صرف خواندہ ہو سکتا ہے بلکہ اپنی ہی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔مہارشی دیانند، مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے انگریزی کی اس غلامی کے برے اثرات کے خلاف زوردار مہم کا آغاز کیا تھا۔ گورو گولولکر، دین دیال اپادھیائے اور اٹل جی و ملائم سنگھ، راج نارائن اور مدھو لمئے نے اس مہم کو جم کر چلایا تھا۔ حکومت سے زیادہ تو آج کل ہندی،تیلگواور پنجابی فلم انڈسٹری مقامی زبانوں کی کھوئی ہوئی ساکھ واپس دلانے کیلئے سرگرم نظر آتی ہے‘ گوکہ بھارت میں بننے والی فلموں میں بھی انگریزی ثقافت کا رنگ غالب ہوتا ہے لیکن ان فلموں کی وجہ سے آج وسطی بھارت میں رہنے والا جنوبی بھارت کی زبانوں تامل، تیلگو، ملیالم وغیرہ کے روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ سے شناسائی رکھتا ہے ‘اسی طرح جنوبی بھارت کا باسی پنجابی اور وسطی بھارت کی زبانوں سے واقف ہو چکا ہے۔ تھوڑی سی حکومتی سرپرستی سے ان زبانوں کو سرکاری سطح پر استعمال میں لایا جا سکتا ہے‘ لیکن آج کل کے سبھی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں ووٹ اور نوٹ کے کھیل میں مدہوش نظر آرہے ہیں یا 8 زبانی مدعے پر ان کی سمجھ اتنی سطحی ہے کہ اس مرض کا اصلی علاج ان کی عقل کے پرے ہے۔ ان کے لئے میرا ایک ہی منتر ہے‘ انگریزی کو مٹاؤ مت لیکن انگریزی کو ہٹاؤ۔ اگر آپ اسے ہٹا نے میں کامیاب ہو گئے تو ہندی سمیت دیگر تمام بھارتی زبانیں تو خود بخود اپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
چین کی ٹکر میں نیا پینترا
امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوب مشرقی ایشیا کے 12 ممالک کواپنے ساتھ جوڑ کر ایک نیامعاشی اتحاد کھڑا کیاہے جس کا نام ''انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک (آئی پی ای ایف)‘‘ہے۔ ٹوکیو میں بنے 13 ممالک کے اس اتحاد کا اعلان امریکی صدر بائیڈن نے جاپانی وزیراعظم فومیو کشیدا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت میں یہ اس بڑی علاقائی شراکت داری تنظیم ( آر سی ای پی) کا جواب ہے‘ جس کا کرتا دھرتا چین ہے۔ اس 16 ملکی تنظیم سے اب بھارت نے ناتا توڑ لیاہے۔ آئی پی ای ایف اور آر سی ای پی کے بہت سے اراکین ایک جیسے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ اتنا مضبوط ہے کہ اب چین کے زیراثر چلنے والی تنظیم اپنے آپ کمزور پڑ جائے گی۔ بائیڈن نے یہ پہل بھی اسی لیے کی ہے۔ اس علاقے کی ریاستوں کو جوڑنے والے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) اتحادسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا کیونکہ امریکہ کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں ان رکن ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت اس کے لیے فائدہ مند نہیں تھی۔ اب اس نئی تنظیم کے ممالک کے درمیان فی الحال کوئی آزادانہ تجارت کا سمجھوتہ نہیں ہورہا ہے، لیکن یہ 13 ہی ممالک آپس میںمل کر ڈیجیٹل ارتھ ویوستھا‘ قابلِ اعتماد سپلائی چین‘ صاف اقتصادی ترقی‘ بدعنوانی سے پاک صنعت وغیرہ پر خصوصی توجہ دیں گے۔ یہ علامات اپنے آپ میں کافی بلند ہیں۔ انہیں حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن ان کے پیچھے اصلی ارادہ یہی ہے کہ اس خطے کی ریاستوں کی ارتھ ویوستھاؤں کو چین نے جوجکڑ رکھا ہے اس سے چھٹکارا دلایاجائے۔ بائیڈن انتظامیہ کواپنے اس ٹارگٹ میں کہاں تک کامیابی ملے گی؟ یہ اس پر منحصر ہوگا کہ وہ ان رکن ممالک کو کتنی چھوٹ دے گی۔بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔ امریکہ میں مہنگائی اور بے روزگاری نے اس کی معیشت کی رفتار کو سست کر دیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کی مقبولیت پر بھی اس کااثر پڑا ہے۔ ایسی حالت میں وہ ان جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ کتنی رعایت کر پائے گی‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ بات تواچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے کہ سرد جنگ کے دور کا وہ زمانہ اب لد گیا ہے جب سیٹو اور سینٹو عسکری فوجی تنظیمیں بنائی جاتی تھیں۔ اس نے چین سے سیکھا ہے کہ اپنی پکڑ مضبوط کرنے کیلئے معاشی ہتھیار ہی سب سے زیادہ کارآمد ہے‘ لیکن امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے‘جہاں اپوزیشن اور جمہوریت‘ دونوں ہی مضبوط اور بلند آواز ہیں‘ جبکہ چین میں پارٹی کی تانا شاہی جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ جو بھی ہو ‘ان دونوں عالمی طاقتوں کی دشمنی میں بھارت کو تو اپنا فائدہ ہی دیکھنا ہے۔ اسی لیے اس نے باربار ایسے بیانات دیے ہیں‘ جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت کسی (چین) کے خلاف نہیں ہے۔ وہ تو صرف معاشی شراکت میں امریکہ کا ساتھی ہے۔ چین سے تنازع کے باوجود وہاں اس کا کاروبار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس نئی تنظیم کے ذریعے اس کا کاروبار بڑھے ‘ نہ بڑھے اس کے رکن ممالک کے ساتھ بھارت کا کاروبار اور معاشی تعاون مسلسل بڑھتا ہی جا ئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں