مہاراشٹر کی سیاست بھارت سمیت تیسری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک کے لیے کچھ مہا سبق دے رہی ہے۔سب سے پہلا سبق تویہی ہے کہ خاندانی اور موروثی سیاست پر جو پارٹی ٹکی ہوئی ہے‘ وہ خود کے لیے اور جمہوریت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ خود کے لیے خطرہ ہیں‘ یہ اودھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے ثابت کر دیا ہے۔ اب جو شیو سینا اودھو ٹھاکرے کے پاس بچی ہوئی ہے‘ وہ کب تک بچی رہے گی یا بچے گی بھی یا نہیں بچے گی‘ کچھ پتا نہیں۔ اس کے دو ٹکڑے پہلے ہی ہوچکے تھے؛ جیسے لالو پرشاد اور ملائم سنگھ کی پارٹیوں کے ہوئے تھے۔ یہ پارٹیاں سیاسی خاندانوں کے الگ الگ ستونوں پر ٹکی ہوتی ہیں۔ کوئی پارٹی ماں‘ بیٹا پارٹی ہے تو کوئی باپ‘ بیٹا پارٹی ہے۔ کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے تو کوئی بوا ‘ بھتیجا پارٹی ہے۔ بہار میں تو ایک میاں‘ بیوی پارٹی بھی رہی ہے۔ اب جیسے کانگرس بھائی‘بہن پارٹی بنتی جا رہی ہے ویسے ہی پاکستان میں بھائی‘ بھائی پارٹی اور باپ‘ بیٹا پارٹیاں ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی ایک میاں‘ بیوی اور ایک باپ‘ بیٹی پارٹی ہے۔ پورے برصغیر میں ایسا ہی کلچر ہے۔ یہ سب پارٹیاں اب پارٹیاں رہنے کے بجائے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنتی جارہی ہیں۔نہ تو ان میں داخلی جمہوریت ہوتی ہے، نہ ان میں آمدنی اور خرچ کا کوئی حساب دیتاہے اور نہ ہی ان کی کوئی سوچ و فکر ہوتی ہے۔ ان کا واحد مقصد ہوتا ہے اقتدار حاصل کرنا۔ اگر سیوا سے اقتدار ملے اور اقتدار سے عوام کی سیوا کی جائے تو اس کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن اب تو سارا کھیل طاقت اور پیسے میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ ستا یعنی طاقت ہتھیاؤ تاکہ نوٹوں کے پتے برسنے لگیں۔ ستا سے پتا اور پتا سے ستا؛ اب یہی جمہوریت کی پہچان بن کر رہ گئی ہے۔سیاست میں ظلم و زیادتی ہی اصل کارکردگی بن کر رہ گئی ہے۔ ہماری سیاست میں آدرش اور نظریات اب آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ بھارتیہ سیاست کی تجدید و نتھار کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام پارٹیوں میں موروثیت پر روک لگانے کی کچھ آئینی تدبیر کی جائے۔ مہاراشٹر کی سیاست کا دوسرا سبق یہ ہے کہ موروثی سیاست اور خاندانی گدی نیتا کو مغرور بنادیتی ہے۔ وہ اپنے عہدے کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھنے لگتا ہے۔ ایک بار اس پر بیٹھ گیا تو زندگی بھر کے لیے جم گیا۔ پارٹی میں نیتا جو تاناشاہی‘ جو ڈکٹیٹر شپ چلاتا ہے‘ اسے وہ سرکار میں بھی چلانا چاہتا ہے۔ کانگرس میں پچھلے دنوں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو نوٹس ملنے پر پوری پارٹی اسی مدعے کو لے کر احتجاج پر اتر آئی تھی۔ اس طرح پارٹی قیادت کے مسئلے کو عوام کا مدعا بنا کر پیش کیا جاتا رہا جس سے اصل مدعے پیچھے رہ گئے۔ جتنی بھی موروثی سیاسی جماعتیں ہیں‘ ان کے پاس مذمت کے علاوہ کوئی دھندا ہی نہیں بچا۔ ان کے پاس نہ کوئی وچار دھارا ہے نہ اصول‘ نہ پالیسی‘ نہ پروگرام‘نہ عوامی مفاد کے مدعے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دکھاوے کا نیتا بھی نہیں ہے۔ ایسی جماعتوں سے کسی عالمی سطح کی لیڈر کی توقع کرنا بھی فضول ہے۔ ان کے پاس جو نیتا ہیں وہ مسخروں کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر لوگ ہنسنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟جیسے راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ بھارت‘ چین سرحدی تنازع روس‘ یوکرین جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ ایسا مضحکہ خیز بیان جو دے‘ کچھ خوشا مدی لوگ اسے ہی کانگرس جیسی بڑی پارٹی کا صدر بنوا دینا چاہتے ہیں۔ جو شخص بھارت اور چین کے معاملے کا موازنہ یوکرین اور روس سے کرسکتا ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے والدین نے اس کی پڑھائی لکھائی پر کتنا دھیان دیا ہوگا۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر سیاسی رہنما بین الاقوامی سیاست کا ماہر ہو لیکن وہ اگر اخبار بھی دھیان سے پڑھ لے یا اگر اخبار نہ پڑھ سکے تو کم از کم ٹی وی دیکھ لیا کرے تو وہ ایسی بے سر و پیر کی بات کہنے سے بچ سکتا ہے۔ موروثی سیاست دانوں کے پاس نہ تعلیم ہے نہ تجربہ، نہ وہ سیاست کے رموز کو سمجھتے ہیں نہ ہی سیاسی دائو پیچ بہتر طریقے سے کھیل سکتے ہیں، ان کی چونکہ کوئی سیاسی تربیت بھی نہیں ہوئی ہوتی لہٰذا یہ بنی بنائی پارٹیوں کا بھی بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ بنی بنائی پارٹیاں پیڑ کے پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گر جاتی ہیں اور یہ کسی نظریے اور سوچ کے بغیر اس کے بخیے ادھیڑنے لگتے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ پارٹی کو جدید کر رہے ہوتے ہیں مگر اکثر وہ پارٹی کے بانیوںکا نام بھی ڈبو دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگ سرکاروں کو بہت اثر اور ڈرامائی طریقے سے چلاتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں لیکن جب پاپ کا گھڑا پھوٹنے کو ہوتا ہے تو اس وقت ایمرجنسی لگانی پڑتی ہے۔ اگر بھارت کو جمہوری ملک بنائے رکھنا ہے اور اسے ایمرجنسی سے بچانا ہے تو پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کی حفاظت کے لیے کچھ آئینی اہتمام کرنا ہوں گے۔
آتنک واد اور ویٹو پاور
برکس کے سالانہ اجلاس‘ جو چینی صدر کی صدارت میں 23 سے 24جون کو ورچوئلی منعقد ہوا تھا‘ اور جس میں چین اور بھارت سمیت دوسرے ممالک کے نیتائوں نے آتنک واد کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنائی‘ اس اجلاس سے قبل ہی چین نے ایک آتنک وادی کے کیس کو اقوام متحدہ میں ویٹو کر دیا۔ امریکا اور بھارت نے مل کر ایک شخص کا نام آتنک وادیوں کی عالمی فہرست میں ڈلوانے کی تجویز پیش کی تھی لیکن چین نے سلامتی کونسل کے ممبر ہونے کے ناتے اپنا اڑنگا لگا دیا۔ اب یہ کام اگلے 6 ماہ تک کے لیے ٹل گیا ہے۔ اگر چین اڑنگانہیں لگاتا تو اس پر بھی ویسی ہی بین الاقوامی پابندیاں لگ جاتیں‘ جیسی اب تک کئی دیگر آتنگ وادیوں پر لگ چکی ہیں۔ اس معاملے میں اڑنگا لگانے کی کوشش کیوں کی گئی‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف توچین سمیت سبھی ممالک دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ دہشت گردوں کی پیٹھ ٹھوکتے رہتے ہے۔ جن آتنک وادیوں کے خلاف پاکستان سمیت مختلف ممالک کی سرکار نے کافی سخت قدم اٹھائے ہیں‘ ان کی حمایت بین الاقوامی فورمز پر کیوں کی جاتی ہے۔ پاکستان کی سرکاریں آتنک وادیوں سے تنگ آچکی ہیں۔ انہوں نے عام شہریوں کی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ یہ ڈنڈے کے زور پر پیسے بٹورتے ہیں۔ قانون قاعدوں کی پروا نہیں کرتے۔ سرکاریں انہیں سلاخوں کے پیچھے بھی ڈال دیتی ہیں، لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں سے ان کی طرفداری کی جاتی ہے۔ اس سے ان ممالک کو کیا فائدہ ہے؟ شاید ان ممالک کوبس یہی فائدہ ہے کہ یہ آتنک وادی ان کے مخالف ممالک کو نقصان پہنچاتے ہیں یعنی بھارت کا نقصان چین کا فائدہ ہے۔ یہ سوچ کسی دن ان ممالک کے لیے بھی بہت مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ دہشت گرد کبھی بھی کسی کی پیٹھ ٹھوک کر اپنے حمایتیوں کی چھاتی پر سوار ہو سکتے ہیں۔ اگر قراردادوں کو ویٹو کرنے والے پانچ مستقل ممبران آتنک وادیوں کی طرفداری اس لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کے مخالف راشٹروں میں اپنی دہشت پھیلا رکھی ہے اور ان کی وجہ سے انہیں فائدہ ہو رہا ہے تو انہیں پتا ہونا چاہیے کہ ان آتنک وادیوں کی وجہ سے متاثرہ ممالک کا امیج پوری دنیا میں چوپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ان ممالک کے مہذب اور شریف شہریوں کو بھی ساری دنیا میں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ انہیں اس بات کا شاید اندازہ نہیں کہ آتنک وادی کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ یہ اپنے مفاد کی خاطر کسی کے ساتھ بھی مل سکتے ہیں۔ بے شمار ایسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔