حیدر آباد میں بھاجپا کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کافی دھوم دھام سے ختم ہو گئی لیکن ابھی تک یہ پتا نہیں چلا ہے کہ بھاجپا کی سرکاروں اور پارٹی نے کون کون سے کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن اس میں شامل ہوئے نیتاؤں کے بھاشنوں میں سے کچھ قابلِ ذکر نکات سامنے آئے ہیں۔ جیسے اقلیتوں کے کمزور طبقوں کی بھلائی کی بات، سیاست میں موروثیت کا خاتمہ اور اگلے 25‘ 30 سال تک بھاجپا حکومت کے چلتے رہنے کی امید! جہاں تک اقلیتوں یعنی مسلمانوں کے کمزور طبقوں کا سوال ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کے 80 سے 90فیصد لوگ کمزور طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غریب ہیں، محنت کش ہیں اور زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو پہلے ہندو تھے‘ یعنی دلت اور پھر مسلمان ہو گئے۔ پسماندہ ذاتوں کے بھی جو لوگ مسلمان ہوئے‘ غیر ملکی حکمران بھی ان لوگوں کو معاشرے میں اونچا مقام دینے ناکام رہے۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو گئی۔ کچھ مٹھی بھر چالاک لوگوں نے اپنے اقلیت ہونے کا فائدہ ضرور اٹھایا، لیکن زیادہ تر مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی حیثیت آج بھی جوں کی توں ہے۔ سیاست کے داؤ پیچوں نے ان کی پسماندگی کو بڑھاوا ہی دیا ہے۔ اگر ان کی طرف بھاجپا خصوصی توجہ دے گی تو ہی بھارت کا بھلا ہوگا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی بھلائی اور بہبود کی بات بالکل صحیح کہی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ اودے پور اور امراوتی کے واقعات کو بھاجپا طول نہیں دے رہی ورنہ بھارت میں انارکی پھیل سکتی تھی۔ یہ قیادت کی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ جہاں تک موروثی سیاست کا تعلق ہے اس کے خلاف میں برابر لکھتا رہا ہوں لیکن دنیا میں جمہوریت کو خطرہ صرف پریوار واد یعنی خاندانی اور موروثی سیاست سے ہی نہیں ہے، نیتاؤں اور کارکنان کے آمرانہ رویے سے بھی ہے۔ نپولین، ہٹلر، مسولینی اور سٹالن وغیرہ کیا پریوار واد کی وجہ سے حکمرانی کر رہے تھے؟ انہوں نے اپنے دم پر ہی جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا تھا۔ اگر بھاجپا سرکار کی پالیسیاں دکھاوٹی نہیں، سچی اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر مبنی ہوں تو وہ اگلے 25‘ 30سال کیا اور بھی کئی سالوں تک راج کرتی رہ سکتی ہے۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ بھاجپا کے رہنما بھی لگاتار خود مختار نہ ہوتے چلے جائیں جیسے کہ اندرا گاندھی ہو گئی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت کی اپوزیشن اس وقت ڈانواں ڈول ہے‘ اس کے پاس نہ کوئی ٹھوس پالیسی ہے، نہ نیتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں اپوزیشن کو زندہ رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ سرکار کو اونگھنے سے بچانے کے لئے ایک کان پھوڑو اپوزیشن کی ضرورت تو ہمیشہ رہتی ہے۔ جمہوریت کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن کے پہیوں پر چلتی ہے‘ ان میں سے ایک کی بھی کمی پورے سسٹم کو ڈی ریل کر سکتی ہے۔
بھارت میں کیوں چلائیں 'دھرم یدھ‘
نوپور شرما کے معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ کے دو ججوں نے بحث کے دوران جو رائے دی ہے اسے لے کربھارت میں کافی بحث چھڑ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ 'ایک منہ پھٹ نے پورے ملک میں آگ لگا دی، نوپور شرما کو پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے‘۔ نوپور شرما کے گستاخانہ بیان پر بھارت کی ایک مسلم سماجی تنظیم نے سوشل میڈیا پر نوپور کی گرفتاری کے لیے مہم شروع کی تھی جبکہ ممبئی میں بی جے پی کی ترجمان کے خلاف قانون کے تحت مقدمہ بھی درج کروایا گیا۔نوپور شرماکے خلاف مختلف شہروں میں ایک درجن سے زیادہ مقدمات قائم ہوئے تھے جس پر اس نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کے خلاف درج تمام مقدمات کو دہلی منتقل کیا جائے۔اس کیس میں سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ ''ایک ٹی وی چینل کا ایجنڈا چلانے کے علاوہ ایک ایسے معاملے پر بحث کرنے کا کیا مقصد تھا جو پہلے ہی عدالت میں ہے اورایسا بیان دینے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نوپور شرما کا بیان اودے پور میں پیش آنے والے واقعے کا بھی ذمہ دار ہے۔ سپریم کورٹ نے نوپورکی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ نوپور کے وکیل نے عدالت کو جب یہ بتایا کہ وہ معافی مانگ چکی ہیں اور اپنا بیان واپس لے چکی ہیںتو جج نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے بیان واپس لینے اور معافی مانگنے میں بہت دیر کر دی ہے۔ اس سارے کیس کو لے کر بھارت میں لوگ تقسیم ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ ججوں کی رائے زنی پر ناراضی کا ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ تو سب کو پتا ہے کہ ججوں کی رائے ان کے فیصلے کا جز نہیں ہوتی‘ اس لیے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ انہیں بازاری گپ شپ کی طرح اَن دیکھا بھی کیا جا سکتا ہے اور اس پٹیشن کی بھی ضرورت دکھائی نہیں پڑتی کہ جج اپنے تبصرے واپس لیں۔ انہوں نے وکیل کے بیانوں کے جواب میں اسی طرح تیکھے تبصرے کیے جیسے ٹی وی پر بات چیت کے دوران کیے جاتے ہیں اور جن سے کافی غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان ججوں کا یہ سوال بھی دھیان دینے لائق ہے کہ پترکار تو ویسا تبصرہ کر سکتا ہے لیکن کسی پارٹی ترجمان کو مشتعل ہو کر کوئی ایسا بیان دینا چاہئے کیا؟ ہمارے سیاسی نیتا اور ان کے ترجمان خاص طور پر ٹی وی چینلوں پر کافی بے باک تبصرے کردیتے ہیں ان کو اس کا کرارا جواب مخالف لوگ دیے بنا مانتے نہیں ہیں۔ عدالت نے یہ جو سوال اٹھایا ہے بڑا اہم ہے کہ جو کیس عدالت میں چل رہا ہے اس پر ٹی وی میں کس طرح کھلے عام گفتگو کی جا رہی ہے۔ آئینی و قانونی طور پر عدالت میں چل رہے کسی مدعے پر بحث نہیں جا سکتی مگر میڈیا کو کوئی ایسا ہی ایشو چاہیے ہوتا ہے جس سے سنسنی پھیلائی جا سکے۔ٹی وی مالک تو یہی چاہتے ہیں اگر تو تو‘ میں میں جم کر چلے تو ان کے ناظرین کی تعداد بڑھے گی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے دیش کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسی بحثوں کو روکنے کیلئے کیمروں پر بھی روک لگایاجانا ضروری ہے۔ بہترتو یہی ہو کہ اس طرح کے متنازع مدعوں پر جو بھی بحث ہو اسے پہلے سے ریکارڈ اور ایڈیٹ کر کے ہی جاری کیا جائے۔ ورنہ جو کچھ اودے پور میں ہوا ہے وہ بڑے پیمانے پر بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت کیلئے اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن نے اپنے دل کا درد کل امریکا میں بھارتی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے عام کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن نیتا‘ دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ ان کی طرف جھکے لیکن اس کا بھرم اس کے غیر جانبدار رہنے سے ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ بہت دکھ کی بات ہے کہ ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے نیتا اپنی اپنی روٹیاں سینکنے سے اب بھی باز نہیں آ رہے ہیں۔ بھاجپا کی جانب سے اس معاملے پر واضح موقف اور پریس ریلیز کے بعد بھی کئی مقامی لیڈر اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ ان کی کارگزاریوں کے سبب سیکولر بھارت دھرم یدھ کا میدان بن سکتا ہے۔