"DVP" (space) message & send to 7575

بھارتی جمہوریت کی حالت

سونیا گاندھی اور راہل گاندھی آج کل ''نیشنل ہیرالڈ‘‘ گھوٹالے میں بری طرح پھنس گئے ہیں۔ مودی سرکار انہیں پھنسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی جبکہ وہ دونوں دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ صاف ستھرے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ ٹھیک ہے تو وہ ڈرے ہوئے کس بات سے ہیں؟ تحقیقات ہونے دیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی اپنے آپ ہو جائے گا۔ وہ کھرے تو اُتریں گے ہی‘ مودی سرکار کی عزت بھی پیندے میں بیٹھ جائے گی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اسی لیے آئے دن دھواں دھار مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کانگرسی ایم پیز اور کارکنان نے اپنے رہنماؤں کو بچانے کیلئے مہنگائی‘ بیروزگاری اور جی ایس ٹی کانیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے عوام پریشان تو ہیں لیکن پھر بھی وہ کانگرس کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے؟ لوگ ان مظاہروں میں شامل کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟ ان مظاہروں کے دوران راہل گاندھی کے بیانوں میں جو تھوڑی بہت سچائی موجود ہوتی ہے اسے بیان کرنے کا طریقہ مضحکہ خیز ہے۔ جیسے راہل کا یہ کہنا کہ بھارت میں جمہوریت کا قتل ہو گیا ہے۔ وہ ماضی کا موضوع بن گیا ہے۔ راہل شاید اپنی ہی جماعت کی لگائی ایمرجنسی کو بھول چکے ہیں۔ راہل کو مودی حکومت خالص تانا شاہی لگ رہی ہے۔ کیوں نہ لگے گی؟ کانگرس کو مودی نے ماں بیٹا پارٹی تک محدود کر دیا ہے۔ اس پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی ساکھ مسلسل گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے تو جب کانگرس جیسی مہان پارٹی ہی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے تو بھاجپا کی کیا بساط ہے کہ وہ جمہوری پارٹی ہونے کادعویٰ کرتی پھرے۔ بھارت کی تقریباً تمام صوبائی جماعتیں اپنی قیادت کی جیبی پڑیا بن گئی ہیں۔ بھاجپا کے راج میں تقریباً تمام جماعتوں کی داخلی جمہوریت تو ہوا ہو ہی گئی ہے‘ اب صحافت بھی لنگڑی ہوتی جا رہی ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون اب دیمک زدہ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم کی پریس کونسل کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ سرکار کا منہ کھلا ہے اور کان بندہیں۔ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں اب صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ وہاں بیٹھ کر بڑے بڑے سیاستدان صحافیوں سے کھل کر ذاتی بات چیت کرتے تھے۔ صحافیوں کو اب وزیراعظم کے بیرونِ ملک دوروں میں ساتھ لے جانے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ کئی اخباروں کو سرکاری اشتہارات ملنے بھی بند ہو گئے ہیں۔ تمام بھارتی ٹی وی چینلز‘ ایک دو کو چھوڑ کر‘ باتونی اکھاڑے بن گئے ہیں۔ جن میں پارٹی ترجمان خم ٹھونکنے اور ڈنڈ پیلنے کے علاوہ کیا کرتے ہیں؟ کئی اخبار اور چینل مالکوں کے ہاں چھاپے مار کر انہیں بھی ٹھنڈا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ بھارتی حزبِ اختلاف کے گروپوں نے پارلیمنٹ کی جو درگت بنا رکھی ہے وہ بھی دیکھنے لائق ہے۔ دوسرے الفاظ میں جب ملک میں صحافت اور آئین لڑکھڑانے لگے تو اس کی افسر شاہی اور نظامِ عدل سے آپ کیا امید کر سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کو بچائیں
سری لنکا کی مشکل اقتصادی صورتحال پچھلے کچھ ماہ سے چل ہی رہی ہے‘ اب بنگلہ دیش بھی اسی راہ پر چلنے کو مجبور ہو رہا ہے۔ جس بنگلہ دیش کی معاشی رفتار جنوبی ایشیا میں سب سے تیز مانی جارہی تھی وہ اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے جھولی پھیلانے پر مجبور ہو رہا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے بھی ڈھاکہ کا خالی چکر لگا لیا لیکن اس وقت بنگلہ دیش کے پاس 13 ہزار کروڑ ٹکا کا قرض چکانے کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے تائیوان کے مسئلے پر چین کو مکھن لگانے کیلئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ چینی مؤقف کی حمایت کرتی ہیں لیکن وانگ یی نے اپنی جیب ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ بین الاقوامی قرض چکانے اور غیر ملکی مال خریدنے کے لیے حسینہ واجد سرکار نے تیل پر 50 فیصد ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کے دام کم ازکم دس فیصد بڑھ گئے ہیں۔ لیکن لوگوں کی آمدنی کافی گھٹ گئی ہے۔ کورونا وبا نے بنگلہ دیش کے غیرملکی کاروبار کو بھی دھچکا پہنچایا ہے۔ بنگلہ دیشی کرنسی یعنی ٹکا کی قیمت 20فیصد گر گئی ہے۔ اس ملک میں 16سے 17 کروڑ لوگ رہتے ہیں لیکن ٹیکس بھرنے والوں کی تعداد صرف 23 لاکھ ہے۔ اس سال تو وہ اور بھی گھٹے گی۔ ابھی تک ایسا لگ رہا تھا کہ پورے جنوبی ایشیا میں بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش ہی معاشی بحران سے بچا ہے لیکن اب وہاں بھی سری لنکا کی طرح عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن رہنما ان مظاہروں کو خوب ہوا دے رہے ہیں لیکن اصلیت یہ ہے کہ سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش کے عوام بھی اپنے ہی دم پر اپنا غصہ ظاہر کررہے ہیں۔ چین بھی بنگلہ دیش کی مدد کرنے سے کترا رہا ہے لیکن شیخ حسینہ حکومت کی صحیح مدد اس وقت بھارت ہی کر سکتا ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے سری لنکا نے چھ بار اور بنگلہ دیش نے تین بار قرض لیا ہے۔ بھارت نے ان تین دہائیوں میں آئی ایم ایف سے کبھی قرض نہیں مانگا۔ بھارت کے پاس غیرملکی کرنسی کافی مقدار میں موجود ہے۔ وہ چاہے تو سری لنکا اور بنگلہ دیش کو مشکل معاشی صورتحال سے نکال سکتا ہے اور پورے جنوب اور وسط ایشیا کو ایک ساتھ گانٹھنے کا کام کر سکتا ہے۔مگر کیا وہ ایسا کرے گا؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔
صدر اور نائب صدر پارٹی سے منسوب نہیں
جگدیپ دھنکھڑ بھارت کے نائب صدر تو بن گئے ہیں لیکن اُن کے چناؤ نے بھارتی سیاست کے کئی غیر واضح پہلوؤں کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ انہیں اس چنائو میں واضح اکثریت ملی ہے۔ انہیں کل 528ووٹ ملے اور مارگیٹ الوا کو صرف 182ووٹ۔ بھاجپا کے پاس اتنے ووٹ تو دونوں ایوانوں میں نہیں۔ پھر کیسے ملے اتنے ووٹ؟ جو ووٹ ترنمول کانگرس کے دھنکھڑ کے خلاف پڑنے تھے‘ وہ نہیں پڑے۔ وہ ووٹ غیر جانبدار رہے۔ اس کی کوئی وجہ آج تک بتائی نہیں گئی۔ دھنکھڑ نے بطور گورنر وزیراعلیٰ ممتا بینر جی کی جیسی درگت بنائی‘ ویسی کسی وزیراعلیٰ کی کیا کسی گورنر نے آج تک بنائی ہے؟ اسی وجہ سے بھاجپا کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی تعداد بنگال میں تین سے 73ہو گئی۔ اس کے باوجود ممتا کے پارلیمنٹرینز نے دھنکھڑ کو ہرانے کی کوشش بالکل نہیں کی۔ کئی اپوزیشن پارٹیوں کے پارلیمنٹرینز نے بھی دھنکھڑ کا ساتھ دیا ہے۔ حالانکہ صدر اور نائب صدر کا عہدہ پارٹی سے منسوب ہوتا ہے لیکن دھنکھڑ کی شخصیت ایسی ہے کہ اسے بھاجپا کے باہر کے ایم پیز نے بھی پسند کیا ہے کیونکہ وی پی سنگھ کی حکومت میں وہ وزیر رہے ہیں‘ کانگرس میں بھی رہے ہیں اور بھاجپا میں بھی رہے ہیں۔ ان کے دوستوں کا پھیلاؤ کمیونسٹ اور صوبائی پارٹیوں میں بھی رہا ہے۔ وہ ایک عام کسان خاندان میں پیدا ہو کر اپنی خصوصیات کے دم پر ملک کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہیں۔ ممتا بینرجی کے ساتھ ان کی کھینچ تانی کافی چرچا کا موضوع بنی رہی لیکن وہ مزاج سے متحمل اور خوش ہیں۔ بھارتی ایوانِ بالا کو ایسا ہی صدر آج کل چاہیے کیونکہ اس میں اپوزیشن کی اکثریت ہے اور اس کی وجہ سے اتنا ہنگامہ ہوتا رہتا ہے کہ یا تو کسی بھی بل پر کوئی بحث ہو ہی نہیں پاتی یا پھر ہاؤس کی کارروائی ملتوی ہو جاتی ہے۔ نائب صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اس اجلاس کے آخری دو دنوں کی صدارت وہی کریں گے۔ وہ کافی منظم انسان ہیں لیکن اب وہ اپنے عہدے کے وقار کا دھیان رکھتے ہوئے ہاؤس کے اندر اور باہر تال میل بٹھانے کی پوری کوشش کریں گے تاکہ بھارت کے ایوانِ بالا میں وہ اپنے فرائض پورے کر سکیں۔ ایوانِ زیریں کے سپیکر اوم برلا اور ایوانِ بالا کے صدر جگدیپ دھنکھڑ کو اب شاید اپوزیشن ایم پیز کو معطل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں