"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کی قومی یکجہتی کے لیے خطرہ‘ ذات پات کا نظام

ایک طرف بھارت سرکار نے مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو بھی ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن یعنی کوٹہ دینے کے ایشو پر ایک کمیشن بنادیا ہے اور دوسری طرف راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک کتاب جاری کرتے ہوئے بھارت میں ''ذات توڑو‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ہندومت کے شاستروں میں کہیں بھی ''جاتی واد‘‘ یعنی ذات پات کے نظام کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔ بھارت میں جاتی واد تو پچھلی کچھ صدیوں کی ہی دین ہے۔ ہندومت پیدائشی ذات پات کو نہیں مانتا تھا۔وہ کرمن‘ورن ویوستھا میں یقین کرتاتھا یعنی کوئی بھی آدمی اپنے کَرم اور اعمال سے براہمن بنتا ہے۔موہن بھاگوت خود براہمن خاندان میں پیدا ہوئے ہیں۔ میں ان کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے جنم کی بنیاد کو ردّ کر کے کرم یعنی انسان کے اعمال کو بنیاد بتایا ہے۔ ہندومت کی کتاب بھگود گیتا میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''چار وںورنوں کا نرمان میں نے گُن اور کَرم کی بنیاد پر کیا ہے‘‘۔ یعنی انسان اپنے اعمال اور کردار کی بلندی ہی سے نروان حاصل کرتا ہے۔ یونانی فلاسفر افلاطون نے بھی اپنی عظیم کتاب ''ریپبلک‘‘ میں جوتین گُر بتائے ہیں وہ جنم نہیں بلکہ کرم کی بنیاد پر بنائے ہیں۔ منوسمرتی میں بھی بالکل ٹھیک کہا گیا ہے کہ جنم سے سبھی شدھ پیدا ہوتے ہیں، سنسکار سے لوگ براہمن بنتے ہیں۔ ہندومت کے ویدوں کی مشہور کتاب یجروید کے 40ویں باب میں بھی کہا گیا ہے کہ ایشور کے منہ سے براہمن، بھجاؤں سے کشتری اور پاؤں سے شودر پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن شودر بھی اسی طرح سے احترام کے لائق ہیں جیسے کہ دیگر ذاتوں کے لوگ۔ اسی لیے بھارتیہ لوگ ''پائوں چھونے‘‘کو سب سے زیادہ قابلِ احترام مانتے ہیں۔چند صدیاں پہلے مگر کچھ لوگوں نے ایسے نظام کو بڑھاوا دیا اور یہ بدترین ذات پات کا نظام ہندومت کے نام پر ہندوستان بھر میں چل پڑا۔ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس صورت میں ذات کا نظام آج بھارت میں رائج ہے، یہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے اور برطانوی سامراج کی آمد کے دوران پروان چڑھایا گیا۔ بھارتیہ آئین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی ہے اور تاریخی لحاظ سے ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے شیڈول (پسماندہ) ذاتوں اور قبائل کے لیے 1950ء میں حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔ 1989ء میں دیگر پسماندہ طبقات کو بھی اس کوٹے میں شامل کر دیا گیا تا کہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں ان کی پسماندگی کو ختم کیا جا سکے۔ اب عیسائیوں اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو بھی ریزرویشن دینے کے لیے کمیشن بنایا جا رہا ہے۔ موہن بھاگوت کو چاہئے کہ وہ جاتی واد کے خلاف صرف بولیں ہی نہیں بلکہ بھارت کے عوام کو کچھ ٹھوس سجھاؤ بھی دیں۔ سب سے پہلے تو ذات پات کے ناموں کو ختم کیا جائے۔ ذات پات پر مبنی کوٹہ سسٹم بند کیا جائے۔ سجھاؤ تو کئی ہیں۔میں نے 2010ء میں جب ''میری جاتی ہندوستانی‘‘تحریک چلائی تھی تب کئی ٹھوس سجھاؤدیش کی جنتا کو دیے تھے۔ اس تحریک کی وجہ سے ہی بھارتیہ وزیراعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کو رکوا دیا تھا۔ اس تحریک میں میرے ساتھ آگے آگے رہنے والوں میں سے کئی آج گورنر، وزیر اور ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ اُن دنوں نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ وہ اکثر مجھے فون کیا کرتے تھے اور ڈٹ کر میری حمایت کرتے تھے لیکن ووٹ اور نوٹ کی مجبوری نے ہماری سیاست کو خراب کر دیا ہے۔ وہی نریندر مودی جو ذات پات کے نظام کے خلاف تھے، اب ان کی سرکار عیسائیوں اور دیگر افراد کو ذات پات اور دھرم کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کیلئے تیار ہو گئی ہے۔ البتہ مجھے خوشی ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ بھارت کی قومی یکجہتی کے لیے خطرناک بن رہے اس مدعے پر کم سے کم انگلی تو اٹھا رہے ہیں۔ نریندر مودی کو بھی چاہیے کہ وہ موہن بھاگوت کی راہ پر چلیں اور اس جاتی واد کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات کریں۔ براہمن اور شودر کی بحث سے نکل کر ''ہندوستانی جاتی‘‘ کو فروغ دینا چاہیے۔
ملائم سنگھ یادیو اور اٹل بہاری واجپائی
ملائم سنگھ یادیو بھی چل دیے۔ وہ نہ صرف سماج وادی پارٹی کے سرپرست تھے بلکہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک پسماندہ طبقات کی سیاست کا محور رہے۔ نڈر اور بے باک لیڈر ملائم سنگھ یادیو کے انتقال پر ہر سیاسی جماعت ، عوام اور ہر طبقے کی طرف سے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔ ملائم سنگھ کا جانا نہ صرف سیاست میں ایک عہد کا خاتمہ ہے بلکہ ہندوستان میں دم توڑتے سیکولرازم کا بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔ انہوں نے نوجوانی ہی سے سخت محنت کر کے صوبائی اور قومی سیاست میں اپنا مقام بنایا۔ وہ تین بار اترپردیش کے وزیراعلیٰ رہے اور بھارت کے مرکزی وزیر دفاع کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ملائم سنگھ جی اور اٹل بہاری واجپائی سے میرا 55‘ 60 سالوں پر محیط تعلق رہا ہے۔ میرے والد جگدیش پرساد ویدک اٹل بہاری جی سے بھی زیادہ کٹر جن سنگھی تھے۔ سَنگھ کے سارے رہنما اندور میں میرے گھر کو اپنا ٹھکانا ہی سمجھتے تھے لیکن 1962ء میں اندور کے سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر میں نے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کو اپنے اندور کرسچن کالج میں بھاشن کے لیے بلوالیا۔ ان کے بھاشن کا اثر مجھ پر اتنا گہرا ہوا کہ میں ان کی انگریز ہٹاؤ تحریک سے جڑ گیا۔ میں کسی سیاسی پارٹی کا کبھی ممبر نہیں بنا لیکن 12 سال کی عمر میں ہی پہلی بار ہندی تحریک میں گرفتار ہوا۔ ادھر اترپردیش میں ملائم سنگھ 15 سال کی عمر میں گرفتار ہوئے۔ جب ہم ملے تو دونوں کا تعلق بہت زیادہ گہرا ہو گیا۔ اب سے تقریباً 20سال پہلے‘ 28 فروری 2002ء کی بات ہے۔ دہلی کا حیدرآباد ہاؤس، جہاں وزرائے اعظم کی دعوتیں ہوتی ہیں‘ وہاں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے اعزاز میں ایک دعوت تھی۔ حامد کرزئی کے والد احد کرزئی صاحب کابل میں میرے قیام کے دوران میرے دوست بن گئے تھے۔ جیسے ہی مہمان کھانے کے ہال میں داخل ہوئے اور میرا وزیراعظم اٹل جی سے سامنا ہوا تو میں نے ان سے پوچھا: کرزئی کاہم نے کیا کیا ؟ وہ بولے:یہ بات تو بعد میں ہوجائے گی، پہلے یہ بتائیے کہ لکھنؤ میں کیا کیاجائے ؟اس وقت بی جے پی کی سخت مخالف سماج وادی پارٹی نے ریاستی الیکشن میں فتح حاصل کی تھی۔ میں نے کہا :ملائم سنگھ جی کی حمایت کریں۔ اٹل جی نے کہا:ٹھیک ہے‘ پہلے پریم سے کھانا کھائیے اور پھر بتائیے۔ کھانے کے بعد سبھی مہمان وداع ہونے کیلئے دروازے کے پاس نیچے جمع ہونے لگے۔ وزیراعظم اٹل جی نے ایک بار پھر پوچھا:تو کیا سوچا آپ نے؟ میں نے کہا: طریقہ وہی ہے جو آپ کے ساتھ ہوا، یعنی سب سے بڑی پارٹی کے رہنما کو صدر صاحب نے بلایا وزیراعظم کے حلف کے لیے۔ لکھنؤ میں اب ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ چیف منسٹر بھی انہیں ہی بنایا جانا چاہئے۔ اتنے میں سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال ہم دونوں کے ایک دم قریب آگئے۔ اٹل جی نے گجرال صاحب سے پوچھا: آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: ویدک جی جو کہہ رہے ہیں‘وہ بالکل صحیح ہے۔ اٹل بہاری جی نے تپاک سے کہا:صحیح ہوسکتا ہے لیکن آپ دونوں ملائم سنگھ کی حمایت اس لیے کررہے ہیں کہ وہ آ پ کے دوست ہیں۔ اس بات پرسب ہنس دیے۔ یہ گفتگو آس پاس کھڑے کئی وزرا بھی سن رہے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا: ہائے بھگوان! یہ آپ کیا صلاح دے رہے ہیں؟ چیف منسٹر اگر ملائم سنگھ کو بنایا تو وہ پہلے دن ہی ہم سب کو اندر کردیں گے۔ انہوں نے شنکر آچاریہ کو پکڑ لیا ہے‘ وہ ہمیں کیوں بخشیں گے؟ میں نے کہا:یہ ضروری نہیں! یہ بھی ممکن ہے کہ اٹل جی لکھنؤ میں ملائم سنگھ کی اتحادی حکومت کو چلنے دیں اور ملائم سنگھ جی دہلی میں اٹل جی کی اتحادی حکومت کو چلنے دیں۔ اگر اسی وقت یہ بات مان لی جاتی تو آئینی روایات کی حفاظت تو ہوتی ہی‘ ڈیڑھ سال تک بی جے پی کو بہوجن سماج پارٹی کے کچرے کو اپنے کندھے پر نہیں ڈھونا پڑتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں