ملک اس وقت بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ معیشت پہلے ہی بدحال تھی کہ اب دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ بارہ ربیع الاوّل کے روز مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردوں نے بزدلانہ حملے کیے۔ ملکی صورتحال اس وقت آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسی ہے۔ نگران حکومت کو ان دونوں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن محدود اختیارات کی وجہ سے اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایک طرف دہشت گردی سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب وہ معاشی محاذ پر بھی سرگرم ہیں۔ منگل کے روز منعقدہ نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں‘ جس میں نگران وزیراعظم اور آرمی چیف بھی شریک تھے‘ یہ اہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ جائیں‘ ڈیڈ لائن ختم ہونے پر ان کو ملک بدر اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ پاکستانی شہریوں کی فلاح اور سکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے۔ اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کی روک تھام کے بارے میں اقدامات پر بریفنگ بھی دی گئی۔ اجلاس میں ایک اور اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ 10اکتوبر سے پاک افغان سرحد پر نقل وحرکت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر ہو گی جبکہ یکم نومبر سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزہ پر ہو گی۔ دیگر تمام قسم کی دستاویزات سرحد پار سفرکے لیے غیر مؤثر اورغیر قانونی ہوں گی۔
اس اہم فیصلے کے معاشی اور سماجی دو پہلو ہیں۔ معاشی پہلو پر بات کی جائے تو پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی ابتر ہیں۔ مہنگائی روز افزوں ہے‘صنعتیں زوال کا شکار ہیں‘برآمدات مسلسل گر رہی ہیں‘ جی ڈی پی غیر مستحکم ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ توانائی کے شعبے کی بات کی جائے تو یہاں آئی پی پیز فرنس آئل کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کرتی ہیں۔ ملک میں ہائیڈرو پاور انرجی پیدا نہیں کی جا رہی جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک گرین انرجی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ یعنی توانائی کا شعبہ معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت کو بوسٹ نہیں مل رہا۔ معاشی ابتری کی ایک اور بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جبکہ دہشت گردی بھی وقفے وقفے سے معیشت پر حملے کر رہی ہے۔ جیسا کہ اب غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے۔ ایسے میں وہ افغان مہاجرین‘ جوغیر قانونی طور پر مقیم ہیں‘ اگر انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے تو اس سے معیشت پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں افغان مہاجرین کاروبار نہ کر رہے ہوں۔ یہ لوگ حکومتِ پاکستان کو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتے لیکن پاکستان کا انفراسٹرکچر استعمال کر رہے ہیں‘ روڈ‘ ریلوے کا نیٹ ورک استعمال کر رہے ہیں‘ بجلی اور گیس استعمال کررہے ہیں‘ تعلیم اور صحت کے نیٹ ورک کو استعمال کررہے ہیں لیکن بدلے میں وہ کچھ نہیں دے رہے۔ ایک معیشت جو پہلے ہی عدم استحکام سے دوچار ہو‘ اس پر غیرملکی اضافی بوجھ بن جائیں تو ایسے میں معیشت مزید سکڑے گی۔ فی کس آمدنی کم ہو گی‘ ایسے میں حکومت تعلیم اور صحت سے متعلق جتنی سہولتیں دے گی‘ وہ ملک کے شہریوں کے لیے ظاہر ہے کم پڑ جائیں گی۔
پاکستان غیر ملکی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں رہائش پذیر افغان شہریوں کی تعداد 37 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے جون 2023ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کی کل تعداد میں سے صرف تیرہ لاکھ تیس ہزار رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی بغیر اندراج کے رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک چھ لاکھ نئے افغان پناہ گزین بھی پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ افغان مہاجرین نے پہلے خشک میوہ جات سے کاروبار کی دنیا میں قدم رکھا اور اب دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی بڑی مارکیٹوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔یہ افغانی مڈل کلاس سے لے کر اپر کلاس کے تمام کاروبار میں شامل نظر آتے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان جانے والی جتنی بھی اشیا ہیں‘خصوصاً چینی اور گندم‘ ان کی برآمدات دیکھ لیں‘ ان پر زیادہ تر غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانی ہی ہولڈ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ غیر قانونی مہاجرین کیسے ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اس کا اندازہ رواں برس فروری میں جاری ہونے والی بلومبرگ کی رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالرز افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ 50لاکھ ڈالرز یومیہ افغان تاجر پاکستان سے سمگل کررہے ہیں جس سے افغانستان میں طالبان حکومت کو وہ معاشی سہارا مل رہا ہے جو امریکا اور یورپ کی جانب سے افغانستان کے اربوں ڈالرز منجمد کرنے کے بعد چھن گیا تھا لیکن اب اس صورتحال کی وجہ سے پہلے سے ہی معاشی مسائل کے شکار پاکستان کے لیے معاملات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ جہاں یہ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی مہاجرین معیشت پر بوجھ ہیں وہیں وہ سکیورٹی رسک بھی ہیں کیونکہ ملک میں حالیہ ہفتوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان باشندے ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 80ہزار سے زائد جانیں گنوا چکا ہے۔ سانحۂ پشاور سمیت کئی دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی جسے یہاں کے سہولت کاروں نے عملی جامہ پہنایا۔ مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردی کی تازہ لہر کے تانے بانے بھی افغانستان سے مل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کا کردار چوری اور سینہ زوری والا ہے۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ افغانستان خطے کے کسی بھی ملک کی سکیورٹی کی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ پاکستان اپنی سکیورٹی صورتحال کاجائزہ لے اور اپنے مسائل کا حل اپنے ملک میں ہی تلاش کرے۔ ان کے بقول افغان حکومت نے پاکستان کو موردالزام نہیں ٹھہرایا بلکہ اپنے سکیورٹی معاملات کو بہتر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دیکھا جائے تو افغان حکومت میں نہ مانوں کی ضد پر اڑی ہے اور کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں جبکہ ٹھوس شواہد یہی بتاتے ہیں کہ افغانستان کے راستے سے پہلے بھی اور اب بھی دہشت گردی پاکستان امپورٹ ہو رہی ہے۔ جب طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے دوحا معاہدے میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ افغان حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر محض تماشا دیکھ رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور افغان طالبان کے درمیان چھڑنے والی جنگ نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس دوران پاکستان کے بارڈر کو سکیور نہیں کیا جا سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان سے لاکھوں افغانی پاکستان میں داخل ہوتے رہے اور قبائلی علاقوں میں آباد ہو گئے۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر پناہ فراہم کرتا رہا لیکن کوئی حکومت اس حوالے سے کوئی باقاعدہ پالیسی نہ بنا سکی۔ بدقسمتی سے ماضی کی حکومتیں ملکی سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہداف طے نہیں کر سکیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں مقیم غیر رجسٹرڈافغان مہاجرین دہشت گردی میں سہولت کاری کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکام کو اب یہ احساس ہوگیا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے مقیم غیرملکی کس طرح سے ہمارے امن اور معیشت کے درپے ہیں اور ان سے جان خلاصی ہی مسئلے کا حل ہے۔ اگر تمام غیرقانونی غیرملکیوں کا پاکستان سے صفایا کر دیا جاتا ہے تو نہ صرف ہماری معیشت توانا ہونا شروع ہو جائے گی بلکہ دہشت گردی کے ناسور پر بھی کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔