مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تیزی سے پیش قدمی کی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی بااثر سیاسی شخصیات کو نون لیگ کا حصّہ بنانے کے بعد انہوں نے سندھ کے پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں پیر پگاڑااورغلام مرتضٰے جتوئی کے ساتھ باقاعدہ انتخابی اتحاد کرلیا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے ساتھ بھی مذاکرات چل رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل جل کر الیکشن لڑنے کے اعلان کو غضب کی چال قراردیا جاتاہے۔ چند ہفتے پہلے تحریک طالبان پاکستان نے اعلان کیا کہ اگر نواز شریف ،مولانافضل الرحمان اورسیّدمنور حسن ضمانت دیں تو وہ حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرسکتے ہیں۔نوازشریف نے فوری طور پر اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے کا اعلان کیا ۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون پر کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط کے حوالے سے الزامات میں شدّت آرہی ہے۔سندھ اسمبلی نے مذمتی قرارداد پاس کی جبکہ وزیرداخلہ رحمن ملک نے پنجاب حکومت کو لشکر جھنگوی کا سرپرست کہااور سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ صوبائی حکومت کے خلاف سوموٹو ایکشن لے۔نون لیگ پر الزام ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت کے ساتھ گہرے مراسم رکھتی ہے اور دونوں جماعتیںآئندہ الیکشن میںمشترکہ امیدوار کھڑے کریں گی۔اہل سنت والجماعت کی اعلیٰ قیادت کالعدم تنظیموں کے سابق رہنمائوں اور حامیوں پر مشتمل ہے اور کئی ایک مقدمات میں مطلوب ملک اسحاق اس کے نائب صدر ہیں ۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ دونوں جماعتیں الیکشن میں ایک دوسرے کی حمایت کرتی ہیں یا نہیںلیکن وقتی طور پر مسلم لیگ نون کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے ۔وہ صفائیاں پیش کر رہی ہے لیکن بات بن نہیں رہی ۔ پانچ برس گزرگئے ‘مسلم لیگ نون اور بالخصوص پنجاب حکومت کی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس حکمتِ عملی دیکھنے میں نہیں آئی۔لشکر جھنگوی نے پنجاب کو مرکز بنا کر دوسرے صوبوں میں خطرناک کارروائیاں کیں لیکن اس کے رہنمائوں اور سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیاگیا۔کئی کالعدم تنظیموں کے کارکن اور درمیانے درجے کی قیادت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ نون لیگ کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔شریف برادران کا ذاتی جھکائو بریلوی مسلک کی جانب ہے‘جبکہ1999-1996ء کے دورہِ حکومت میں نون لیگ نے فرقہ پرست گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی تھیں۔ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں پنجاب حکومت شدّت پسندوں کے خلاف کماحقہ‘ بروئے کار نہ آئی۔ نون لیگ کی اعلیٰ سطحی قیادت کی طرف سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام پر فوری اور کھل کر مذمت اور بعدازاں وہاں جا کر متاثرین کے ساتھ اظہاریکجہتی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جاسکا۔شاہراہ قراقرم پر بس سے اتار کر بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔نوازشریف اس سانحہ پر اظہار افسوس کے لیے سکردو تشریف لے گئے لیکن شہیدوں کے لواحقین سے ملنے نہ جاسکے ۔ چند ایک پس ماندگان کو اپنے پاس بلا کر دعائے خیر کرلی ۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد نواز شریف پاکستان میں تیزی سے اعتدال پسند سیاسی رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔انہیں دائیں اور بائیں بازوکی روایتی تفریق کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف انقلابی رہنما تصور کیا جانے لگا تھا۔سندھی قوم پرست ‘بلوچ علیحدگی پسند اور دیگر محروم طبقات یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے تھے کہ نواز شریف پاکستان کو ایک جمہوری اور جدید ریاست میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مولانافضل الرحمن بظاہر فرقہ بندی اور انتہاپسندی کی بات نہیں کرتے‘ لیکن معاشرے کے جمہوریت نواز فعال طبقات ان کی طرز سیاست سے بیزار ہیں۔وہ محض اپنے جماعتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہر حکومت کا حصّہ رہے۔بدقسمتی سے ملک میں سرگرم انتہاپسندوں کے اکثر گروہوں کا تعلق ان کے مسلک سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن تمام تر کوششوںکے باوجودان عناصر کو قومی دھارے میں آنے اور پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے پر قائل نہیں کرسکے۔اب وہ نواز شریف کے ہمراہ طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرنے کا خطرہ مول رہے ہیں۔ فضل الرحمن نواز شریف کی آشیر باد سے طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کا ڈول ڈال کر اپنی سیاسی افادیت ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن نواز شریف کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں۔ ایک دوست عرب ملک کی حکمران اشرافیہ کے ساتھ نوازشریف کی قربت بھی کئی حلقوں کو پریشان رکھتی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ اگر وہ برسراقتدا ر آئے تو پاکستان میں عرب وعجم کی سردجنگ مزید گہری ہوجائے گی۔پہلے ہی دو برادر اسلامی ممالک کے مابین جاری فرقہ ورانہ بالادستی کی جنگ نے پاکستان کی سیاسی اورسماجی زندگی کو تاراج کررکھا ہے۔ان ملکوں میں مسلک کی بنیاد پر مسجد تک بنانے کی اجازت نہیں‘ جماعت کا تو تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل ہے۔عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا اس طرح کے مذاکراتی عمل کو شک وشبہ کی نظرسے دیکھتاہے۔دیگر علاقائی طاقتیں بالخصوص ایران اور افغانستان اس طرح کے اتحاد کے سخت خلاف ہیں۔بھارت بھی واویلا کرتاہے ۔نوازشریف کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی حمایت کے اعلان کی سفارتی پیچیدگیاں بھی ہیں‘جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ رائے عامہ کے کئی ایک جائزے یہ بتاتے ہیں کہ نون لیگ آئندہ انتخابات میں اکثریتی جماعت بن کر اُبھر سکتی ہے۔اس لیے نون لیگ کی پالیسیوں میں تسلسل اور سیاسی بلوغت ہونی چاہیے۔نوازشریف کو وقتی سیاسی مفادات کی خاطر پاکستان اور جماعت کے طویل المیعاد مفادات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔انتہاپسند وں سے خائف ہونے کے بجائے انہیں چیلنج کرنے سے زیادہ عوامی ہمدردیاں مل سکتی ہیں۔اس خوف کی بنیاد پر جماعتی پالیسیاں مرتب کرنا کہ کالعدم تنظیموں کو زیر نہیں کیا جاسکتالہٰذا ان ہی کی شرائط پر صلح کرلی جائے‘ ملک اور قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔شدت پسند گروہوں کی مقبولیت دیرپا نہیں ہوتی۔جب کوئی سیاسی یا مذہبی شخصیت ان کے خلاف ڈٹ کر میدان میں اترتی ہے توعوام اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد رائے عامہ اپنا کام خود کرتی ہے۔پنجاب اور خیبر پختون خوا کے لوگوں نے شدت پسندوں کے ہاتھوں بہت زخم اٹھائے ہیں۔وہ ایک ایسے رہنما کے منتظر ہیں جو ان عناصر کے نظریات کو چیلنج کرے ۔انہیں تنہا کرے۔پاکستان کو اس خوف سے نجات دلائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو جنہیں مخالفین طالبان خان کہتے تھے‘ طالبان نے مذاکرات کا ضامن نہیں بنایا۔علاوہ ازیں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں ہزارہ برادری کے قتل عام کی مذمت کی۔ جماعتی رہنمائوں کے ہمراہ کوئٹہ گئے اور ہزارہ برادری کے احتجاجی دھرنے میں شریک ہوئے۔ لشکرجھنگوی کا نام لے کر اس پر نکتہ چینی کی۔ان اقدامات نے عمران خان کاسیاسی قدکاٹھ اندرون اور بیرون ملک بڑھایا۔ وہ بتدریج اعتدال پسند جماعت کے رہنما کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں پاکستان کے روایتی سیاسی نظام کی کایا پلٹ گئی ہے۔ٹیکنالوجی کا جو انقلاب آیا ‘اس نے سیاست کو ہر گھر کا جزولاینفک بنادیا۔ نوجوان نسل کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے آگہی اور سیاسی شعور سے مالامال کردیا ۔معاشی خوشحالی نے بھی متوسطہ طبقہ پیدا کیا جو دوغلی اور موقع پرستی کی سیاست کو پسند نہیں کرتا۔یہ طبقات اعتدال پسند پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اور مسلم لیگ نون کو جماعتی پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے معاشرے کے ان طبقات کے جذبات واحساسات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ وہ متوازن حکمت عملی وضع کرسکیں۔انہیں شدت پسندوں کی حمایت کا تاثر زائل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔