"IMC" (space) message & send to 7575

افغان پالیسی میں تبدیلی کا اعلان

حالیہ چند برسوں میں پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں جوہری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں انتہاپسندی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ روایتی بھارت پالیسی میں تبدیلی کے بعد اسّی کی دہائی میں تشکیل پانے والی افغان پالیسی میں بھی اساسی تبدیلی واقع ہوئی۔ اگر چہ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی وقتاً فوقتاً دبے لفظوں میں اس تبدیلی کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن امریکا میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن نے ہارورڈ یونیورسٹی میں پاک امریکا تعلقات اور افغانستان کے حوالے سے تبدیل شدہ ترجیحات اور سیاسی حکمتِ عملی کے خدوخال بیان کیے۔ یہ تقریر حیرت انگیز طور پر جرأت مندانہ‘موثر اور جامع تھی۔ شیری رحمٰن نے کہا: ’’پاکستان سمجھ چکا ہے کہ افغانستان میں افغانوں کے علاوہ کوئی بھی بیرونی طاقت امن قائم نہیں کر سکتی۔ میں واشگاف الفاظ میں یہ دہراتی ہوں کہ پاکستان نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کا خیال ترک کر دیا ہے۔ پاکستان کی حکومت، فوج اور آئی ایس آئی سمیت تمام اداروں نے مشترکہ طور پر نئی افغان پالیسی تشکیل دی ہے۔ افغانستان کا کوئی گروہ ہمارا پسندیدہ نہیں۔ ہم افغانستان پر اپنی پسند کی حکومت مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ منتخب افغان حکومت کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ پاکستان کو احساس ہے کہ پاکستان میں قیامِ امن کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے۔ جب تک افغانستان میں امن و استحکام قائم نہیں ہوتا‘ پاکستان میں قیام امن کی مساعی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کا ذکر کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا: ’’پاکستان میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کہیں امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں قیام امن اور ترقی کے لیے کی جانے والی عالمی سرمایہ کاری ضائع نہ ہو جائے؟ پاکستان میں ابھی تک 1990ء کی یادیں تازہ ہیں جب امریکا جنگ کے خاتمے کے بعد اچانک خطے سے نکل گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں افغانستان مستقل بدامنی کا شکار ہو گیا۔ اُمید ہے کہ عالمی برادری ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھے گی‘‘۔ شیری رحمٰن کی یہ تقریر پاکستان کی افغان پالیسی میں آنے والی اساسی تبدیلی کی مظہر ہے۔ آج کے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ماضی کی فرسودہ اور ناکام حکمتِ عملیوں کو دفن کر کے نئے تقاضوں اور زمینی حقائق کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیا ہے۔ پاکستان پر بُنیادی اعتراض یہ ہے کہ وہ افغانستان کے اندر مخصوص نسلی اور لسانی گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔ افغانستان کو آزاد اور خودمختار مُلک نہیں سمجھتا‘ اپنے پچھواڑے (backyard) سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے چار نہیں پانچ صوبے ہیں‘ پانچواں صوبہ افغانستان ہے۔ معلوم نہیں کہ صحافت کے بزرجمہروں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ہونے والی حالیہ ملاقات میں شیری رحمٰن کی تقریر کے تناظر میں کوئی استفسار کیا یا نہیں۔ ابھی تک جو تبصرے اخبارات کی زینت بنے ہیں‘ اُن کے مطابق گفتگو کا محور زیادہ تر داخلی مسائل رہے۔ اچھا ہوتا‘ جنرل کیانی خود نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی یا دفاعی نقطہ نظر سے علامتی اہمیت کے حامل کسی فورم پر نئی افغان پالیسی پر گفتگو کرتے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ دُنیا پاکستانی سیاستدانوں اور سفارت کاروں کی باتوں پر یقین نہیں کرتی۔ حالیہ چند ماہ میں اس رُجحان میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ خود افغان حکام نے بھی پاکستانی طرزِ عمل کی تعریف کی۔ افغان وزیر دفاع بسم اللہ خان نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ جنرل کیانی سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ بعدازاں اُن کے ترجمان نے کہا: پاکستان کی افغان پالیسی اور رویّے میں نمایاں تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ جنرل کیانی نے گزشتہ برس دسمبر میں برسلز میں یورپی یونین ملٹری کمیٹی اور پولیٹیکل اور سکیورٹی کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے کہا تھا: ’’افغانستان میں امن عمل افغانوں کی قیادت میں اور اُن کا اپنا شروع کردہ ہونا چاہیے۔ پاکستان ایسے امن عمل کی حمایت کرتا ہے‘‘۔ حالیہ ہفتوں میں جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیرالاسلام کی صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں تُرکی اور لندن میں افغان ہم منصبوں سے ملاقاتیں ہوئیں‘ جہاں باہمی تعاون کو فروغ دینے اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطہ کی سلامتی کے اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار نہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں تمام ہمسایہ ممالک ایران، وسطی ایشائی ریاستیں، روس، بھارت اور چین اپنے اپنے مفادات کی خاطر مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کی مدد شروع کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں نہ صرف افغانستان کا امن و امان تباہ کر دیں گی بلکہ ان سے پورے خطے میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جنرل کیانی نے سات دسمبر کو راولپنڈی میں کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’افغانستان میں مفاہمتی عمل کی کامیابی ہماری بُنیادی ترجیحات میں سے ہے‘‘۔ اسی پس منظر میںکئی طالبان رہنمائوں کو رہا کیا گیا۔ قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے کی حمایت کی گئی۔ امریکا کی انخلا کے عمل میں مدد کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت طویل غور و فکر کے بعد اپنی افغان‘ بھارت اور داخلی سکیورٹی کے حوالے سے حکمتِ عملی میں مثبت تبدیلیاں لائے ہیں۔ ماضی کی پالیسیوں کے سبب پاکستان کی روح زخمی ہے اور اَنگ اَنگ سے لہو رس رہا ہے۔ پاکستان کے اندر استحکام اور امن قائم کرنے کے لیے وسیع البُنیاد علاقائی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں خطے کے تمام ممالک کو متفقہ طور پر افغانستان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے ایک پُرامن‘ جمہوری اور خوشحال ملک بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کو سرد جنگ کے بعد تلخ حقائق کا ادراک بڑی دیر سے ہوا۔ آج کی بین الاقوامی برادری میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں۔ دُنیا اقتصادی طور پر طاقت ور ممالک سے دوستی اور کاروبار کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان شمالی کوریا کی طرح ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ یہ دُنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جو تیل اور گیس کی رسد کی شہ رگ پر واقع ہیں جو علاقائی تجارت کے لیے خطے کی اہم راہداری بن سکتی ہے۔ ان امکانات کے باوجود پاکستان اور اس کے عوام بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ اِن امکانات سے اُسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب خطّے میں امن ہو۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوں اور ایک دوسرے پر معاشی انحصار ہو۔ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی امداد بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ جو امداد ملتی ہے‘ وہ بھی سخت شرائط کے ساتھ ‘ جن کی بھاری سیاسی قیمت چُکانا پڑتی ہے۔ عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کی جگہ اب ترقّی یافتہ اور تیزی سے ترقّی کی راہ پر گامزن ممالک ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ سرمایہ کاری بھی اُنہی ممالک میں آتی ہے‘ جہاں سیاسی فضا سازگار اور امن و امان کی حالت مثالی ہو۔ کئی ایک ماہرینِ معاشیات کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کے حالات معمول پر آ جائیں تو چند برسوں میں یہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے جس سے روزگار اور ترقّی کے نئے جہاں آباد ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی تزویراتی فکر میں تبدیلی آئی۔ اگر وہ موجودہ پالیسی پر ثابت قدم رہے تو اگلے چند برسوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ پُورا خطّہ امن و ترقّی کا گہوارہ بن جائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں