"IMC" (space) message & send to 7575

ناراض اور شکستہ دل کابل

کابل میں آج چوتھادن ہے۔ بلامبالغہ درجنوںسیاسی‘سماجی اور سول سوسائٹی کے نمایاں افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے پر کُھل کر نکتہ چینی بھی کرتے رہے‘سیاسی مخالفت بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ایک نکتے پر افغانوں میں اتفاق رائے پایا جاتاہے کہ پاکستان کے بارے میں کلمہ خیر نہیں کہنا۔لوگ پاکستانی پالیسیوں سے شاکی اور ناراض ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اپنی ناراضگی کا اظہار شائستگی سے اور کوئی بے باکی سے منہ پر بُرا بھلاکہہ دیتاہے۔ کابل میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے پایاجاتاہے کہ پاکستان شدّت پسندوں کی سرکاری سطح پر سرپرستی کرتا ہے اور انتہاپسندوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔کوئٹہ میں ملامحمد عمر کا گھر ہے۔پاکستان افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔ الزامات کی فہرست طویل اور یک طرفہ ہے۔ مثال کے طور پر کہاجاتا ہے کہ افغانستان کو تجارت کے لیے کراچی کی بندرگاہ کا آزادانہ استعمال نہیں کرنے دیاجاتا۔پاکستان بھارت اوروسطی ایشیائی ممالک کے مابین تجارت اور کاروبار کے راستہ میں دیوار بن کر کھڑاہے۔ وہ خطے کی تعمیر وترقی اور خوشحالی میں بڑی رکاوٹ ہے۔وہ افغانستان میں صرف پشتونوں کی مدد کرتاہے۔ باقی مذہبی‘ نسلی اور لسانی گروہوں کے خلاف بُغض رکھتاہے۔یہ طرزعمل افغانوں میں اتحاد واتفاق پیدا نہیں ہونے دیتا۔ یہ الزامات اور اعتراضات وہ ہیں جو اعلیٰ سرکاری عہدے داروں سے لے کر گلی محلے میں چلنے پھرنے والا عام افغان دہراتا ہے۔یہاں کوئی دوسرا نقطہ نظر سننے میں نہیں آتا۔ پاکستان کو برابھلا کہنا کابل میں فیشن ہے۔ جیسے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا‘ افغانستان بالخصوص کابل میڈیا کا شہر ہے۔سرِشام لوگ ٹی وی چینلز کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔پاکستان کے نجی چینل بھی شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔افغانستان پر چھپنے والے مضامین کو فارسی اور پشتو میںترجمہ کرکے شائع کیا جاتاہے۔ کچھ عرصے سے افغان میڈیا پر پاکستان کے ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران کو بھی بلایا جاتاہے۔ان کے ہمراہ افغان ماہرین بٹھا کر خُوب تماشالگایا جاتاہے۔دونوں ممالک کے مذہبی رہنمائوں کے مابین بھی ٹی وی پر مکالمہ ہوتا رہتا ہے۔ جنرل (ر) حمید گل کی طرح کی طالبان نواز شخصیات کے تبصروں کو غیر ضروری طور پر سنجیدگی سے لیا جاتاہے۔انہیں آئی ایس آئی کی آواز قراردیا جاتاہے؛ حالانکہ انہیں اس ادارے سے سبکدوش ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ چند ہفتے قبل لاہور کے مولانا طاہر اشرفی نے افغانستان میں خودکش حملے کو جائز قراردیا تو صدر حامد کرزئی تک نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔یہاں کے میڈیا میں کئی دن تک طاہر اشرفی کا بیان زیربحث رہا۔پاکستان میں کسی نے ان کے بیان کا نوٹس ہی نہیں لیا۔افغان رائے عامہ اس طرح کے بیانات کاگہرا اثر لیتی ہے۔ دوسری جانب کابل میں پاکستانی سفارت خانہ اپنے شہریوں کو منع کرتاہے کہ وہ شہرمیں فوٹوگراف لینے سے گریز کریں‘اُردو میں بات چیت نہ کریں‘شہر میں آزادانہ نہ گھومیں پھریں۔کئی پاکستانیوں کو پولیس نے پکڑا اور معمولی غلطیوں پر سزائیں دیں۔ کہا جاتاہے کہ کابل کی پولیس اور خفیہ ادارے پاکستانیوں سے بہت الرجک ہیں۔ان پر پاکستان مخالف عناصر اور جذبات کا غلبہ ہے۔وہ کابل کی سکیورٹی کو لاحق خطرات کا ذمہ دار پاکستانی علاقوں سے ہونے والی دراندازی کو قراردیتے ہیں۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر سے پوچھا ‘پاکستان کے خلاف اس قدر غصہ کیوں پایاجاتاہے؟اس نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر کہا :افغانستان میں جو بھی دھماکہ ہوتاہے اس کے ڈانڈے پاکستان سے جاملتے ہیں۔پاکستان سے کوئی خوشخبری نہیں آتی۔پاکستانیوں کی لاپروائی کے باعث ہزاروں افغان شہری مارے گئے مگر انہیں اپنی غلطی کااحساس ہی نہیں۔وہ آج بھی امید رکھتے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان تختِ کابل پر فائز ہوجائیں گے۔عام لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ آخر طالبان میں ایسی کیا کشش ہے کہ پاکستانی ان کی محبت میں مرے جارہے ہیں۔ ایک نوجوان سکالر نے سوال اٹھایا کہ طالبان پاکستان میں دھماکہ کرتے ہیں تو آپ فوجیوں اور جاں بحق ہونے والے شہریوں کو شہید قراردیتے ہیں‘ اسی طرح کا حملہ افغانستان میں ہوتاہے تو انہیں ہلاک قراردیا جاتاہے۔پاکستان کی ہر بات کا نوٹس لیا جاتاہے ۔کابل یونیورسٹی کے ایک استاد نے کہا کہ وہ چند ماہ قبل پشاور گئے‘ مساجد میں افغانستان میں جاری جہاد کی حمایت کی جاتی ہے ‘چندہ جمع ہوتا ہے۔اس نے حیرت سے پوچھا : افغان عوام نے دو مرتبہ ایک حکومت اور پارلیمنٹ کا انتخاب کیا‘ اس انتخاب کو پاکستان نے بھی شفافیت کا سرٹیفکیٹ دیا‘اس کے باوجود پاکستانی رائے عامہ حامد کزرئی کی حکومت کو پٹھو کیوں سمجھتی ہے؟اگر ہم امریکا کے دوست ہیں تو کیا ہُوا! کیا امریکا پاکستان کے فضائی مستقر اور راستے استعمال نہیںکرتا؟اگر افغانستان مفتوحہ علاقہ ہے تو پاکستان کیا ہے؟اس کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کو افغانوں کی منتخب حکومت کا احترام کرنا چاہیے‘اسی کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے اور باقی گروہوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کابل میں لوگوں کو پاکستان کی مشکلات اور استعداد کار کی کمیابی کا اندازہ ہی نہیں۔وہ ہماری کمزوریوں اور نااہلیوں کو بدنیتی قراردیتے ہیں۔انہیں یہ احساس نہیں کہ جو ملک خود دہشت گردی کا شکار ہے ‘وہ افغانستان کی کیامدد کرسکتاہے؟احمد شاہ مسعود کے بھائی ضیا مسعود سے گفتگو میں عرض کیا کہ افغانستان میں چالیس ممالک کی افواج اور اربوں ڈالر طالبان کا ناطقہ بند نہیں کرسکے تو ہم سے کیوں یہ توقع کی جاتی ہے؟پاکستان کی صلاحیت اور وسائل محدود ہیں۔ وہ اپنے دفاع پر سالانہ پانچ بلین ڈالر خرچ کرتاہے جبکہ امریکا محض دوہفتوں میں دو ارب ڈالر خرچ کرتاہے۔اس قدر محدود وسائل میں بڑی بڑی توقعات رکھنے سے ہی مسائل پیدا ہوتے اور مایوسی جنم لیتی ہے۔ جنگ کے باعث پاکستان کی اقتصادیات کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔ چالیس ہزارشہری مارے گئے‘ اس کے باوجود پاکستان کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتاہے۔ افغانوں کے پڑھے لکھے حلقوں میں کسی حد تک یہ احساس پایا جاتاہے کہ الزامات اور جوابی الزامات سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس فضا کو بدلنے کی ضرورت ہے۔کئی ملاقاتوں میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ حالیہ چند ماہ میں پاکستان کی افغان پالیسی میں آنے والی تبدیلی کو افغان کیسے دیکھتے ہیں۔سیاستدانوں ہی نہیں بلکہ باخبر صحافیوں اور سماجی رہنمائوں کو ادراک نہیں کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ڈاکٹر اشرف غنی افغانستان کے سابق وزیرخزانہ ہیں‘ ان کا کہنا تھا:تبدیلی صرف میٹھی میٹھی باتوں کی حدتک آئی ہے‘ حقیقی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ایک سوال کے جواب میں سابق افغان وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ نے کہا:پاکستان کوتجارت اور کاروبار کے ذریعے افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا چاہیے۔وہ کہتے ہیں : اسلام آبادطالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرسکتا تھا۔پاکستان بھارت ‘ایران اور چین کی طرح سرمایہ کاری کرتا۔ٹیلی کام اور انفراسٹرکچر سمیت درجنوں ایسے شعبے تھے جن میں پاکستان کو دوسروں پر سبقت حاصل ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے یہ گلہ کرنا شروع کردیا کہ بھارت کو کیوں موقع مل رہا ہے۔عبداللہ نے بتایا :بھارت کی افغانستان میں دو ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری ہے جبکہ پاکستان کی سرمایہ کاری 33.3کروڑ ڈالر سے زائد نہیں۔ ظاہر ہے اس طرح پاکستان کا اثر ونفو ذ کم ہوگا۔ اگلی نشست میں بات ہوگی کہ پاکستان افغانستان میں کیا کر رہا ہے۔ جس کی تشہیر کرکے افغانوں کو پاکستان کا مثبت چہرہ دکھایا جاسکتاتھا اور اب بھی دکھایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں