افغانستان کے سیاسی اور سماجی منظرنامے میں پاکستان کا مثبت کردار بتدریج نمودار ہونا شروع ہو چکا ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں کے برسراقتدار طبقہ میں پاکستان کے تئیں سخت اشتعال پایا جاتا تھا۔ اب صورت حال بدل رہی ہے۔ کرتے پروان کے علاقہ میں سفید رنگ کی وسیع و عریض عمارت میں پاکستانی سفارت خانہ منتقل ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں قائم سفارت خانوں میں کہیں بھی پاکستان کے پاس اتنی بڑی عمارت نہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ افغانستان میں قائم تمام غیرملکی سفارت خانوں کی عمارتوں سے بڑی اور رعب دار عمارت ہے۔ پاکستانی سفارت کاروں کو شدت سے احساس ہے کہ وہ ایک دشوار ملک میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں‘ جہاں ان کے لیے فضا زیادہ سازگار نہیں۔ تنائو اور مسلسل کشیدگی کے باوجود وہ پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ ابھارنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سفارت خانہ ہر روز بارہ سو کے قریب ویزے جاری کرتا ہے۔ اکثر چوبیس گھنٹے میں ویزا جاری کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر افغان کاروبار‘ تعلیم اور علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ حالیہ ایک ڈیڑھ برس میں پاکستان نے اپنی افغان پالیسی نمایاں طور پر تبدیل کی ہے تاکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار ہونے سے بچایا جا سکے۔ امریکا میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ یا ناپسندیدہ گروہ نہیں۔ اسلام آباد وہاں کی منتخب حکومت کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے‘ کسی ایک گروہ یا جماعت کے ساتھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا خواب ترک کر چکا ہے‘ پاکستان امریکی افواج کے انخلا میں ہر ممکن تعاون کرے گا اور مابعد افغانستان میں امن و امان کے قیام میں مدد بھی دے گا۔ بقول شیری رحمان یہ پالیسی صرف حکومت کی نہیں بلکہ فوج اور آئی ایس آئی بھی اس سے پوری طرح متفق ہیں۔ مصالحتی جرگے کے ایک سرکردہ رکن نے پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ بات چیت کے دوران پاکستان کی بدلتی ہوئی پالیسی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ’پاکستان نے مصالحتی جرگہ کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی درخواست پر چھبیس طالبان کو رہا کیا لیکن انہیں افغان حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے آزاد چھوڑ دیا گیا۔ اب وہ پاکستان میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ چند ایک کے ساتھ مصالحتی جرگہ کا رابطہ ہے‘ باقی لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کا موقف تھا کہ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا معاہدے نہیں‘ اس لیے وہ طالبان قیدیوں کو افغان حکومت کے حوالے نہیں کر سکتا‘۔ افغانوں کی ایک بڑی تعداد کی خواہش ہے کہ پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں مخلص ہو کر ان کی مددکرے۔ افغانوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو سلامتی کے تناظر کے بجائے کاروبار اور تجارت کے پس منظر میں دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ طالبان کے زمانے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین پچیس ملین ڈالر کی تجارت تھی جو اب دو ارب ڈالر کی حد عبور کر چکی ہے۔ غیررسمی تجارت کو شامل کر لیا جائے تو یہ چھ ارب ڈالر کے ہندسے کو چھوتی نظر آتی ہے۔ اس وقت افغانستان کی تعمیرنو کے منصوبوں میں ساٹھ سے ستر ہزار کے لگ بھگ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں روزانہ ہزاروں پاکستانی اور افغان کاروبار اور تجارت کی غرض سے سرحد عبور کرتے ہیں۔ افغانستان میں حالات معمول پر ہوں تو پاکستان کی تجارتی سرحدیں وسطی ایشیائی ریاستوں‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان تک پھیل سکتی ہیں۔ پاکستان سے صبح چلنے والا ٹرک سرِشام ان ممالک کی سرحدوں میں داخل ہو سکتا ہے۔ اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل نوجوانوں کے ایک گروہ سے ملاقات میں بڑی دلچسپ باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا: ’’ہماری پاکستان کے بارے میں یادیں خوشگوار نہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ وہ مہاجر ہو کر پاکستان گئے تو لوگوں نے ان کی بڑی مدد کی۔ ہمارا تجربہ مختلف ہے۔ ہم نے صرف بم پھٹتے اور لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان‘ سماجی رہنما اور سول سوسائٹی کے لوگ افغانستان آتے ہی نہیں‘‘۔ بی بی سی پشتو کے ساتھ کام کرنے والے ایک نوجوان نے گلہ کیا: ’دنیا بھر کے صحافی افغانستان آئے‘ نہیں آئے تو پاکستانی نہیں آئے۔ ہم کس طرح پاکستان کے خلوص پر یقین کریں؟ عمران خان جیسا آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ شخص بھی منتخب اور جمہوری حکومت کے بجائے طالبان کی وکالت کرتا ہے‘۔ کابل کے لوگ قصباتی افغانوں سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں تاریخی طور پر تاجکوں‘ اُزبکوں اور ہزارہ کی اجارہ داری رہی۔ وہ دری زبان بولتے ہیں جو ایرانی فارسی کی ہی ایک شکل ہے۔ ہزارہ برادری افغانستان کی محض دس فیصد ہے لیکن جدید تعلیم یافتہ۔ لڑائی جھگڑے سے دور رہی‘ لہٰذا پڑھ لکھ گئی۔ اب کابل میں اہم عہدوں پر ہزارہ فائز نظر آتے ہیں۔ پشتون مسلسل برسر جنگ رہے لہٰذا وہ تعلیم‘ ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں کوسوں پیچھے رہ گئے۔ پشتون نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انہیں بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے۔ کابل کے لوگ عام افغانوں کی طرح نہیں سوچتے بلکہ ان کا ویژن بہت وسیع ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہے۔ چین‘ بھارت اور ترکی کی شرح ترقی دیکھتے ہوئے یہ اندزاہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ممالک دنیا کا مستقبل ہیں۔ افغانستان اور پاکستان ان ممالک سے مربوط ہیں۔ اگر مشترکہ کوشش کی جائے تو دونوں ممالک ان کی ترقی کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں پر 333 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ دو ہزار افغانوں کو تعلیمی وظائف دیے گئے۔ چھ ہزار اپنے خرچ پر پاکستانی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پانچ لاکھ مہاجرین کے بچے مختلف تعلیمی اداروں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے کابل یونیورسٹی میں فیکلٹی آف Humanities تعمیر کی۔ نگرہار یونیورسٹی اور بلخ یونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات کی تعمیر میں مدد دی۔ کابل اور نگرہار یونیورسٹی کے لیے دس بسیں فراہم کیں۔ کابل شہر میں چار سو بستروں پر مشتمل جناح ہسپتال بنایا۔ طورخم سے جلال آباد تک شاندار سڑک بنا کر دی۔ چمن اور قندھار کے مابین ریل لنک تعمیر کیا۔ سکولوں کی کتابیں‘ بیگ اور کمپیوٹر بھی فراہم کیے۔ بدقسمتی سے ان کاموں کی مناسب تشہیر نہ کی جا سکی۔ جغرافیائی قربت کے باوجود دونوں ممالک سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہیں‘ جس کی وجہ سے گزشتہ بارہ برس میں جوان ہونے والی نسل پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ یہ صورت حال بدل سکتی ہے اگر پاکستان افغانستان میں سیاسی جماعتوں اور ابھرتی ہوئی سول سوسائٹی کے ساتھ کام کرے۔ طالبان یا شدت پسند گروہوں کے بارے لچک دار طرز عمل ترک کر دے۔ دونوں ممالک کے مابین عوامی روابط کے فروغ کی کوشش کرے۔ علمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں کے ساتھ اشتراک کرے۔ پاکستان کا امیج بہتر بنانے کی خاطر صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں میں آسانی کے ساتھ اثر و رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ صرف پندرہ بڑے اخبار اور ٹی وی چینل افغان صحافیوں کو کابل میں اپنا نمائندہ مقرر کر دیں تو وہ بتدریخ افغانستان کی اصل صورت حال سے پاکستانیوں کو آگاہ کر سکیں گے اور رفتہ رفتہ افغان میڈیا میں بھی پاکستان کی مثبت تشہیر ہونا شروع ہو جائے گی۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا سے پہلے ہی پاکستان کو جنگی بنیادوں پر افغان حکومت کے ساتھ مل کر خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کرنا ہو گا تاکہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران حاصل کی گئی کامیابیاں ضائع نہ ہوں۔ 2014ء میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا افغان حکومت اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی یا طالبان کابل پر قبضہ کر لیں گے؟ اس بارے میں اگلی نشست میں اظہار خیال کروں گا۔