"IMC" (space) message & send to 7575

معرکہ ٔلاہور

عمران خان کی طرح تحریکِ انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی لاہور کے جلسے کو ون ڈے کرکٹ میچ کی طرح کھیلا اور جیتا۔ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام تنظیمی صلاحیتیں اور وسائل صرف کیے گئے۔ گھوم پھر کر دیکھا اور سٹیج سے بھی جلسے کا منظر ملاحظہ کیا۔ بلامبالغہ تاحدِ نگاہ لوگوں کی بھیڑ تھی‘ جوش و جذبے سے سرشار۔ زندگی میں تبدیلی کے لیے پُرعزم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی جلسے میں نہیں دیکھی۔ ایسا نظر آتا ہے کہ تبدیلی کے لیے صرف متوسط طبقہ ہی بے قرار نہیں بلکہ ہر نسل کے لوگ موجودہ نظام سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ جلسے میں تارکینِ وطن کی شرکت دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اس جلسے سے عمران خان کی سیاسی منظرنامے پر بھرپور واپسی ہو گئی ہے۔ تنظیمی سرگرمیوں میں مصروفیت کے باعث وہ گزشتہ ایک برس سے قومی سیاسی منظرنامے سے غائب تھے۔ مینارِ پاکستان کے سائے تلے اتنا بڑا جلسہ کر کے عمران خان نے دوسری جماعتوں کے لیے زبردست چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب اُنہیں اس سے بڑا جلسہ کرنا ہو گا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ لاہور میں اُن کی مقبولیت تحریکِ انصاف سے زیادہ ہے۔ تحریکِ انصاف پورا زور لگا رہی ہے کہ نون لیگ کے قلعہ میں گہرا شگاف ڈالا جائے۔ اگر لاہور میں نون لیگ کے ہاتھوں سے آدھی نشستیں بھی نکل گئیں‘ جو کہ نکل سکتی ہیں‘ تو وہ پورے ملک میں بُری طرح کمزور ہو جائے گی۔ لاہور کا متوسّط طبقہ‘ بالخصوص پڑھا لکھا نوجوان‘ بھی اسی طرح مایوس اور دل گرفتہ ہے‘ جس طرح باقی ملک کا۔ موجودہ نظام سے بیزار اور لاتعلق۔ تحریکِ انصاف نے پارٹی انتخابات کرا کے سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کی ایک نئی کھیپ تیار کر لی ہے۔ عرصے سے عام لوگ سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ چکے تھے۔ وہ سیاست کو اشرافیہ کا کاروبار قرار دے کر لاتعلقی کی زندگی گزارتے تھے۔ افلاطون کا قول ہے: سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہے کہ تم سے کم تر لوگ اُٹھ کر تم پر راج کریں گے۔ یہی حال آج کے پاکستان کا ہے۔ ملک کے ذہین اور قابل لوگ کاروبار اور ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جن سے کچھ بن نہیں پڑتا وہ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں تاکہ مناسب روزگار حاصل کر سکیں۔ حالیہ برسوں میں درجنوں نوجوانوں سے پوچھا کہ وہ ملازمت کے بجائے سیاست میں کیوں نہیں آتے۔ اچھے بھلے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا جواب ہوتا کہ اُن کے پاس سیاست کے لیے وسائل کہاں ہیں؟ نہ ہی ان کے باپ دادا جاگیردار یا سرمایہ دار تھے لہٰذا وہ سیاست میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ اہلِ ثروت کی جوتیاں سیدھی کرنے کا فائدہ کیا؟ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اچھے اور قابل لوگ ہمارے ہاتھ نہیں لگتے۔ ہم معاشرے کے بچے کھچے(left over) کباڑ سے سیاست کرتے ہیں۔ اُنہیں ہماری بات سمجھ آتی ہے اور نہ ہی وہ کوئی سوال پوچھتے ہیں۔ تحریکِ انصاف نے اس جمود کو کامیابی کے ساتھ توڑا ہے۔ اَسّی ہزار لوگوں کو فعال سیاست میں لانا ایک غیرمعمولی اقدام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کروڑ افراد نے تحریکِ انصاف کی رکنیت کا فارم بھرا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کروڑ لوگوں نے سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر رابطہ عوام مہم چلانے اور لوگوں کو ایک سیاسی جماعت‘ ایک رہنما اور اس کے منشور کی طرف متوجہ کرنا پاکستان کی بڑی خدمت ہے۔ یہ لوگ سیاست میں نئی روایات قائم کر سکتے ہیں۔ دوسری جماعتوں کے لیے بھی مثال قائم کر سکتے ہیں‘ اگر وہ سیاست میں موجود رہے۔ پیپلز پارٹی نے کسی حد تک کارکنوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔ پی پی پی میں جاگیردار اور سرمایہ دار بھی ہیں لیکن عام کارکن بھی کوئی نہ کوئی مقام حاصل کر لیتا ہے۔ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ مہدی شاہ عام سیاسی کارکن ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چودھری مجید ایک جونیئر پولیس افسر کے فرزند ہیں۔ اس کے باوجود اُنہیں پی پی نے اعلیٰ عہدے دیئے۔ اس کے برعکس اکثر سیاسی رہنمائوں نے اپنے رشتہ داروں یا پھر دوستوں کو جماعتوں پر مسلّط کر لیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے سیاست میں کوئی جگہ ہے نہ کوئی مقام۔ اب تحریکِ انصاف عام کارکنوں اور بالخصوص نوجوانوں اور عورتوں کو سامنے لائی ہے۔ اُمید ہے کہ اس اقدام کے دوسری جماعتوں کے سیاسی کلچر پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست اتنی کامیاب نہ ہوتی اگر گزشتہ پانچ برسوں میں وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومتیں ٹھیک کام کرتیں۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی ناکامی نے عمران خان کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا۔ وہ جو نعرے اور دعوے لے کر میدان میں نکلے ہیں وہ متاثر کُن اور لوگوں کے دلوں کی آواز ہیں۔ چونکہ عمران خان کسی حکومت کا حصہ نہیں رہے لہٰذا لوگ ان پر زیادہ آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔ جلسے میں پشتون نوجوانوں کی بھاری تعداد دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اُنہیں عمران خان کی صورت میں قومی سطح کا ایک نیا رہنما مل گیا ہے‘ جو اُنہیں شدت پسندی اور انتہا پسند مولویوں سے دور لے جا سکتا ہے۔ اسفند یار ولی بھی پشتونوں کے رہنما ہیں لیکن اُنہیں ملک گیر پزیرائی حاصل نہیں۔ عمران خان کو انوکھی برتری حاصل ہے۔ وہ لاہور میں پیدا اور جوان ہوئے۔ ان کے باپ دادا کا تعلق میانوالی سے ہے۔ وہ پشتون ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ان کا خاندان شیر شاہ سوری کے ساتھ افغانستان سے ہجرت کر کے پنجاب آیا۔ وہ پشتون نژاد پنجابی ہیں۔ عمران خان کی شخصیت کی یہی کشش ہے جو ہزاروں پشتون نوجوانوں کو جلسے میں لے آئی۔ قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن اور خیبر پختون خوا میں پائی جانے والی بدامنی کی وجہ سے لاکھوں پشتون پنجاب اور کراچی کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ بھی اپنا حصہ ڈالیںگے۔ اگر انہوں نے عمران خان کا ساتھ دیا تو تحریکِ انصاف ملک گیر سطح پر مضبوط سیاسی قوت بن جائے گی۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی میں خیبر پختون خوا کی حد تک انتخابی اتحاد کی بات بھی حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ دونوں جماعتیں بڑی آسانی کے ساتھ خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ جماعت اسلامی کی اس صوبے کے کئی علاقوں میں زبردست حمایت پائی جاتی ہے۔ باقی صوبوں میں بھی ان کے حامیوں کی معقول تعداد موجود ہے۔ اگر جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف مل جاتے ہیں تو خیبر پختون خوا میں ایک بڑی قوت بن کر اُبھر سکتے ہیں۔ پنجاب میں بھی وہ موثر سیاسی قوت کے طور پر اُبھر سکتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی بھی گزشتہ پانچ برسوں سے سیاسی منظرنامے کی پچھلی نشستوں پر بیٹھی ہے۔ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اب جماعتِ اسلامی کو اپنی پوزیشن کی بحالی کے لیے بڑے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ پی ٹی آئی کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ نون اور فضل الرحمٰن کے ساتھ وقتی اتحاد ممکن نہیں کیونکہ ان جماعتوں کے ساتھ جماعتِ اسلامی کے سُر نہیں ملتے۔ ماضی کی تلخ یادیں بھی مسلسل ستاتی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں