"IMC" (space) message & send to 7575

مخلوط حکومتوں کا عہد

وہ زمانہ لد گیا جب ایک ہی جماعت اسلام آباد اور صوبوں میں حکومت کیاکرتی تھی۔اب بھارت کی طرح پاکستان میں بھی مخلوط حکومتوں کا دور آچکا ہے۔متحارب اور متضاد نظریات اور خیالات کی علمبردار جماعتوں اور شخصیات کو ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کرنا پڑتاہے۔اس کی تازہ ترین مثال نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی ہے۔نجم سیٹھی ایک زمانے میں مسلم لیگ نون کے زیر عتاب رہے۔انہیں جیل میں ڈالا گیا۔ اسٹبلشمنٹ انہیں پاکستان کا دشمن‘ بائیں بازو کے اخبار نویس اور سیاستدان انہیں امریکا اور بھارت نواز قراردیتے ۔آج ملک کی دونوں بڑی جماعتوں نے انہیں نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کو بھی مسلم لیگی پسند نہیں کرتے لیکن اب صدر آصف علی زرداری کی طرح وہ بھی ان پر بے پناہ اعتماد کرتے ہیں۔ منقسم انتخابی نتائج کا خوف تمام جماعتوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ نشستوں کا حصول تمام سیاسی جماعتوں کا مطمح نظر ہے۔ میاں محمد نوازشریف نے مانسہرہ کے جلسے میں عوام سے اپیل کی کہ وہ کسی ایک جماعت کو ووٹ دیں تاکہ وہ اکثریت حاصل کرسکے۔ انہیںخطرہ ہے کہ منقسم انتخابی نتائج کے باعث وفاق اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں بنانا پڑیں گی۔اس خطرہ کو کم کرنے کے لیے انہوں نے تیزی سے بااثر سیاسی امیدواروں کو مسلم لیگ نون میں شامل کیاحتیٰ کہ پرویز مشرف کی لگ بھگ پوری ٹیم ان کی جماعت کی اگلی صفوں میں براجمان ہوگئی۔ مشرف دور کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم بھی نون لیگ کے اتحادی بن چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نون لیگ کا اتحاد آخری مراحل میں ہے۔ چودھری نثار علی خان کا بس چلتاتو مولانا فضل الرحمن کو نوازشریف کے قریب پھٹکنے نہ دیتے لیکن مولانا کو اپنا راستہ نکالنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام اور نون لیگ کا اتحاد ہوگیا تو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میںدونوں جماعتیں بڑی انتخابی قوت بن سکتی ہیں۔البتہ طالبان مخالف اور اعتدال پسند پاکستانیوں اور غیر سنی مسلمانوں کو یہ اتحاد پسند نہیں آئے گا کیونکہ فضل الرحمن کو وہ طالبان اور شدت پسند قوتوں کا سیاسی چہرہ (public face) قراردیتے ہیںاور اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا دعو یٰ ہے کہ وہ 31مارچ کو مینار پاکستان کے سائے تلے عمران خان سے بڑا جلسہ کریں گے‘ جس میں بے پردہ عورتیں اورآوارہ لڑکے نہیں ہوں گے۔ معلوم نہیں مولانا فضل الرحمن عورتوں اور نوجوانوں سے شاکی کیوںہیں۔ علامہ اقبال تک نے کہا ہے :وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔ جہاں تک لڑکوں کاتعلق ہے ‘مدارس کی رونق انہی سے ہے۔عورتوں اور نوجوانوں کے خلاف عناد مولاناکو مہنگا پڑسکتاہے۔تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے قائد اعظم کے ہاتھ مضبوط کیے۔گھر گھر جاکر ووٹ مانگے اور عوام کو متحرک کیا۔ انتخابات میں عورتوں اور نوجوانوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوں گے۔ وہ جس بھی جماعت کو ووٹ دیں گے کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ انتخابی مہم میں نوجوانوں اور عورتوں بارے احتیاط سے بات کی جانی چاہیے۔ جماعت اسلامی موجود سیاسی فضا میں غیر متعلق ہوتی نظر آرہی ہے۔گزشتہ پانچ برس کے تجربے سے جماعت بخوبی سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کے بنا کسی بھی سیاسی اکائی کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔پارلیمنٹ میں معقول نشستیں حاصل کرنے کے لیے اسے کسی بڑی جماعت کے سہارے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں وہ بمشکل چند ایک نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک ایسا صفر ہے جو تنہا ہو تو صفر ہی رہتاہے مگر دس کے ساتھ لگ جائے تو اسے سو بنا سکتاہے۔جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت زبردست مخمصہ کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ مسلم لیگ نون کے ساتھ پنجاب میں اتحاد کرنا چاہتی ہے جبکہ خیبرپختون خوا اور کراچی میں تحریک انصاف کے ساتھ تاکہ پارلیمنٹ میں قابل ذکر نمائندگی حاصل کرسکے۔ تحریک انصاف لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد سخت گیر سودا باز بن چکی ہے۔عمران خان‘ نون لیگ کے ساتھ کسی بھی قسم کے اتحاد یا مفاہمت کے خلاف ہیں۔ وہ نون لیگ اور جماعت اسلامی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو پسند نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی کے اندرونی حلقوں کے مطابق انہیں صرف تحریک انصاف سے اتحاد کے نتیجے میں کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ انتخابی حلقوں میں وہ اس قدر طاقت ور نہیں جتنی کہ میڈیا میں نظر آتی ہے۔جماعت اسلامی کی اس دلیل میں کافی وزن ہے۔تحریک انصاف کو انتخابی حلقوں کی سیاست کا زیادہ ادراک نہیں۔لوگوں کی اکثریت قومی ایشوز اور مسائل پر ووٹ نہیں دیتی بلکہ برادریاں‘فرقے اور لسانی حوالے انتخابی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ انتخابی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں: عوامی پذیرائی کی لہر دس فیصد سے زیادہ ووٹروں کو متاثر نہیں کرتی ۔عمران خان کی حمایت ملک گیر سطح پر موجود ہے لیکن اسے انتخابی حلقوں میں اپنے امیدواروں کے حق میں بدلناایک دیو ہیکل چیلنج ہے۔اگر عمران خان مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں تو وہ پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔دوسری صورت میں و ہ سیاسی منظر نامے میں تنہا رہ جائیں گے اورتمام جماعتیں اور گروہ ان کو ہدف بنالیں گے۔ جماعت اسلامی کو بھی موجودہ کیفیت سے جلد نکلناہوگا کیونکہ انتخابات میں چھ ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ دوسری جانب قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کی بھی خواہش نظر آتی ہے کہ کسی ایک جماعت کو مینڈیٹ نہ ملے۔وہ جانتے ہیں کہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں ایک کمزور حکومت وجود میں آئے گی جو خارجہ پالیسی ‘دفاعی معاملات اور شدت پسندی کے حوالے سے موجودہ پالیسیوں کو چیلنج نہیں کرسکے گی۔کچھ اس طرح کا منظر نامہ تشکیل پاتا نظر آتاہے ۔سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ‘پنجاب میں نون لیگ ‘خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جبکہ بلوچستان میں کسی ایک جماعت کے اکثریت حاصل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔وہاں جمعیت العلمائے اسلام سمیت کئی ایک جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت تشکیل پاسکتی ہے۔اگرانتخابی نتائج موجودہ جائزوں کے مطابق نکلے تو لگ بھگ ساری ہی جماعتیں ایک جگہ حکومت میں ہوں گی تو دوسرے مقام پر اپوزیشن میں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نظام کو برقرار رکھنے میں سب کی دلچسپی ہوگی ۔ نون لیگ اگر اسلام آباد میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے دوسری جماعتوں کو شریک اقتدار کرنا پڑے گا۔شریف برداران کا مخلوط حکومت چلانے کا تجربہ اور مزاج نہیں۔سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنے کے بعد ان کے مزاج میںبلاشرکت غیرے حکومت کر نے کی خواہش مزید پختہ ہوچکی ہے۔جہاں صرف ایک فرد کا حکم چلتاہو۔پنجاب میں شہباز شریف نے بیس بیس وزراتیں اور محکمے اپنے پاس رکھے کیونکہ وہ ارتکاز اقتدار پر یقین رکھتے ہیں۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے ۔نون لیگ اس وقت تک کوئی بھی قانون سازی نہیں کرسکتی جب تک پیپلزپارٹی اس کا ساتھ نہ دے۔ اسٹبلشمنٹ سے قریبی رابطہ رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جو نظام تشکیل پانے جارہاہے وہ ایک برس تک بھی نہیں چل سکتاہے۔ مجبوراًتین برس کے لیے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت قائم کرنا پڑے گی۔اس وقت تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی ریٹائر ہوچکے ہوں اور سپریم کورٹ سے ایسی حکومت کے لیے مینڈیٹ حاصل کرنا نسبتاً آسان ہوجائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں