بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف وطن واپس آچکے ہیں بلکہ انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ وہ سیاسی عمل ‘جمہوری جدوجہداور پاکستان کے دستور کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کے عزم کا برملا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں : انتخابات میں کامیابی ملی تو پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھائیں گے۔ہماری جماعت جمہوری اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے ایک پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کیا ہے جو جماعت کے منشور کی تیاری کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں سے انتخابی اتحاد کے حوالے سے رابطے کرے گی۔ جن دگرگوں حالات سے بلوچستان گزررہاہے ان میں اختر مینگل کی واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بڑی حوصلہ افزاء خبر ہے۔انہوں نے اپنی جماعت کی سرگرمیوںکا قبلہ بھی ازسرِ نومتعین کرکے حیرت انگیز جرأت کا مظاہر ہ کیاہے ۔اختر مینگل نے براہِ راست علیحدگی پسندوںاور پُرتشددکارروائیوں میں شریک عناصر کی مذمت سے گریز کیا لیکن واضح طور پر ان سے اپنا راستہ جدا کردیا جو پُرامن سیاسی جدوجہد اور دستورِ پاکستان کوتسلیم نہیں کرتے۔اختر مینگل کے طرزِسیاست کو سخت گیر علیحدگی پسندوں نے پسند نہیں کیا۔وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے عمل کو بلوچ کاز سے دھوکہ دہی سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسے افراد کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں اور جارحانہ رویے نے بلوچستان میں وفاق کے حامی طبقات کے لیے سیاست دشوار بنادی تھی۔رائے عامہ بالخصوص بلوچ نوجوان قومی دھارے میں شامل جماعتوں کو بلوچوں کا دشمن اور پنجاب کا ایجنٹ قراردیتے ہیں۔عوامی ناراضگی کے پیش نظر 2008ء کے انتخابات میں اختر مینگل سمیت کئی اور بلوچ سیاستدانوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا غم تازہ تھا۔ اسلام آباد کے تخت پرپرویز مشرف براجماں تھے اورانہی کے زیرِسایہ انتخابات ہورہے تھے۔ان کی موجودگی میں غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ بلوچ جذبات اور سیاسی فکر کی نمائندگی کرنے والی شخصیات اور جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا اور نظام سے باہر ہوگئیں۔ نواب اسلم رئیسائی جیسامزاحیہ کردارپانچ برس تک چٹکلے بازی کرکے بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتا رہااور پورے ملک میں غیرت مند بلوچوں کے لیے باعثِ ندامت بنا رہا۔ اب اختر مینگل واپس آچکے ہیں تو ان کے راستہ کے کانٹے چُننے کی کوشش کی جانی چاہیے۔بلوچستان میں آزادانہ بحث ومباحثے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ علیحدگی پسندوں اور پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کے مابین کھل کر گفتگو ہو۔ایک دفعہ مکالمے کی فضا پیدا ہوگئی تومظلومیت کا رونا بے معنی ہوجائے گا۔ لوگ روایتی نظریاتی سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا شروع ہوجائیں گے۔دوست اور دشمن کی نئی تعریفیں وجود میں آئیں گی۔پاکستان مخالف سیاسی سوچ کو فکری اور نظریاتی سطح پر چیلنج کیا جانے لگے گا۔ رچی بسی سوچ کو بدلنا کوئی آسان ہد ف نہیں بالخصوص ان علاقوں میں جہاں سرکار اور غیر ریاستی گروہوں کے مابین تصادم رہاہو۔تصادم کے ماحول کو دوستی اور مفاہمت میں بدلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت تک کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے جب تک بلوچوں کو انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاتی ۔ماضی کی غلطیوں کا اعتراف اور تصادم میں مارے جانے والے افراد کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔زیادتیوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے مرتکب افراد‘ خواہ ان کا تعلق پولیس سے ہو یا فرنٹیئر کانسٹبلری سے‘ کامحاسبہ نہیں کیا جاتا اور قوم پرستوں اور صوبے میں آباد پشتونوں اور دیگر طبقات کے درمیان بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا ۔ ناراض بلوچ جو علیحدگی کی بات کرتے ہیں انہیں اختر مینگل کی طرح کے منتخب لوگ زیادہ بہتر طریقے سے قائل کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے سیاسی جدوجہد کریں۔ بلوچ قوم پرست پُرامن سیاسی جدوجہد سے لگ بھگ ناآشنا ہیں۔وہاں موجود ریاستی اداروں کا انفراسڑکچر بھی پُرامن سیاسی جدوجہد اور پرتشدد کارروائیوں میں زیادہ فرق نہیں کرتا۔تمام بلوچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتاہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر سیاسی اور پُرامن مزاحمت کا مطلب ناانصافی اور ریاستی جبر کے سامنے ہتھیار ڈالنا نہیں بلکہ یہ ایک طرزِسیاست ہے‘ جو بغیر کسی جانی اور مالی نقصان کے ریاستی اداروں کی اخلاقی حیثیت کو پارہ پارہ کردیتا ہے حتیٰ کہ ان کی اپنی صفوںسے مظلوموںکی حمایت میں صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اختر مینگل نے ہوا کے رُخ کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔وہ چار برس تک بیرونِ ملک رہے۔اس دوران بلوچستان میں پاکستان کی مخالفت اور وفاق پر یقین رکھنے والے سیاستدان اور شخصیات معاشرے میں ناقابلِ قبول بنا دیئے گئے۔جو لوگ اس سوچ کوچیلنج کرتے ہیں انہیں پہلے ہی مرحلے میں غدار قراردے کر غیر موثر کردیا جاتاہے۔ مسلح گروہ ان کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔اس وقت پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی یہ چیلنج درپیش ہے کہ طالبان یا ان کے حامی انہیں آزادی سے الیکشن مہم نہیں چلانے دے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے نوازشریف کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر کل جماعتی کانفرنس منعقد کرڈالی‘جس کا انہیں تو فائدہ ہوگا لیکن باقی جماعتیں کیسے مہم چلائیں؟اختر مینگل کو بھی بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر قوم پرستوں کی طرف سے سخت خطرات لاحق ہوں گے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حفاظت کا اہتمام کرے لیکن بدلے میں ان سے کچھ نہ مانگے ۔انہیں اپنے طریقے سے سیاست کرنے دے۔ میاں محمد نواز شریف کو دوسرے پاکستانی رہنمائوں کے برعکس یہ برتری حاصل ہے کہ ان پر بلوچستان اور سندھ کے قوم پرست سیاستد ان اعتماد کرتے ہیں۔وہ بلوچوں کے زخموں پر پھاہا رکھ سکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ مخالف کردار کی بدولت قوم پرستوں میں کافی مقبول ہیں ۔ اب اسٹبلشمنٹ کے سارے کے سارے پروردہ نون لیگ کی جھولی میں تشریف فرما ہیں۔اس کے باوجود نواز شریف کو بلوچ قوم پرست جماعتوں کی الیکشن پراسیس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ انہیں احساس رہے کہ پنجاب کی طاقت ور سیاسی قوت ا ن کے ساتھ کھڑی ہے۔وہ انہیں ایف سی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑے گی ۔علاوہ ازیں بلوچوں کے ساتھ میرظفراللہ خان جمالی یا میر ہزار خان کھوسو جیسے بزرگوں کو وزیراعظم بنانے کا مذاق ختم ہونا چاہیے۔اگر بلوچستان کی اتنی ہی فکر ہے تو وہاں کے ایسے رہنمائوں کو سامنے لایاجائے جن کی عام شہریوں او ربالخصو ص متحارب نوجوانوں میںکوئی ساکھ ہو۔ میر ہزار خان کھوسو کی پریس کانفرنس سن کر سمجھ نہیں آئی کہ صدر زرداری نے انہیں پی پی کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے کیوں نامزد کیا؟