"IMC" (space) message & send to 7575

سربجیت سنگھ کا انجام

پاکستان میں جاسوسی اور بم دھماکوں میں سزا یافتہ بھارتی شہری سربجیت سنگھ کی موت پر بھارت میں کہرام مچ گیا۔حکمران کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی تعزیت کے لیے اس کے گھر گئے۔بھارتی پارلیمنٹ میں غالباًپہلی بار پاکستان مردہ باد کے نعرے گونجے اور ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستانی جیل میں سربجیت پر ہونے والے تشدد اور بعد ازاں موت کی مذمت کی گئی۔ بھارتی پنجاب کی حکومت نے اسے قومی شہید قراردیا اور اس کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ بھارتی میڈیا اور پاکستان مخالف جماعتیں آگ بگولہ ہوچکی ہیں۔ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ایسا تاثر ابھارا جارہاہے جیسے ایک سزا یافتہ مجرم کی حاد ثاتی موت نہیں بلکہ کسی ہیرو کو موت کے گھاٹ اتاراگیا ہو۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعتیں اس معاملے کو حکمران جماعت کو کمزور اور غیر محب وطن ثابت کرنے کے لیے اچھال رہی ہیں۔ 49 سالہ سربجیت سنگھ کوٹ لکھپت جیل میں بائیس برس تک قید رہا۔اُس پر29 اگست 1990ء میں پاکستانی سرحد عبور کرنے اور لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں بم دھماکوں میں چودہ پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ 1991ء میں اُسے عدالت نے سزائے موت سنائی۔2008ء میں صدرآصف علی زرداری نے اس سزا پر عمل درآمد تاحکم ثانی معطل کردیا تھا ۔توقع تھی کہ اُسے رہا کردیا جائے گا لیکن اس سے پہلے ہی ساتھی قیدیوں کے ہاتھوں زخمی ہوکر چل بسا۔ سربجیت کی ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس پر حیرت اور افسوس کے اظہار کے علاوہ سنجیدگی سے ان عوامل کی نشاندہی کی جانی چاہیے جو سربجیت کی ہلاکت کا باعث بنے۔ ایک بھارتی قیدی کو خطرناک قیدیوں کے ہمراہ کیوںرکھا گیا؟ حملہ آوروں کے خلاف کیا اقدامات کیے گئے ؟کیا انہیں عبرت ناک سز اد ی جاسکے گی؟ان سوالات کا آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے بعد جواب دیا جانا چاہیے۔سربجیت پر حملے میں ملوث افراد کو فوری طور پر سزا سنائی جانی چاہیے تاکہ آئندہ اس طرح کے حادثات سے محفوظ رہاجاسکے۔ سوشل میڈیا پر سربجیت پر حملہ کرنے والو ں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہاہے ۔یہ رویہ اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ ہمارے معاشرے پر جنگی جنون اور انتقام کا جذبہ سوار ہے۔کوئی بھی ریاست شہریوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور مجرموں کو سزادینے کا اختیار نہیں دے سکتی ۔سربجیت کو اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن قانو ن کے مطابق نہ کہ ساتھی قیدیوں کے ہاتھوں۔ دوسری جانب یہ مفروضہ بھی گردش کررہاہے کہ سربجیت پر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔معروف صحافی بینا سرور نے لکھا: یہ حملہ پاک بھارت تعلقات کو خراب کرنے اور کشید گی کی فضا کو قائم رکھنے کی سازش ہے۔ دانشور اسماعیل خان اس حملے کو پاک بھارت امن کوششوں کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونکنے کے مترادف قراردیتے ہیں۔کئی بلند پایہ لکھاری روایتی سازش تھیوری کے شکا رہیںاور وہ اس واقعے کو معمول کا حادثہ تصور کرنے پر آمادہ نہیں۔عاصمہ جہانگیر کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ایسے حادثے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سربجیت کو عدالتی حکم پر سولی پر لٹکا دیا جاتا تو اسے خاموشی سے قبول کرلیا جاتا کیو نکہ جاسوسوں کا انجام ایسا ہی ہوتاہے لیکن جس طرح اس کو موت کے گھاٹ اتارا گیااس کے نتیجے میں دنیا بھر میںپاکستان کی سبکی ہوئی۔پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا جہاں قیدی تک محفوظ نہیں ۔جیل میںبھی قتل وغارت گری کا رقص جاری ہے۔اس پس منظر میں یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کراکر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ بہت سے دوستوں نے کہا کہ بھارت نے اجمل قصاب کی نعش دی نہ محمد افضل گرو کی، پاکستان کیوں انسان دوستی کے نام پر مرا جارہاہے ۔عرض کیا : بھارت نے نعشیں تہاڑجیل کی فصیلوں کے اندر دفن کرکے کون سی نیک نامی کمائی۔افضل گرو کی نعش کی واپسی کا مطالبہ کشمیریوں کی تحریک کا جزولاینفک بن چکاہے۔بھارتی جیلوں میں کئی پاکستانی قیدیوں پر تشدد کیا گیا۔بعض نہ صرف جسمانی طور پر معذور ہوچکے ہیں بلکہ ذہنی توازن بھی کھوچکے ہیں۔ قیدیوں پر تشدد بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہے جس کی صرف مذمت ہی کی جاسکتی ہے۔ سفارت کار ی میںوسعت قلبی اور ذمہ داری کے مظاہرے سے کوئی قوم یا ریاست کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔انتقام کے جذبے پر قابو پانا سہل نہیں لیکن یہ تعلقات کی جہت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔بھارت میں بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے سربجیت کے خاندان کو عیادت کے لیے ویزے جاری کرکے اور باوقار طریقے سے نعش واپس کرکے عمدہ مثال قائم کی ہے۔ بھارت میں اگلے سال عام انتخابات متوقع ہیں۔یہ بھی امکان ہے کہ الیکشن قبل از وقت ہوجائیں۔اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسے ایشوز کی اشد ضرورت ہے جولوگوں کے جذبات بھڑکا سکیں ۔ سادہ لوح شہریوں کے جذبات سے کھیلنے اور ووٹ بٹورنے کے لیے پاکستان پر دشنام طرازی ایک آزمودہ حربہ ہے۔ گزشتہ برس بھارت کے وزیر تجارت ششی تھرور نے پاکستان کا دورہ کیا ۔امن ،محبت ،علاقائی تعاون اور باہمی تجارت کا دل نشین انداز میں راگ الاپتے رہے۔ان کا انداز تکلم دوستانہ اور بدن بولی مفاہمت کے جذبات کی چغلی کھاتی تھی۔ بھارت واپسی پر یکایک ان کا لب ولہجہ بدل گیا۔دہلی میں ایک کانفرنس میں پاکستان کے خلاف دھواں دھار تقریرکی ۔پاکستانی مندوبین دنگ رہ گئے کہ موصوف چند ہفتوں میں امن کی فاختہ سے عقاب بن گئے؟ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بھارتی میڈیا نے ششی تھرور کی سرگرمیوں اور بیانات کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا۔اب پاکستان کے خلاف بات کر کے خبروں اور تجزیوں میں ایک بار پھر رنگ جمانا شروع ہوگئے ہیں ۔سرشام ٹیلی وژن چینلز ٹاک شوز میں مدعو کرتے ہیں‘ صفحہ اوّل پر خبر چھپتی ہے‘ سیاستدان کو اور کیاچاہیے۔ حالیہ ہفتوں میں چین کے ہاتھوں لداخ سیکٹر میں بھارتی فوج کو ایک بار پھر سبکی اٹھانا پڑی ۔چینی فوج بھارت کے زیر کنٹرول لداخ کے علاقے میں کئی کلومیٹر اندر گھس کر مورچہ زن ہوچکی ہے۔ بھارتی فوج محض بیانات جاری کرتی رہی‘ اپنا علاقہ خالی نہ کراسکی۔ گزرے ہوئے چھ عشروں میںبھارت چین تعلقات میں کئی نشیب وفراز آئے ۔اکثراوقات بھارت کو خفت اٹھانا پڑتی ہے لیکن بھارتی قیادت آپے سے باہر نہ ہوئی۔اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ معمولی معمولی مسائل پر سخت رویہ اختیار کیا جاتاہے۔میڈیا ، بی جے پی اور فوج کا بے مثل ایکا دیکھنے میں آتاہے ۔سربجیت کی ہلاکت نے انہیں ایک سنہری موقع فراہم کیا کہ وہ عوام کی توجہ چین کے ہاتھوں لگنے والی ہزیمت سے ہٹا کر پاکستان پر مرکوز کردیں۔پورے بھارت میں سربجیت کا ماتم کیاجارہاہے۔ دوسری جانب بھارتی فوج لداخ میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے آزادکشمیر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا واویلا کررہی ہے۔ بتدریج چین کی لداخ میں دراندازی میڈیا سے غائب ہوجائے گی۔ پس تحریر:دہلی سے جناب یاسین ملک کا فون آیا کہ وہ دوسو کے قریب کشمیریوں کے ہمراہ بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے 48گھنٹے کی بھوک ہڑتا ل کررہے ہیں ۔ان کا مطالبہ ہے کہ افضل گرواور مقبول بٹ شہید کی نعشیں واپس کی جائیںاور کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔یاد رہے کہ یاسین ملک پر دہلی میں کئی مرتبہ شیو سینا کے انتہا پسند حملے کرچکے ہیں۔اب سربجیت کے حادثے کے بعد دہلی کا ماحول کافی کشیدہ ہے۔اللہ خیر کرے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں