یقین نہیں آتا کہ گزشتہ چند دنوں میں جوکچھ دیکھا اور سنا وہ حقیقت تھا یا فسانہ۔ اس قدر سازگار فضا ،باہمی تعاون کا جذبہ اور سیاسی بالغ نظر ی کا مظاہرہ شاید ہی ملکی تاریخ میں ہوا ہو۔ میاں نوازشریف قسمت کے دھنی ہیں کہ آج ان کے بدترین حریف بھی انہیں تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے ان سے حلف لیا۔وہی زرداری جو ان کے دورحکومت میں جیلوں میں محبوس رہے۔جاوید ہاشمی نے انہیں اپنا رہنما قراردیا۔میڈیا جو ہر حکومت پر نکتہ چینی کا عادی ہے میاں نواز شریف کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملارہاہے۔ پے درپے مثبت اقدامات کے ذریعے نون لیگ نے خوشگوار سیاسی فضا قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ قوم پرست رہنماڈاکٹرعبدالمالک کے حوالے کر کے نواز شریف نے شاندار بائونسر لگایا ۔علامتی طور پر یہ بہترین فیصلہ ہے ۔دقت یہ ہے کہ طویل عرصے سے بلوچستان کے معاملات میں سکیورٹی اداروں کا کلیدی کردارہے۔ سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور گورنر ذوالفقار مگسی بھی اپنے دور حکومت میں اپنی بے اختیاری او ربے بسی کا اظہار کرتے رہے۔ نامزد وزیراعلیٰ عبدالمالک جب بلوچستان کے معاملات پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ صوبائی حکومت کتنی بااختیار ہے۔ میاں نوازشریف کی بدن بولی کافی مثبت ہے ۔ یاد رہے کہ ہر حکومت کے ابتدائی چند ہفتوں کو ہنی مون پیریڈ کہاجاتاہے۔اس دوران سب کچھ سہانا اور مثبت نظرآتاہے۔ان کے سامنے مسائل کا انبار ہے جن کا کوئی آسان حل نہیں۔خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلی کے رکن فرید خان اورک زئی کو قتل کردیا گیا۔ انتخابات کے بعد ہونے والا یہ پہلا سیاسی قتل ہے۔تحریک انصاف کی مقامی قیادت ایک مشکل امتحان سے دوچار ہوچکی ہے۔وہ انتہاپسندوںسے مذاکرات کی علمبردار ہے لیکن طالبان اور دیگر شدت پسند گروہ مکالمے کی نہیں بندوق کی زبان سمجھتے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی میاں نوازشریف طالبا ن کے ساتھ بات چیت کرنے کا غیر رسمی آغاز کرچکے تھے کہ ڈرون حملے میں تحریک طالبان کے سینئر رہنما ولی الرحمن جاں بحق ہوگئے۔اب طالبان مذاکرا ت کی پیشکش واپس لے چکے ہیں۔ میاں نوازشریف نے اس محاذ پر پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ یہ عمل روک دیا گیا۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ پاک فوج کے جنگ کے حوالے سے بنیادی نظریات میں جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ ’گرین بک‘ میں ’سب کنوینشنل وار فیئر‘ کے عنوان سے شامل کیے گئے نئے باب میں قبائلی علاقہ جات میں جاری جنگ اور ریاست مخالف عناصر‘ جنہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا ہے‘ کو پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قراردیا گیا ہے۔ ان میں پاکستان تحریک طالبان کا نام سرفہرست ہے۔ نوازشریف حکومت کو غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مکالمے سے قبل تمام ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی پیداکرنا ہوگی تاکہ حقیقی پیش رفت ممکن بنائی جاسکے۔ امریکا بہاد ر بھی پاکستانی طالبان سے مذاکراتی عمل کا حامی نہیں۔ بظاہر اس نے مخالفت نہیں کی لیکن ڈرون حملہ کرکے اس عمل ہی کو سبوتاژ کردیا۔ اس حملے نے ڈرون حملوں کی بحث کو تازہ کردیا۔ میاں نوازشریف نے اپنی تقریر میں ڈرون حملوں کے خلاف دوٹوک موقف اپنانے کا تاثر دیا‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کراپنا موقف متوازن بنانے کی کوشش کی کہ ہمیں ان اسباب کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا جو ڈرون حملوں کا باعث بنتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران میاں صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ برسراقتدار آکر ڈرون حملے بند کرادیں گے۔ خیبر پختون خوا کی اسمبلی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پاس کرنے والی ہے تاکہ وفاقی حکومت پر دبائو بڑھایا جاسکے۔ڈرون حملوں کے مسئلے پر پاک امریکا تعلقات میں ابھی سے بگاڑ پیدا ہوتا نظر آرہاہے۔ میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاکر اچھا پیغام دیا ہے ۔بھارت کے اعتدال پسند حلقوں میں ان کے بیانات کو کافی پزیرائی ملی ۔بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ وہ میاں نواز شریف کے اخلاص کی قدر کرتے ہیں ۔کانگریس کے رہنما منی شنکر آئر نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنا معاندانہ رویہ بدلے۔ اس سازگارفضا کو دودن قبل اس وقت زبردست دھچکا لگا جب بھارت کے وزیر داخلہ سوشیل کمار شندی نے دہلی میں داخلی سلامتی کی صورتحال پر ہونے والے ایک اجلاس میں پاکستان پر یہ الزام لگایا: ’آئی ایس آئی سکھ عسکریت پسندوں کی تربیت کر رہی ہے تاکہ وہ بھارتی صوبہ پنجاب میں دہشت گردانہ حملے کریں۔ سکھ نوجوانوں کو پاکستان میں دہشت گردانہ تربیت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان یورپ اور امریکا میں رہنے والے سکھ نوجوانوں کی بھی حوصلہ افزائی کر رہا ہے تاکہ وہ پاکستان جاکر دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کی تربیت حاصل کریں‘۔ ان بیانات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ پاک بھارت تعلقات میں موجود سرد مہری آسانی سے ٹوٹے گی نہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی ہر کوشش کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا منفرد جغرافیائی محل وقوع اس کا اثاثہ بننے کے بجائے بوجھ بن گیا ۔وہ گزشتہ چھ عشروں میں بفر اسٹیٹ بنا رہا۔نوے کی دہائی تک امریکا اور مغربی ممالک کے اشتراک سے کمیونزم سے آزاد نیا کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں لگا رہا۔افغانستان کا جہاد بھی سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کی خاطر کیا گیا اور اب امریکا کو شدت پسندوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے اسے اپنی ساری توانائیاں ایک ایسی جنگ میں صرف کرنا پڑ رہی ہیں جو اس کے شہریوں میں غیر مقبول ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کی داخلی اور معاشی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہے لہٰذا پاکستان کو درپیش مسائل کا گہرا تعلق اس کی خارجہ پالیسی سے بھی ہے۔ میاں نواز شریف کی پہلی تقریر میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے زیادہ گفتگو سے احتراز کیا گیا ۔غالباًوہ جان بوجھ کر اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ابہام رکھنا چاہتے ہیںلیکن زیادہ دیر تک اہم قومی معاملات پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ ان مشکلات کے علاوہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کسی انقلابی جماعت کے رہنما نہیں جو قربانی دینے کا عزم رکھتی ہو۔ ان کے گرد جمع طبقۂ اشرافیہ کے ہر چشم وچراغ نے بغل میں ایک درخواست دبائی ہوتی ہے جو وزیراعظم کا خوشگوار موڈ دیکھ کر پیش کردی جاتی ہے۔اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے لیے بے تاب ’شرفاء‘کی فہرست طویل ہے۔ دوسری جانب فعال عدلیہ، متحرک میڈیا اور سول سوسائٹی میاں صاحب کے ہر اقدام کی جانچ پرکھ‘ الیکشن میں کیے گئے عہدوپیمان کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ اگر مسائل کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں حالات دگرگوں ہو سکتے ہیں۔