"IMC" (space) message & send to 7575

داخلی سلامتی کے چیلنج

چودھری نثار کا شمار سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں اور نوازشریف کے معتمد ساتھیوں میں ہوتاہے ۔ وہ دفاعی اداروں کی فکر اور انتظامی ڈھانچے کے بھی شناسا ہیں کیونکہ ان کے مرحوم والد اور بھائی فوج کے اعلیٰ افسر رہے ہیںاور وہ خود بھی طویل عرصے سے حکومت اور سیاست کا حصہ ہیں۔ملک کو جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا پامردی سے مقابلہ کرنے کے لیے نواز شریف نے اپنے بہترین رفقا کو مشکل ترین مسائل کے حل کی ذمہ داری سونپی ہے جو جہاں وزیراعظم کی نیک نیتی کا اظہار ہے وہاں ان کی ٹیم کے لیے ایک کڑی آزمائش بھی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی نے عملاً معاملات زندگی معطل کررکھے ہیں ۔فطری طور پر وہی ملک کا سب سے بڑا حل طلب مسئلہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ توانائی کی عدم فراہمی نہیں بلکہ بدامنی اور لاقانونیت ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر روز چھ شہری ہلاک کیے جاتے ہیں۔منظم دہشت گردگروپ سرگرم ہیں۔ان میں ایسے گروہ بھی ہیں جو غیر ملکی ایجنٹ ہیں لیکن زیادہ تر گمراہ اور بھٹکے ہوئے نوجوان ہیں جو ریاست کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں نہ جغرافیائی حدود وقیود کو۔ زیارت اور کوئٹہ ہسپتال میں ایک ہی روز شدت پسندوں کے حملوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔نئی حکومت کو آغاز ہی میں مشکل ترین امتحان سے گزرنا پڑا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے ڈانڈے مغربی ممالک سے لے کرافغانستان اور بھارت تک جاملتے ہیں۔گلگت بلتستان بالخصوص شاہراہ قراقرم کو غیر محفوظ بنانے کے لیے شیعہ سنی جھگڑے کو ہوادی جاتی ہے۔فرقہ وارانہ تقسیم گہری ہے اور اس کے پس منظر میں مقامی ہی نہیں ،کئی ممالک کے مالی وسائل اور اخلاقی حمایت بھی کارفرماہے۔وزیراعظم نوا ز شریف نے عندیہ دیا ہے کہ د ہشت گردوںکو بیرونی ممالک سے ملنے والے مالی وسائل کی فراہمی روکی جائے گی۔ وزارت داخلہ جو اصولی طور پر ان دیوہیکل مسائل سے نبردآزما ہونے کی ذمہ دار ہے ۔وہ پرویز مشرف کے طویل دور حکومت میں عضو معطل بنی رہی۔سارے احکامات جنرل مشرف کے دفتر سے جاری ہوتے اور باقی اداروں کا کام محض کٹھ پتلی کا ہوتاتھا ۔رحمان ملک کو موقع ملا لیکن وہ وزارت داخلہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ناکام رہے۔برسراقتدارآتے ہی آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی مہم جوئی کی۔ جو حساس اداروں اور وزارت داخلہ میں غیر اعلانیہ جنگ کا موجب بنی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے تک جاری رہی۔ یوںدہشت گردی کے حوالے سے قانون سازی اور نئے ادارے بنانے کا عمل بری طرح متاثرہوا۔ قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ انسداد دہشت گردی کا ایک بل 2009ء سے مختلف کمیٹیوں کے پاس پڑا رہا ۔کسی بھی سطح پر اس بل میں دلچسپی نہیں لی گئی۔تنگ آمد بجنگ آمد مارچ 2013ء میں فوج کی لیگل برانچ نے ایک ڈرافٹ تیاری کرکے حکومت کے حوالے کیا ۔جسے معمولی ردوبدل کے بعد پارلیمنٹ سے منظور کرالیا گیا۔اسی بل میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) بنائی گئی ،جس کا مقصد خفیہ اداروں کے باہمی روابط ،دہشت گرد گروہوں پر تحقیق اور اس حوالے سے بیرونی رابطوں کے ساتھ رابطے رکھنا ہے۔ دہشت گردی یا امن وامان کے مسائل پر قابو نہ پاسکنے کا ایک بڑا سبب خفیہ اداروں اور حکومت بالخصوص وزارت داخلہ کے مابین تعلقات کار کا نہ ہونا ،بلکہ باہمی عدم اعتماد بھی ہے۔ بہت سارے ماہرین جن میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) جہانگیر کرامت بھی شامل ہیں، تجویز کرتے ہیں کہ وزیراعظم کی سربراہی میں بیٹھ کر نیشنل سکیورٹی اسٹرٹیجی تشکیل دی جائے ۔ تمام اداروں کے درمیان اختیارات اور ذمہ داریوں کی ازسر نو تقسیم کار کی جائے ۔ اطلاعات کے تبادلے کے فقدان ، خفیہ اداروں اور نوکرشاہی کے درمیان سست رفتار رابطے اور فیصلہ سازی کی کمی نے پورے نظام کو ناکارہ بنادیا ہے۔ صوبائی پولیس اور سویلین اداروں کے ذمہ دار شکایت کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وزارت داخلہ کیا کررہی ہے اور خفیہ اداروں کی کیا حکمت عملی ہے؟ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین گہرے پیشہ وارانہ تعلقات کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کسی کی بھی طویل المیعاد بنیادوں پر مسائل کے حل کی جانب توجہ نہیں ۔اکثر ادارے وقتی اور روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔چودھری نثار کو وزارت چلانے میں فری ہینڈ ملا ہے۔مسائل کا گہرا ادارک رکھتے ہیں۔ دائیں بازوکی جانب نظریاتی جھکائوہے لہٰذا شدت پسندوں کے رجحانات اور انفراسٹرکچر کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں۔ڈٹ کر موقف بیان کرتے ہیں او ر خائف نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان سے امید ہے کہ وہ اپنی وزارت کو محض روزمرہ کے کاموں تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ اسے جدید خطوط پر استوار کریں گے۔سلامتی سے متعلقہ سویلین اداروں کی استعداد بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں تاکہ فوج پر داخلی سلامتی کے حوالے سے ذمہ داریوںکا بوجھ کم ہو۔صوبائی حکومتوں کی راہنمائی کرنا ، پولیس افسران کا اعتماد بحال کرنا اور انہیں بھرپور حمایت فراہم کرنے سے مشکل سے مشکل مسائل پر قابو پایا جاسکتاہے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات کو میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کھولنابھی ضروری ہے تاکہ شہریوں کی حقائق تک رسائی ہو۔موجودہ سازگار فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور منحرفین کے ساتھ اعلیٰ سطحی مکالمہ شروع کیا جانا چاہیے۔لاپتہ افراد کے مسائل خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔شہری آزادیوں کا تحفظ ممکن بنانا ہوگا۔ کسی بھی قیمت پر شہریوں کو غائب کرنے یا انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔اس رجحان کا قلع قمع کرنے میں وزیرداخلہ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی داخلی اور قومی سلامتی کمیٹیوں نے گزشتہ پانچ برس میں کئی ایک امور پر بڑی جامع سفارشات پیش کی ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ان کمیٹیوں کو آئندہ برسوں میں سرگرم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ پالیسی سازی میں ارکان پارلیمنٹ کا کردار بڑھایا جاسکے۔علاوہ ازیں جب پارلیمنٹ کسی ایشو پر موقف اختیار کرتی ہے تو مقتدرادارے اپنے بے لچک نقطہ نظر پر نظر ثانی پر آمادہ ہوجاتے ہیںاور مسائل کے سیاسی حل کا راستہ نکل آتاہے۔ مسائل بہت گھمبیر ہوچکے ۔چودھری صاحب کو ایک صلح جُو شخصیت کا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ خیبر پختون خوااور سندھ کی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کامیاب ہوسکیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں