"IMC" (space) message & send to 7575

صدر زرداری: نئے امکانات

صدر آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصت ہوا ہی چاہتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ بیرون ملک قیام کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انہیںخدشہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں مبینہ طور پرجمع دولت کے حوالے سے مقدمات ازسرنو کھل سکتے ہیں۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ ملک میںامن وامان کی خراب صورت حال کے باعث وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیناچاہتے۔یہ کہاجاتاہے کہ ان کے’ پیر‘ جو گزشتہ پانچ برسوں سے ایوان صدر میں قیام فرما ہیں ، کی ’ہدایت‘ ہے کہ صدر زرداری سرزمین پاکستان سے دور رہیں۔ان کے لیے آنے والے ماہ وسال ’بھاری‘ ہیں ۔سندھ بالخصوص کراچی کو سونے کی کان کہاجاتا ہے، ان پر دوبئی یا لندن میںبیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے حکومت کی جاسکتی ہے تو پھر اپنے آپ کو مصیبت میں کیوں ڈالا جائے۔ یہ ایک تکلیف دہ منظرنامہ ہے ۔پرویز مشرف صدارت سے فارغ ہوئے تو لندن چلے گئے تھے۔ شوکت عزیز نے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد چند دن بھی ملک میں گزارنا پسند نہ کیا۔ احمد شجاع پاشا ایک طاقت ور ادارے کی سربراہی سے ریٹائرڈ ہوئے تو متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرلی۔ خبر چھپی ہیں کہ اگلے چند ماہ میں ریٹائرڈ ہونے والی ایک بڑی شخصیت بھی سکیورٹی خدشات کے سبب لندن منتقل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صدر زرداری کی پیپلزپارٹی حالیہ انتخابی شکست کے بعد دم سادھے بے سدھ پڑی ہے۔اگر صدر زرداری دیار غیر میں ڈیرے ڈالتے ہیں تو ان کی جماعت کا خیمہ اکھڑجائے گا۔ملک میں رہ کر وہ پی پی پی میں نئی روح پھونک سکتے ہیں۔پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اس کے احیا کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اگر و ہ غور کریں اور آمادہ ہوں تو ملک کے اندر سیاسی اور تنظیمی سرگرمیوں کا جال پھیلا سکتے ہیں۔ 2018ء کے چنائو میں عوام پنجاب میں شریف برادران کے دس سالہ راج سے بتدریج اکتا چکے ہوں گے ۔ فطری طور پر تبدیلی کے حق میں ووٹ دیں گے۔صدر زرادری کے منظر سے غائب ہونے کی صورت میں مقابلہ نون لیگ اور تحریک انصاف کے مابین ہو گا۔ پیپلزپارٹی کا شمار گنتی کی ان چند جماعتوں میں ہوتاہے جس کے حامی خیبر تاکراچی ہر گائوں محلے اور شہر میں پائے جاتے ہیں۔انہیں ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو پرویز مشرف کے دور میں جلاوطن رہیں لہٰذا ان کا عام کارکنوں اور نچلے درجے کے جماعتی رہنمائوں سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ محترمہ کی عدم موجودگی میں پارٹی کی قیادت سندھی اشرافیہ کے سٹار مخدوم امین فہیم نے کی۔ محترمہ وطن واپس تشریف لائیں تو بم دھماکوں اور معصوم انسانوں کی جانوں سے کھیلنے کا کاروباربام عروج پر پہنچ چکا تھا۔ کراچی میںبے نظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر خطرناک حملہ ہوا۔قدرت نے انہیںپارٹی کی تنظیم نو کی مہلت عطا نہ فرمائی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جناب زرداری منصب صدارت پر فائز ہوگئے۔انتظامیہ چلانے کاا ختیار اور کمان مخدوم سید یوسف رضاگیلانی کو سونپ دی گئی ۔ خو د موصوف نے ایوان صدر میں قلعہ بند ہو کر پانچ سال کاٹ لیے۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو صاحب بہادر نے حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ پڑھوائی۔ اب دونوں سابق وزرائے اعظم عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے ہیں۔ بعید نہیں کہ جیل یاترا بھی کرنی پڑے۔ ان حالات میں پارٹی کی تنظیم سازی کی جانب توجہ کون دیتا؟ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ملک گیر اپیل رکھنے والی سیاسی شخصیات اور اکائیاں مضبوط ہوںتاکہ علاقائی ،نسلی اور گروہی شناخت رکھنے والی جماعتیں فیصلہ کن طاقت حاصل نہ کرسکیں۔پیپلزپارٹی کو گزشتہ پندرہ برسوں میں منظم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔محنتی مگر وفاشعارکارکنوں کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنایاگیا۔سندھی اور سرائیکی اشرافیہ جماعت کی بالائی سطح کی قیادت میں نمایاں ہے۔پنجاب اور خیبر پختون خوا کے پارٹی راہنمائوں کو جماعت کے اندورنی حلقوں میں زیادہ قبولیت اور پذیرائی حاصل نہیں۔ بے نظیر بھٹو خاندان اور قریبی رشتے داروں کو قابو میں رکھتی تھیں۔ صدر زرداری کی مروت کا یہ عالم ہے کہ مصیبت کے ایام میں پانی کا ایک گھونٹ پلانے والے سے پوچھتے ہیں: مانگ تو کیا مانگتاہے! صدر زرداری ملک میں رہیں تو وہ قومی افق پر سیاسی گہما گہمی کا ایک نیا ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ پی پی کی صفوں کو ازسر نو ترتیب دیں۔ اپنے بچوں بلاول اور آصفہ بھٹو زرداری سے اوپر اٹھ کر سوچیں۔ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو پارٹی میں مقام دیں۔ بزرگوں کی خدمات اپنی جگہ مسلمہ لیکن اب انہیں آرام کا موقع دیں۔ ایسے چہرے سامنے لائیں جن کا دامن پاک اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ جو پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ریاست بنانے کے خواب نہیں بلکہ حقیقی منصوبے رکھتے ہوں۔اپنے اردگر د ایسے پروفیشنلز کی ٹیم رکھیں جنہیں دیکھ ان پر لوگوں کا اعتبار اور اعتما دقائم ہو۔ بے نظیربھٹو کے زمانے میں پارٹی کا مرکزی سیکرٹر یٹ سیاسی سرگرمیوں کا محور تھا۔سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر نظر رکھتا۔اپنے لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتا اور قیادت کو ماہرانہ مشوروں سے نوازتا تھا۔ اس سلسلے کو ازسرنوزندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بے نظیر کے دور میں پارٹی رہنمائوں کا سول سوسائٹی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتاتھا۔ مفاد عامہ کے کئی امو ر میں ایک دوسرے کی حمایت کی جاتی ۔یہ سلسلہ بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ ،گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں قائم ہیں‘جنہیں مسلسل رہنمائی اور سیاسی پشت پناہی چاہے۔نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان جاری سیاسی مسابقت نے سیاست کے پرانے اطوار بدل دیے ہیں۔کراچی جیسے شہر میں‘ جہاں کل تک ایم کیوایم کا طوطی بولتاتھا‘ بہت لوگ اب تحریک انصاف اور عمران خان کے بلے کو نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔جس طرح روشنیوں کے اس شہر کے پوش علاقوں کے نوجوانوںبالخصوص عورتوں اور بچوں نے ڈٹ کر ایک مخصوص گروہ کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کیا اس نے دنیا کو ششدر کردیا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی مسابقت کا ماحول پیدا ہوتا نظر آتاہے۔ اس سے پیپلز پارٹی بھی فائدہ اٹھاسکتی ہے بشرطیکہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا حال پتلا ہے۔مہدی شاہ اور چودھری عبدالمجید کی حکومتیں وفاقی حکومت کے چھاتے کے بغیر لڑکھڑا رہی ہیں۔وزیراعظم نواز شریف ان علاقوں میں تبدیلی کی حمایت نہیں کرتے ۔ لیکن کب تک ؟ محترمہ فریال تالپور کے علاوہ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کی ٹیم کو مامور کیا جائے جو ان حکومتوں کومختصر وقت میںفعال اور جوابدہ بناسکے۔صدر زرداری مہدی شاہ اور چودھری مجید کو مجبور کریں کہ وہ اسلام آباد آنے کے بجائے گلگت اور مظفرآباد میں ٹک کر بیٹھیں۔ سرکاری اجلاسوں میں شرکت ضرور ی ہو تو ضرور اسلام آباد آئیں لیکن اگلے دن واپس چلے جائیں۔ ان امور پر توجہ مرکوز کی جائے تو اگلے چند برسوں میں پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر مضبوط اور توانا پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں