"IMC" (space) message & send to 7575

نیشنل سکیورٹی کونسل کیوں؟

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام پر رضا مند ہوچکے ہیں۔یہ ادارہ سویلین حکومت اور دفاعی اداروں کے مابین قومی سلامتی کے امور پر پالیسی ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی کا کام بھی سرانجام دے گا۔سویلین حکومت اور عسکری قیادت کو ادق مسائل کے حل کے لیے باہمی مکالمے اور مشاورت کا ایک پلیٹ فارم دستیاب ہوگا ۔اہم فیصلے اتفاق رائے سے ہوسکیں گے ۔ اچھے برے نتائج کی ذمہ داری میں بھی تمام اسٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہوں گے۔کوئی اپنی جان چھڑا پائے گا اور نہ الگ پالیسی جاری رکھ سکے گا۔ سکیورٹی کونسل کا قیام اس لیے بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نوازشریف پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں اساسی نوعیت کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔دفتر خارجہ کے حکام اور آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں ہونے والے اجلاسوں میں انہوں نے اصرار کیا کہ پاکستان علاقائی امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ وزیراعظم نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ جاری تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت بھی اجاگر کی۔ بین السطور ان تعلقات کے روایتی ڈھانچے، اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی ساخت ، افغانستان اور بھارت کے بارے میں تصورات کو بدلنے کے لیے دبائو ڈالا۔ وزیراعظم نواز شریف جس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں انہیں سن کر قدرے خوف بھی محسوس ہوتاہے کہ ساٹھ برسوں پر محیط پالیسیوں کو کس طرح بدلا جاسکتا ہے‘ وہ تو اب طرز زندگی بن چکی ہیں۔پاکستان کے روشن دماغ سفارت کار ریاض محمد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں جنرل (ر) پرویز مشرف سے اکتوبر 1999ء کے مابعد ملاقات کا موقع ملا ۔عرض کیا کہ جب تک عسکریت پسندوں کی حمایت ترک نہیں کی جاتی حکومت کی اعلان کردہ اصلاحات کامیاب ہوں گی اور نہ معیشت کی سست روی دور ہو سکے گی۔ جواب میںمشرف نے کہا:جو کچھ آپ تجویز کررہے ہیں اس سے میری حکومت کا خاتمہ ہوسکتاہے۔ ریاض محمد خان نے یہ واقعہ لکھ کر دراصل ان مشکلات کی جانب اشارہ کیا ہے جو روایتی نقطہ نظر اور حکمتِ عملی میں تبدیلی کی کوششوں میں پیش آسکتی ہیں۔گزشتہ پینسٹھ برسوں کے تلخ تجربات اور خطے کے ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے سبب ہم بحیثیت قوم Siege mentality کا شکار ہوچکے ہیں۔انگریزی زبان کی یہ اصطلاح اس ملک یا معاشرہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جوگھری ہوئی ذہنیت یا احساس مظلومیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسروں سے خوف زدہ رہتا ہے اور اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتا۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ اور اس موقع پر عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا جیسے ’یارِ طرحدار‘ کی بے رخی نے سلامتی کے متعلق تصورات کی جہت ہی بدل دی۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ۔ ایٹم بم بنانے کی خاطر پاکستان پوری دنیا کے مدمقابل ڈٹ گیا۔افغانستان اور بعد ازاں کشمیر کے جہاد نے معاشرے میں شدت پسندی کے رجحانات کو تقویت دی۔بتدریج غیر ریاستی عناصر کا نیٹ ورک پروان چڑھاجو عالمی جہادی تحریکوں کے ساتھ مربوط ہوگیا ۔ارباب اقتدار کو یقین تھا کہ وہ ان عناصر کو بوقت ضرورت کنٹرول کرسکیں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔اب عالم یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے حساس ادارے آئی ایس آئی کے دفاتر تک غیر محفوظ ہیں۔ سکھر میں ہونے والا حالیہ حملہ اور کراچی میں صدرآصف علی زرداری کے سکیورٹی انچارج بلال شیخ کی ہلاکت نے حفاظتی نظام کی قلعی کھول دی ہے۔ دوسری جانب بھارت اور افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کا گٹھ جوڑ عروج کو پہنچ چکا ہے۔بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائرکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔یہ کوئی مفروضہ نہیں۔پرویز مشرف شواہد کے ساتھ افغان صدر حامد کرزئی کو امریکی صدر ،ترک صدر اور برطانوی وزیراعظم کی موجودگی میں بتاتے رہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتاہے۔ عملاًپاکستان بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین نہ صرف سرد جنگ جاری ہے بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے کو ناکام بنانے میں بھی مصروف ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے اندر نام نہاد سکالر دفاعی اداروں کو مذہب کے نام پرمسلسل شہ دیتے ہیں کہ وہ دنیا سے بھڑجائیں اور دشمنوں کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیں۔ یہ سکالر جس تسلسل سے نجی ٹیلی وژن چینلز پر جلوہ گر ہوکر شد ت پسندی کابھاشن دیتے ہیں وہ اس شک کو تقویت دیتاہے کہ انہیں کسی طاقت ور ادارے کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ اکتوبر 1998ء نہیں جب جنرل (ر) جہانگیرکرامت نے نیشنل سکیورٹی کونسل قائم کرنے کی تجویز دی تو وزیراعظم نواز شریف اس قدر بد مزہ ہوئے کہ انہیں فوج کی سربراہی سے مستعفی ہونا پڑا۔آج ملک ایک غیر معمولی حالات سے گزررہاہے جہاں سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی پیدا کیے بغیر ملکی سلامتی کولاحق خطرات کا مقابلہ ممکن نہیں۔پیپلزپارٹی نے برسراقتدار آتے ہی پرویز مشرف کی قائم کردہ نیشنل سکیورٹی کونسل ختم کرکے سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں پارلیمنٹ کی مشترکہ قومی سلامتی کمیٹی قائم کی ۔ یہ کمیٹی کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکی۔پیپلزپارٹی کی حکومت قومی سلامتی کے متعلقہ معاملات کی نگرانی کرنے کے بجائے انہیں دفاعی اداروں کی صوابدید پر چھوڑ کر خود لاتعلق ہو گئی۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ حکومت کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے عدم دلچسپی کا نوحہ ہے۔رپورٹ کے متن کے مطابق کمیشن کے روبرو دفاعی ادارے سویلین اداروں کی نا اہلی کی شکایت کرتے اور اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کو پولیس اور آئی بی کی ناکامی قرار دیتے رہے۔ دوسری جانب پولیس اور آئی بی حکام کا اصرار تھا کہ قومی سلامتی کے متعلقہ تمام معاملات کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ صائب موقف ہے کہ جب تک وہ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے ہمراہ نہیں بیٹھتے اس وقت تک متفقہ پالیسی وضع نہیں کی جاسکتی ۔کل جماعتی کانفرنسوں کا حال یہ ہوتاہے کہ ابھی کانفرنس ختم نہیں ہوتی کہ ٹی وی چینلز پر ٹکر چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔کوئی بات خفیہ نہیں رہتی۔شرکا کھل کر اظہار خیال نہیں کرسکتے ۔شدت پسندوں کے خلاف دوٹوک موقف لینا مذاق نہیں۔خیبر پختون خو ا میں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔تحریک انصاف محض دوماہ میں اپنے دو صوبائی ارکان اسمبلی کھو چکی ہے۔کل جماعتی کانفرنس کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں کہ قومی سطح پر علامتی نوعیت کی یکجہتی کا تاثر پیداہوتاہے ۔ دنیا کو پیغام جاتاہے کہ سیاسی قیادت دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہے۔ریاست کی عمل داری کو چیلنج کرنے والے گروہوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی اور قابل عمل حکمت عملی اعلیٰ سطحی اجلاسوں ہی میں ممکن ہے۔ اس پس منظر میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا قیام ملک کے لیے فائدہ مند ہوسکتاہے۔فیصلوں کی مشترکہ اونرشپ اور ذمہ داری بھی مساوی ہوگی۔کوئی بھی فریق اپنی ذمہ داری دوسروں کے کندھے پر ڈال کر جان نہیں چھڑا سکے گا۔سب سے بڑھ کر دفاعی اور سویلین اداروں کے درمیان حساس معاملات پر مکالمے کی راہ ہموار ہوگی۔ جس سے دوہری پالیسیوں کے خاتمے کا راستہ نکل سکے گا ۔نواز شریف جو بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس فورم پرزیر بحث آئیں گی۔ وزیراعظم کو بھی عملی مشکلات کی تفہیم میں سہولت ہوگی جن کے باعث خطے پر تنائو کی ناختم ہونے والی کیفیت طاری ہے۔ ممکن ہے اس طرح دفاعی ادارے او ر حکومت متوازن اور متفقہ علاقائی حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں