"IMC" (space) message & send to 7575

کنٹرول لائن پر کشیدگی

پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی ایک بار پھر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر بولا جانے والا دھاوا ایک غیر معمولی معاملہ ہے جو امر کی عکاسی کرتاہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں نہ صرف پاکستان مخالف عناصر کا پلڑا بھاری ہے بلکہ وہ غصے اور مایوسی کے عالم میں توازن کھو رہی ہے۔اگلے ماہ نیویارک میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور نوا زشریف کے درمیان طے شدہ ملاقات کی منسوخی کا اگرچہ اعلان نہیں ہوا لیکن رواں کشیدگی کے پس منظر میں کسی بریک تھرو کا امکان نظر نہیں آتا۔ سات سو چالیس کلومیٹر لمبی کنٹرول لائن پہ ایک بار پھر آتش وآہن کی بارش شروع ہوچکی ہے۔ مبینہ طور پر بھارت کے پانچ فوجی جوان جاں بحق ہوگئے ۔ اب وہ پاکستانی چوکیوں پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف نے اپنے جوانوں کو شہ دیتے ہوئے کہا: جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ڈٹ کر جواب دو۔ایسا لگتاہے کہ اگر اعلیٰ سطحی مداخلت نہ کی گئی تو وزیراعظم نوازشریف کی بھارت کے ساتھ اعتماد اورمذاکرات کی بحالی کی کاوشوں کا جلد ہی’کریا کرم‘ ہوجائے گا۔ اس سال جنوری سے کنٹرول لائن پرپاک بھارت فوجوں کے مابین مسلسل تنائو پایاجاتاہے۔جنوری میں بھارت کے دو اور پاکستان کے تین فوجی جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ الزام لگایاگیاکہ پاکستان نے دو بھارتی فوجیوں کے سرکاٹے اور نعشوں کی بے حرمتی کی۔پاکستان نے اس الزام کی تردید کی لیکن بھارت نہ صرف اپنے موقف پر قائم رہابلکہ اس نے پاک بھارت مذاکراتی عمل کو بھی معطل کردیا‘ پاکستانی ہاکی ٹیم کو واپس بھیجا اور 65برس سے زائد عمر کے شہریوں کو ویزے کے بغیر سفری سہولتوں کی فراہمی کے معاہدہ پر عمل درآمد روک دیا۔علاوہ ازیں کنٹرول لائن پر بھی معمولی نوعیت کی خلاف ورزیاں جاری رہیں۔گزشتہ ہفتے خبر آئی کہ پانچ افراد کو بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی اور ایک پاکستانی سپاہی کو شہید کردیاگیا۔ وزیراعظم نواز شریف کے برسراقتدار آنے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی۔بیک چینل سفارت کاری کا سلسلہ رواں ہوا۔سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خان دہلی گئے جہاں انہوں نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی۔من موہن سنگھ کے معاون خصوصی ایس کے لامبہ نوازشریف سے ملنے لاہور تشریف لائے۔بھارت سے بجلی خریدنے کے معاملے میں سنجیدہ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ٹریک ٹو کی سرگرمیاں بھی ازسر نو زور پکڑنا شروع ہوئیں۔وزیراعظم نے وزارت خارجہ کے دفاتر کے دورے میں بھی اپنی حکومت کی ترجیحات میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے پر زور دیا۔ چنانچہ پاکستان نے بھارت کو اگست کے آخری ہفتے میںپانی کے مسائل پروزارتی سطح پر مذاکرات کی تاریخ تجویز کی۔ نواز شریف نے وزرارت خارجہ کا قلمدا ن اپنے پاس اس لیے رکھا تاکہ وہ اہم امور پر فیصلہ سازی اور عمل درآمد کی براہ راست نگرانی کرسکیں۔عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ وزارت خارجہ کو اپنے انگوٹھے تلے رکھتی ہے۔نوازشریف اسے زیادہ سے زیادہ آزادی دے کر فعال بنانا چاہتے ہیں۔ کنٹرول لائن کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے ۔یہ دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں اس قدر بڑی تعداد میں دوحریف افواج کا آمناسامنا رہتا ہے۔ کنٹرول لائن کا شاید ہی کوئی حصہ ہو جس کی کڑی نگرانی نہ کی جاتی ہو۔1989ء میں جب کشمیر میں تحریک مزاحمت شروع ہوئی تو کنٹرول لائن پر عملاًمحدود جنگ شروع ہوگئی تھی۔ایک دوسرے کے علاقے میں گھس کر حملے کرنا معمول تھا۔2000ء میں بھارتی فوج نے کوٹلی کے علاقے سیری بٹالہ میں داخل ہوکر بائیس شہریوں کے گلے کاٹے۔ نومبر 2003ء میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی ہوئی تو مقامی آبادی نے سکھ کا سانس لیا۔امسال جنوری سے پہلے اکادکاواقعات کے علاوہ کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا۔بھارت نے جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر خاردار تار لگائی اور بہت سارے مقامات پر نئی مورچہ بندی کی۔جو پاکستانی فوج کے لیے ناقابل قبول تھی لیکن وہ بھارت کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکی۔ پرویزمشرف کی حکومت کے ذہن میں کشمیر کے حوالے سے ایک جامع منصوبہ تھا اور کنٹرول لائن پر ہونے والی جنگ بندی اسی منصوبے کا ایک جزو تھی۔پرویزمشرف کی اقتدار سے محرومی اور بعدازاں ممبئی حملوں نے پاک بھارت تعلقات کا منظر نامہ ہی بدل دیا۔اگر مشرف اقتدار میں رہتے تو کشمیر ی حریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان اگلے مرحلے میں جنگ بندی ہونا تھی۔اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے بتدریج حل کی جانب قدم بقدم پیش رفت شروع ہوتی۔ المیہ یہ ہوا کہ جو پراسیس مشرف نے شروع کیا تھا وہ منطقی انجام کو پہنچے بنا ہی دم توڑ گیا۔ اس دوران جن طاقتوں کو غیر موثر کیا تھا وہ دوبارہ سراٹھانے لگی ہیں۔ گزشتہ ایک کالم میں خدشہ ظاہر کیا گیاتھا کہ اگر کشمیر کو پیس پراسیس کا فعال حصہ نہ بنایا گیا تو یہ عمل سبوتاژ ہوسکتاہے۔سید علی گیلانی نے روزنامہ دنیا کے سینئر صحافی سلمان غنی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ بیک چینل ڈائیلاگ نواز شریف کو مبارک ہو۔میرواعظ عمر فاروق نے نواز شریف کے معذرت خوانہ لب ولہجے پر سخت نکتہ چینی کی اور اسے ناقابل قبول قراردیا۔ کشمیریوں میں بے چینی حد سے بڑھ رہی ہے اور وہ اب مزید انتظار کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ خود بھارتی تسلیم کرتے ہیں کہ محمد افضل گرو کی پھانسی کے بعد عسکری کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں نئی صف بندی شروع ہوچکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین محاذآرائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے پر ہونے والے خودکش حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے اور اب دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ کردیاگیا۔افغان حکومت بھی خوش نہیں کہ پاکستان کی مدد سے امریکا اورطالبان کے درمیان بات چیت ہورہی ہے جب کہ صدرحامد کرزئی کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جہاں اس خطے میں باہمی تعاون اور علاقائی تجارت کے بے پناہ مواقع فراہم کرتاہے وہاںخطرات اور خدشات کا اپنے اندر ایک جہاں سمیٹے ہوئے ہے۔سب سے بڑا خطرہ پاکستان اور بھارت کے مابین شروع ہونے والی کشیدگی ہے جو افغانستان کے امن کو تہ وبالا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے کو محاذآرائی سے بچائیں۔اسلام آباد اور دہلی کی اسٹیبلشمنٹ روایتی مائنڈ سیٹ کی پروردہ ہے۔وہ کوئی نیا خیال یا تجربہ کرنے کے موڈ میں ہے نہ کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ۔یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے میں آباد کروڑوں لوگوں کی بہبود اور سلامتی کی خاطر جرأت مندانہ اور تاریخ سازفیصلے کریں۔آئے روزکنٹرول لائن پر ہونے والے حادثات کی روک تھام کے لیے میکانزم تیارکرائیں ۔ یہاں تعینات فوجوں کو چند کلومیٹر پیچھے لے جایاجاناچاہیے تاکہ براہ راست ٹکرائو کا امکان محدود ہوجائے۔ بھارتی میڈیا، بھارتیہ جنتا پارٹی اور سربراہی ملاقات کی منسوخی کے مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف اور من موہن سنگھ کو اگلے ماہ نیویارک میں نہ صرف ملاقات کرنی چاہیے بلکہ کچھ بڑے اقدامات کا بھی اعلان کرنا چاہیے تاکہ خطے کا ماحول بدلے ۔ بصورت دیگر اسٹیبلشمنٹ اور انتہاپسند مل کر اس خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیں گے جس کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں