متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کا کراچی میں امن بحال کرنے کی خاطر فوج بلانے کا مطالبہ نیا نہیں۔وہ پہلے بھی ایسے مطالبات کرتی رہی ہے۔ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں دو مرتبہ عسکری قیادت سے اپیل کی کہ وہ ملکی زمام کار سنبھال لے اور اس کی مدد سے ملک کی تقدیر بدل دے لیکن ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے مطالبے کو پذیرائی نہیں بخشی گئی۔کراچی کے تاجروں کی جانب سے اس مطالبے کی حمایت سمجھ میں آتی ہے لیکن ایم کیوایم‘ جو جمہوریت اور لبرل ازم کی علمبردار ہے‘ کی طرف سے ایسے مطالبات چہ معنی دارد؟ فوج بلانے کا تجربہ پچاس کی دہائی میں شروع ہوا اور اب تک بار بار کیا جاتارہا ہے۔کہتے ہیں کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔ہمارا بھی یہی حال ہے۔ اکثر سول انتظامیہ کی ناکامی کی صورت میں لوگ فوج بلانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔فوج کی اپنی ساکھ اور ہیبت ہے ۔ وہ وقتی طور پر مسائل کے انبار میں کمی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔انتظامی معاملات میں بہتری نظرآنے لگتی ہے؛ تاہم جب وہ رخصت ہوتی ہے تومسائل پہلے سے زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔سول انتظامیہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوچکی ہوتی ہے۔ فوج کا کام امن و امان کے مسائل حل کرنا ،بھتہ خوروں کو گرفتار کرنا اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنا نہیں‘سرحدوں کا دفاع ہے۔افغانستان کی سرحد پر جو حالات ہیں سب کے سامنے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے تمام تر لچک دار رویئے کے باوجود کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی میں کمی نہیں آرہی۔ بلوچستان میں شورش برپاہے ۔آئے رو ز شہریوں پرطالبان کا قہر نازل ہوتاہے۔ فوج ان مسائل سے نمٹے یا کراچی میں سرگرم مافیا کے خلاف کارروائی کرے۔یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسے کراچی میں فوجی آپریشن کے لیے قانونی تحفظ درکار ہوگا ۔ ملزموں کو جلد ازجلد کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے وہ اپنی عدالتیں قائم کرنا چاہیے گی جبکہ ملک میں عدالتی نظام موجود ہے اس لیے فوجی عدالتوں کا تصور محال ہے۔ اگر آپریشن کے دوران بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے تو ایسے مقدمات سول عدالتوں میں زیر سماعت نہیں آئیںگے۔ ظاہر ہے یہ سارے معاملات قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ عالم یہ ہے کہ اسلام آباد میں ناٹک رچانے والے سکندر کو قابو کرنے کے لیے بھی فوج طلب کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ اگر تمام مسائل کا امرت دھارا فوج ہے تو پھر پولیس اور سول انتظامیہ پر کاہے کو روپیہ لٹایا جاتاہے؟اسلام آباد پولیس کے آئی جی نے انکشاف کیا کہ پولیس کے پاس سکندر کو قابو کرنے کے لیے ایک اسٹین گن تھی‘ وہ بھی خراب نکلی۔چند برس قبل اسلام آباد میں وزارتِ تعلیم کی ایک کثیر منزلہ عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔ پتہ چلا کہ اربوں روپے کا سالانہ بجٹ رکھنے والی کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیرانتظام چلنے والے فائر بریگیڈ کے پاس اتنی بڑی عمارت میں آگ بجھانے والے آلات ہیں‘ نہ صلاحیت۔ یہ حال اسلام آباد کا ہے جہاں صدر اور وزیراعظم فروکش ہیں اور مالی وسائل بھی بیش بہا ہیں۔ صوبائی دارالحکومتوں اور چھوٹے شہروں کا کیا حال ہوگا اس پر گفتگو ہی عبث ہے۔ نواز شریف نے قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں انتظامی مشنری کی ناکامی اور نااہلی کا جو نوحہ پڑھا وہ کوئی لفاظی نہ تھی۔چودھری نثار علی خان نے ایک دفعہ کہا :ایمان دار اوراہل افسروں کی تلاش ناممکن ہوچکی ہے۔ ہر کوئی بکنے کو تیار ہے سوال صرف قیمت کے تعین کاہے۔اگرچہ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی تین ماہ ہی ہوئے ہیں لہٰذ ااسے موجودہ مسائل کا دوش دینا درست نہیں لیکن اسے جنگی بنیادوں پر ملک کی انتظامی مشینری کو سدھارنے اور فعال بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ سنیارٹی کے روایتی تصورات متروک ہوچکے ہیں۔ دیانت دار اور متحرک افسروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جائے۔ خوشامدی اور بالادست طبقات کے رشتے دارافسروں کی چھٹی کرائی جائے۔ وزیراعظم اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے حکام کی حوصلہ افزائی کریں ۔انہیں قبل ازوقت ترقی سے نوازیں۔مشکل وقت میں ان کی پشت پر کھڑے ہوں۔خود دبائو کا مقابلہ کریںلیکن افسروں کو حالات کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں۔سرکاری افسروں کو شکایت ہے کہ سیاستدان انہیں خطرات میں جھونک دیتے ہیں۔خود مشکل حالات اور چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرتے۔وزیراعظم سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں تو چند ماہ میں یہی لولا لنگڑا نظام نتائج دینا شروع کر دے گا۔ محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جدوجہد‘ قربانیوں اور حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوصف ایم کیوایم مسائل کا حل سیاسی طریقوں سے تلاش نہیںکر تی بلکہ اکثر امور پر ایسا موقف اختیار کرتی ہے جس پر وہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اس کی حلیف ہے اور حریف بھی۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور دونوں میں باہمی مسابقت بھی جاری ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی سیاسی فہم اور ضرورت نے دونوں جماعتوں کو مختلف نشیب وفراز کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔ لیکن کراچی اور حیدرآباد کو عملاًاس اتحاد سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ شہر نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوچکاہے۔شہرکے بڑے حصے پر مافیا کا قبضہ ہے‘جسے بعض سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی دستیاب ہے۔رینجرز آپریشن کرتے ہیں تو جرائم پیشہ افراد زیر زمین چلے جاتے ہیں۔ دبائو کم ہوتاہے تو دوبارہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ کراچی کے مسائل کا کوئی ریڈی میڈ حل نظر نہیں آتا۔فوجی آپریشن ہو یا رینجرز وہ شہر میں وقتی طور پر امن بحال کرسکتے ہیں لیکن مستقل امن کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتے۔پائیدار امن کے لیے سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو مسلح گروہوں کی سرپرستی بند اور ان سے لاتعلقی اختیار کرنا ہوگی ۔پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہوگا۔ انتظامیہ میں اچھے اور نڈر افسروں کو تعینات کرنا ہوگا تاکہ وہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ عوام نے پیپلزپارٹی کو سندھ میں حکومت دے کر اہلیت ثابت کرنے کا ایک نادر موقع دیا ہے۔ پورا ملک اس کی کارکردگی پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ایک شریف انسان ہیں لیکن وہ سندھ کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔آصف علی زرداری کو منصب صدار ت سے فراغت کے بعد کراچی اور سندھ میں حالات کی بہتری کے لیے سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے ۔پیپلزپارٹی کو حالیہ ضمنی انتخابات میں ملنے والی کامیابی اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عوام میں پارٹی کی گہری جڑیں موجود ہیں۔کراچی میں امن و امان کا قیام یقینی بنا کر‘ بھتہ خوروں اور مختلف مافیا سے عوام کو نجات دلاکر پیپلزپارٹی قومی سطح پر اپنا وجود ایک بار پھر منواسکتی ہے۔