بھارت کی داخلی سیاست اور بدلتے رجحانات پر نظر رکھنے والے مبصرین کو عرصے سے معلوم تھا کہ بھارتی فوج کو بھی سیاسی معاملات میں مداخلت ، دفاعی اور خارجہ پالیسیوں میں اپنی رائے مسلط کرنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ لیکن ہندوستان ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ نے لنکا ہی ڈھادی۔رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے دور میں ریاست جموں کشمیر کے ایک سینئر وزیر کو رقم فراہم کی گئی تاکہ وہ عمرعبداللہ کی حکومت گرانے کے لیے فوج کی مد د کریں۔ اخبار کے مطابق انہوں نے پاکستان میں تخریب کاری کے لیے ایک خصوصی فورس بھی تشکیل دی جو صرف آرمی چیف کو جوابدہ تھی۔جنرل سنگھ بجائے شرمندگی کے بڑے دھڑلے سے اپنا دفاع کرتے ہیں: جموں وکشمیر میں وزرا کو جذبہ خیرسگالی کے تحت ریاست میں استحکام پیدا کرنے کے لیے رقوم فراہم کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں اور فوج آزادی کے بعد سے ایسا کرتی آئی ہے۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں پس پردہ ایسی کئی اور کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے بھارتی فوج میں انتہاپسندگروہوں کی سرپرستی کی جارہی ہے تاکہ انہیں ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انتہاپسندتنظیموں کو سرکاری سرپرستی میں تربیت دی گئی تاکہ وہ پرتشدد کارروائیاں کریں۔سمجھوتہ ایکسپریس میں 68پاکستانی شہریوں کو شہید کرنے کے پس منظر میں جس انتہاپسند گروہ کا ہاتھ نکلا‘اسے بھارتی فوج کے ایک سابق کرنل پراساد پروہت نے تربیت دی تھی۔یہی کرنل بعدازاں مالیگائوں بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار بھی ہوا۔کئی دیگر واقعات میں بھی سابق فوجی افسروں کے ملوث ہونے کے شواہد بھارتی ذرائع ابلاغ میں چھپتے رہتے ہیں۔خاص کر جموں میں انتہا پسندگروہوں کی سر پرستی کی جاتی ہے تاکہ مسلمان اقلیت کو خوف زدہ رکھا جاسکے۔جموں میںبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو فوج کا سیاسی ونگ سمجھا جاتاہے۔ملک گیر سطح پربی جے پی کو اُٹھانے میں بھی فوج کے سابق جنرلوں کا ہاتھ ہے۔اب بھی بی جے پی کو فوج کی بالواسطہ حمایت حاصل ہے کیونکہ فوج اور بی جے پی کا قومی سلامتی کا تصور یکساں ہے۔ مثال کے طور پر چند دن قبل بہار میں تین سو سابق فوجیوں نے‘ جن میں میجر جنرل اور کرنل رینک کے افسر شامل ہیں‘ بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ خود جنرل وی کے سنگھ نے چند دن پہلے بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کی۔بی جے پی نے کھل کرجنرل سنگھ کے سیاستدانوں میں روپیہ تقسیم کرنے اور پاکستان کے اندر خفیہ سرگرمیاں کرنے کے اقدامات کا دفاع کیا۔ نہروخاندان کے پس منظر میں چلے جانے کے بعد بھارتی فوج بتدریج دفاعی اور خارجہ پالیسی بالخصوص پاکستان کے ساتھ معاملات میں کلیدی سٹیک ہولڈر بن گئی ۔بی جے پی کے دور میں فوج کے نقطہ نظر کو خصوصی اہمیت دی جانے لگی۔ وہ زمانے لد چکے جب بھارتی آرمی چیف اپنے وزیردفاع کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہتاتھا۔ اب بھارت کے سرکاری اسٹرکچر میں فوج کے نقطہ نظر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ فوج نے پاکستان اور کشمیر کو بنیاد اور عذر بنا کر قومی معاملات بالخصوص سیاسی امور میں مداخلت کی راہ نکالی۔فوج نے پنجاب اور کشمیر میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کے خلاف کامیاب معرکہ آرائی کی۔پنجاب میں اسے پولیس کی مدد سے نمایاں کامیابی ملی۔متعدد وجوہات کے باعث کشمیر میں بھی عسکریت کمزور ہوگئی جس کا کریڈٹ فوج لیتی ہے ۔سیاچن پر بھی بھارتی فوج کو اپنے مدمقابل پاکستان پہ تزویراتی برتری حاصل ہے۔چنانچہ اب بھارتی فوج امن عمل یعنی پیس پراسیس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے کیونکہ امن عمل اس کی ضرورت نہیں رہا۔ پاکستان اور بھارت کئی بار سیاچن پر معاہدے کے قریب پہنچے لیکن اُن کے فوجی جنرلوں نے مفاہمت کی کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔ان کا نقطہ نظر ہے کہ جن علاقوں پر ان کا قبضہ ہے وہ محض پاکستان کی خوشنودی کی خاطر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ علاوہ ازیں وہ پاکستا ن پر بھروسہ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کب معاہدہ کی خلاف وزری کرے اور ان علاقوں پر قبضہ کرلے۔اس صورت میں کون ذمہ دار ہوگا؟کشمیر میں حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکراتی عمل کے التوا اور کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات پر بھارتی حکومت نے جو بے لچک موقف اختیار کیا اس کے پس منظر میں فوج کا ہاتھ کارفرما ہے۔فوج کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کشمیر میں اس نے عسکریت پسندوں کو شکست دے دی ہے۔حریت کانفرنس کی سرگرمیاں محدود کردی گئی ہیں۔ زمینی حقائق بدل چکے ہیں لہٰذا بات چیت کس لیے؟ کنٹرول لائن پر ہونے والی حالیہ کشیدگی کو بھی بھارتی فوج نے غیر ضروری ہوا دی۔بھارت آرمی چیف بکرم سنگھ نے اپنے کمانڈروں کو حکم دیا کہ وہ جب جہاں چاہیں اپنی مرضی کے ساتھ کارروائی کرسکتے ہیں۔بعدازاں انہوں نے ایک میٹنگ میں اپنے عسکری کمانڈروں سے استفسار کیا کہ انہیں کنٹرول لائن پر جارحانہ جواب دینے سے کس نے روکا ؟ کنٹرول لائن کے معاملے کو اس قدر اُچھالا گیا کہ پاکستان او ربھارت کے درمیان موجود سازگار فضا بری طرح متاثر ہوگئی۔ اکثر اوقات بھارتی جنرل پاکستان کے خلاف بیانات جاری کرتے ہیںاورکشمیر کے داخلی حالات کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مرکزی حکومت نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا لیکن بھارتی فوج نہیں مانی۔ایک جنرل نے کہا: کالے قوانین کی فوج کے لیے وہی حیثیت ہے جو عیسائیوں کے لیے انجیل کی ۔بے بسی سے عمر عبداللہ نے تسلیم کیا کہ فوج ان قوانین کو تبدیلی نہیںہونے دیتی ۔یہ قوانین فوج کو بے پناہ اختیارات دیتے ہیں ۔وہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد قراردے کرہلاک کرسکتی ہے۔ اسے ان اقدامات پر عدالتی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی فوج میں اختیار ات عوام کی منتخب حکومت کو منتقل کرنے کا رجحان تقویت پارہاہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کل جماعتی کانفرنس میں بڑے انکسار سے کہا:فوج کی کوئی پالیسی نہیں۔ سیاسی قیادت جو بھی حکمت عملی وضع کرے گی وہ اس پر عمل کی پابندہو گی۔ ماضی میں اس طرح کا رویہ عنقا تھا ۔پشاور میں عیسائیوں کے بے رحمانہ قتل اور قبل ازیں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت کے باوجود فوجی قیادت نے بے مثال تحمل کا مظاہر ہ کیا۔چھ برس قبل آئی ایس آئی میں قائم سیاسی سیل کی سرگرمیاں روکی گئیں۔شدت پسندوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا کیاگیا حتیٰ کہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں میں داخلی انتہاپسندوں کو سب سے بڑا خطرہ قراردیا گیا۔افغانستان میں مداخلت کا سلسلہ روکا گیا۔طالبان کے امریکا اور صدر حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی گئی۔کنٹرول لائن پر تنائو کے باوجود کشیدگی کو بڑھنے نہیں دیا۔ بھارت کے سیاستدانوں اور بالخصوص حکومت کو فوج کی خارجہ پالیسی میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور داخلی سیاست میں دلچسپی پر کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ اس کی جمہوریت کا حشربھی پاکستان جیسا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ کارگل کے دوران وزیراعظم نواز شریف امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کررہے تھے تو انہوں نے شکوہ کیا کہ آپ (پاکستان) نے جوہری ہتھیار وں کو حرکت دی اور ان کے استعمال کی منصوبہ بندی کی۔ نواز شریف یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے کیونکہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں اس کی خبر ہی نہ دی تھی۔ بھارت کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ غیر ریاستی گروہوں کی سرپرستی ریاستوں کے وجود کو ہلا دیتی ہے؛ بلکہ انہیں دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔