"IMC" (space) message & send to 7575

ضرورت صرف سیاسی عزم کی ہے

وزیراعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے مابین قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ کی تلاش کے لیے ملاقاتیں جاری ہیں۔ تاحال وہ کسی نام پر متفق نہیں ہوسکے؛ چنانچہ قابل قبول شخصیت دریافت کرنے کی مشق جاری ہے۔اٹھارہ کروڑ آبادی والے اس ملک میں ایسی بے باک شخصیات کی کمی نہیں جن کی دیانت اور قابلیت شک وشبے سے بالاتر ہو‘ جو اس عہدے کے ساتھ انصاف کرنے کی صلاحیت ہی نہیں بلکہ قومی سیاست اور سماج میں پائے جانے والے تعفن کو صاف کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی دشواری یہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت کی تلاش میںہیں جو دونوں جماعتوں کی قیادت کے ساتھ نرم خوئی سے معاملہ کرسکے۔گڑے مردے نہ اکھاڑے تاکہ ’’بھائی چارے‘‘ کی موجودہ فضا برقراررہے۔ عام پاکستانی اس صورتحال سے تنگ آچکا ہے۔ وہ تبدیلی کے لیے بے چین ہی نہیں بلکہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہاہے۔ بے چینی میں پھیلائو کا ایک بڑا سبب عالمگیریت اور پل پل کی خبریں فراہم کرنے والا میڈیا بھی ہے۔آج ہر شہری جانتاہے کہ دنیا میں کیا سیاسی اور سماجی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک کا چلن کیاہے؟وہاں کیا سیاسی اور سماجی روایات اور رویّے پنپ رہے ہیں۔لوگ تقابلی جائزے لیتے ہیںتو ان کی مایوسی غصے اور نفرت میں ڈھل جاتی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان کے گردونواح سے ایسی خبریں آئیں جنہوں نے ایک بار پھر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے اور اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چند ہفتے پہلے نہروخاندان کے تخت وتاج کے وارث اور بھارت کے متوقع وزیراعظم راہول گاندھی نے ایک بیان دے کر قومی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ۔انہوں نے بدعنوان سیاستدانوں کو تحفظ فراہم والے ایک قانون کو کوڑے دان میں پھینکنے کے لائق قراردے کر مسترد کردیا حالانکہ اس قانون کی مرکزی کابینہ منظور ی دے چکی تھی ۔راہول کے اس بیان نے وزیراعظم من موہن سنگھ اورحکمران جماعت کانگریس کو سخت خجالت میں مبتلا کیا ۔ اس کے باوجود راہول کا نقطہ نظر قبول کرلیا گیا اور ایسی قانون سازی روک دی گئی جو بدعنوان افراد کے راستہ کے کانٹے چُنتی اور انہیں پارلیمنٹ کا رکن رہنے کی اجازت دیتی۔ حال ہی میںبہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد یادوکو 17سال پرانے 950کروڑ روپے کے چارہ اسکینڈل میں 5برس قید کی سزا اور 25لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا گیا۔لالوکی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم ہوگئی ۔ وہ آئندہ 6برس تک انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل ہوگئے۔بہار کے ایک اور سابق وزیراعلیٰ جگن ناتھ مشرا کو بھی چار سال قید کی سزاد دی گئی۔ ان بھارتی راہنمائوں کو ملنے والی سزائوں کی سمجھ آتی ہے کیونکہ وہ قومی خزانہ لوٹنے میں ملوث پائے گئے لیکن امریکا میں دو فوجی افسروںمیجر جنرل چارلس گرگانوس اور میجر جنرل گریگ سٹرڈیوینٹ کو قبل ازوقت ریٹائرڈ کردیا گیا کیونکہ وہ افغانستان میں فوجی اڈے کے دفاع میں ناکام رہے ۔ 2012ء میں طالبان کے ایک فوجی کیمپ پر حملے کے دوران 2امریکی فوجی ہلاک، 8 زخمی اور 6 جنگی طیارے تباہ ہوگئے تھے۔ملازمت سے سبکدوش کیے جانے والے افسروں پر محض یہ الزام تھا کہ وہ طالبان کے خطرے کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام رہے اورکیمپ کی سکیورٹی کا خاطر خوا ہ انتظام نہ کرسکے۔ یہ تو جمہوری ممالک کی مثالیں تھیں جہاں قانون کی حکمرانی‘ جوابدہی اور معمولی غلطیوں پر جرمانہ یاسزا دینے کا رواج عام ہے۔چین‘ جہاں کیمونسٹ پارٹی کی حکومت ہے‘ میں بھی نہ صرف لوگوں بلکہ حکمران جماعت اور عسکری اداروں سے وابستہ افرادکو بھی اپنے کیے کی سزاملتی ہے اور اس کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو احساس ہو کہ مجرموں کے ساتھ ریاست کوئی نرمی نہیں برتتی اور بلاامتیاز احتساب کیا جاتاہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے سابق رکن اورچونگ چِنگ جیسے بڑے شہرمیں پارٹی کے سربراہ رہنے والے بو ڑیلائی کے خلاف رشوت، غبن اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ثابت ہو نے پر انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے۔ان پر الزام تھا کہ کچھ کاروباری شخصیات نے ان کے اہل خانہ کو ساڑھے تین ملین ڈالر کے برابر رشوت نقد رقم یا تحائف کی صورت میں ادا کی۔بوڑیلائی کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی تھی کہ وہ مستقبل میں ایک بڑے سیاسی راہنما کے طور پر ابھریں گے لیکن کرپشن کے مقدمات نے ان کا سیاسی مستقبل تباہ کردیا۔چند ہفتے پہلے ایک چینی عدالت نے ایک فوجی جنرل کے صاحبزادے کو زنابالجبر کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی ۔ پیپلز لبریشن آرمی کے اس جنرل کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ ٹی وی پر ملی نغمے گا نے کی وجہ سے ملک گیر شہرت بھی حاصل ہوئی۔ اعلیٰ عہدہ اور شہرت صاحبزادے کو بچانے میں کام نہ آسکے۔ اکثر ممالک اپنے شہریوں کو قانون کا پابند بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے بتایا کہ اسے محض اس وجہ سے امریکا کا ویزا نہ ملا کہ وہ ٹریفک چالان جمع کرائے بغیر پاکستان آگیا تھا۔چند برس بعدجب وہ دوبارہ ویزا لینے امریکی سفارت خانے گیا تو اسے بتایاگیا کہ پہلے چالان جمع کرائو‘ پھر دوبارہ ویزے کی درخواست دینا۔ چند دن پہلے برطانیہ کے وزٹ ویزے کی درخواست بھر رہاتھا ۔یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ درخواست میں یہ تک پوچھا جاتاہے کہ آپ ٹریفک قوانین کی خلاف وزری میں تو ملوث نہیں رہے ۔ٹیکس کی ادائیگی کے بعد باقی کتنی آمدن ہے۔گزشتہ دس برس میں دنیا کے کتنے ممالک کی سیاحت کی اور اخراجات کس نے ادا کیے؟اس طرح کے غیر متوقع سوالات پر جھنجھلاہٹ بھی بہت ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے اب دنیا کے ساتھ چلنے کا یہی قرینہ ہے۔ پاکستان کی نوکر شاہی کی اکثر بھد اڑائی جاتی ہے حالانکہ سرکاری افسروںکی کمزوری اور نالائقی کا ایک بڑا سبب ان کے کاموں میں بے جا سیاسی مداخلت ہے۔قدم قدم پر ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ کراچی میں پولیس کو آزادی سے کام کرنے کا موقع ملا تو بھتہ مافیا بھاگ رہاہے۔کچھ جیلوں میں سڑرہے ہیں۔کراچی کی رونقیں لوٹ رہی ہیں۔یہ محض اس لیے ممکن ہوا کہ وزیراعظم، وزیرداخلہ اور عسکری قیادت نے کراچی پولیس اور رینجرز کو نہ صرف بھرپور تعاون فراہم کیا بلکہ انہیں آزادی اور اعتماد کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی دیا۔ انہوں نے چند ہفتوں میں نتائج دینا شروع کردیئے۔ قومی احتساب بیورو کو ایک ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو سیاسی مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر محاسبے کی بے نظیر مثالیں قائم کرسکے۔جو بھی مجرم ہو اسے سزا ملے خواہ اس کا کوئی بھی پس منظر کیوں نہ ہو۔یہی وہ واحد راستہ ہے جو پاکستان کو نہ صرف دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑاکرسکتاہے بلکہ اسے خطے کا خوشحال ملک بھی بنا سکتاہے ۔ضرورت صرف سیاسی عزم کی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں