افسوس! ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام نہ مل سکا۔ اس کے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کے دل دھڑکے۔لمبے لمبے سجدے کیے گئے۔دعائیںمانگی گئیں ۔منتیں مانیں گئیں۔ اس مشق کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک بار پھرملک گیر سطح پر ملالہ اور اس کے خیالات زیربحث آئے۔ ملک کے طول وعرض میں بحث مباحثہ کا سلسلہ چلا‘ حتیٰ کہ قومی دھارے سے کٹے غاروں میں چھپے ‘ طالبان نے بھی اپنا موقف دہرایا کہ وہ اس معصوم بچی کا چراغِ حیات گل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔اس طرح ان کے مذموم عزائم اور سیاسی حکمت عملی نہ صرف ایک بار پھر بے نقاب ہوئی بلکہ ان کے حمایتیوں کی قوتِ استدلال بھی کند ہوئی ۔ کل شب گئے اسلام آباد کے ایک چائے خانے میں گفتگو جاری تھی کہ ایک عزیز دوست نے استفسار کیا:تم ملالہ کے حامی کیوں ہو؟ترنت جواب دیاکہ وہ طالبان اور ان کے طرزِحیات کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ملالہ کا کارنامہ یہ ہے کہ ایک معصوم بچی نے قوم کوبہادری کا درس اورجدوجہد کا حوصلہ دیا۔ مذہب کی من مانی تعبیر کے نام پر کیے جانے والے جبرو استحصال کے خلاف معرکہ آراہونے پر آمادہ کیا۔خوف ودہشت کی نفسیاتی فضا کو پاش پاش کیا۔یہی نہیں بلکہ علم کی روشنی سے اندھیروں کے سوداگروں کے خلاف مزاحمت اور جہاد کی راہ دکھائی۔ کیا ملالہ کا یہ کنٹری بیوشن کم ہے کہ اس نے سماج کے ایک بہت بڑے حصے کو بیدار اور متحرک کردیا۔قوم کو تذبذب کی کیفیت سے باہر نکالا۔ شہریوں کو یکسوئی عطا کی ۔انہیں آمادہ کیاکہ وہ ایک زندہ اور متحرک قوم کی طرح سوچیں اور ردعمل کریں۔سوال کریں۔رٹے رٹائے فلسفہ کو چیلنج کریں۔اسے استدلال کی کسوٹی پر پرکھیں۔طالبان کے طرزِزندگی اور فلسفۂ حیات کا ناقدانہ جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ وہ اپنی ریاست (پاکستان ) کے ساتھ کھڑے ہیں یا حملہ آوروں کے ساتھ۔ ملالہ بتدریج ایک تحریک کا عنوان بن گئی ہے جو تعلیم ،اعتدال پسندی اور جبر کے نظام کے خلاف مزاحمت کا مجسمہ ہے۔ ملالہ پر نکتہ چینی کرنے اور اسے اغیار کا ایجنٹ ثابت کرنے پر ہر دم تلے مردانِ کار کے ذہنی اور علمی دیوالیہ پن کا عالم یہ ہے کہ ایک انگریزی معاصر میں ملالہ یوسف زئی پر ایک طنزیہ کالم لکھا گیا جس میں سازشی تھیوری کے پرچارکوںکی بھد اڑائی گئی۔ لکھنے والے اعلیٰ پائے کے لیکھک ہیں۔ان کے قلم میں بلا کی روانی اور کاٹ ہے۔مشکل سے مشکل بات بڑے قرینے سے کرتے ہیں۔یارلوگوں نے مضمون پڑھے یا سمجھے بنا ہی اسے پڑے پیمانے پر پھیلادیا۔ کہا گیا ملالہ کی حقیقت کا پردہ چاک ہوگیا۔ ملالہ کی خوش قسمتی کہ اس کے مخالفین نے جس ہتھیار سے اسے مطعون کرنے کی کوشش کی وہ اس کی تائیدوتحسین کرتا ہے اورمعترضین کے اعتراضات کا مسکت جواب ہے ۔ مغرب میں ملالہ کی بے نظیر پذیرائی پر اعتراض کا ایک بڑا سبب مغربی تہذیبی اقدار سے ناآشنائی بھی ہے۔تعلیم کا حق،عورتوں کے مساوی حقوق اور اظہار رائے اور فکر کی آزادی وہ بنیادی اقدار ہیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت اٹھائی گئی۔دنیا بھر میں ان اقدار کی بالادستی کے لیے مصائب برداشت کرنے والوں کی نہ صرف قدر کی جاتی ہے بلکہ انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتاہے تاکہ دنیا کے دوسرے لوگ انہیں مشعل راہ بنائیں۔اپنے اپنے معاشروں میں ان عالمگیرانسانی اقدار کی بالادستی کے لیے کوشش کریں۔مثال کے طور پر 1988ء میں یورپی پارلیمنٹ نے سائنسدان آندرے سخاروف کی انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار رائے کے سلسلے میں کی جانے والی گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے لیے آندرے سخاروف ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔پہلا انعام نیلسن منڈیلا کو ملا ۔ امسال یہ ایوارڈ ملالہ کے نام ہوا۔ برما کی فوجی جنتا کے خلاف مزاحمت کرنے والی آنگ سان سوچی کو امریکا اور مغربی دنیا کی ہردلعزیز شخصیت قراردیا جاتاہے۔گزشتہ برس امریکا کی دوسری بار صدارت سنبھالنے کے بعد صدر بارک اوباما نے سب سے پہلا غیر ملکی دورہ برما کا کیا جہاں وہ چھ گھنٹے رکے لیکن اس دوران اپنی اہلیہ کے ہمراہ آنگ سان سوچی سے ملاقات کے لیے ان کی اقامت گاہ پر گئے۔جی ہاں ان کی رہائش گاہ پر جاکر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہدکرنے والوں کی کیا عزت ومرتبہ ہے۔ اساطیری شہرت کی حامل فلسطینی راہنما لیلیٰ خالد کو ستّر کی دہائی میں مزاحمت اور بہادری کی علامت تصورکیا جاتاتھا۔انہوں نے اسرائیلی جہاز اغوا کیا اور خو د جیل بھی کاٹی۔کہاجاتا ہے کہ اس زمانے میں لیلیٰ خالد کی طلسماتی شخصیت اور جادوبیانی نے آدھی عالمی رائے عامہ کو فلسطینیوں کاہمنوا بنایا۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں۔ مغربی رائے عامہ نے ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔انہیں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار کہاگیا ۔کانگریس ہی نہیں بلکہ ہر عالمی فورم پر ان کی بات توجہ سے سنی جاتی تھی۔انہیں بھی کئی ایک ایوارڈ دیئے گئے۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ ملالہ بی بی سی کے لیے ڈائری نہیں لکھتی تھی بلکہ اس کے والد یا بی بی سی کا نمائندہ لکھتاتھا۔میرے نزدیک یہ بے مقصد اعتراض ہے۔اہمیت ڈائر ی لکھنے والے کی نہیں بلکہ ڈائر ی میں لکھے جانے والے پیغام کی ہے ۔وہ پیغام مثبت اور پاکستان کے مفاد میں تھا۔ تصادم زدہ خطوں میںبسااوقات بچے اور عورتیں حالات کا رخ بدلنے اور رائے عامہ کا ضمیر جھنجوڑنے کے لیے مردوں سے زیادہ اہم کردار اداکرتی ہیں۔ بچے اور عورت امن اور محبت کی علامت ہیں۔ ملالہ کے والد کو خراج تحسین پیش کیا جاناچاہیے۔وہ ایک بہادر باپ ہیں۔اس دیس کی ہر بچی ایسا باپ پانے کی آرزو کرتی ہے۔ ملالہ کے ساتھ پیش آنے والے ایک اتفاقی حادثے نے اسے عالمگیر شہرت دی ۔وہ دنیا میں تعلیم اور روشن خیالی کی علامت بن چکی ہے۔اسے دخترِ پاکستان کا لقب دیا جانا چاہیے۔وہ پاکستان کی طاقت ہے۔ملالہ کی مدد سے ہزاروں نہیں لاکھوں بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کیا جاتاہے۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے درست کہا کہ ملالہ نے پاکستان کا ایک مختلف چہرہ دنیا کو دکھایا۔ اسے ایک نئی شناخت دی۔ پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے کی ضرورت آج جتنی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔آصف علی زرداری نے محترمہ فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا۔حنا ربانی کھر کو وزیرخارجہ اور شیری رحمان کو امریکا میں پاکستان کا سفیر۔ان خواتین نے ثابت کیا کہ وہ یہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی نہ صر ف اہل تھیں بلکہ انہوں نے مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنت اور لیاقت کا مظاہرہ کیا۔نون لیگ کی حکومت کو بھی چاہیے کہ ملک عالمی سطح پر شناخت کے جس خطرناک ترین بحران سے دوچارہے اسے باہر نکالنے کی تدبیر کرے۔قیادت کا کام رجحان سازی ہے نہ کہ ہجوم کے پیچھے بے زبانوں کی طرح چلتے رہنا۔وہ اجتماعی مفاد میں مشکل فیصلے کرتی ہے۔خطرات کا سامنا کرنے سے گھبراتی نہیں بلکہ مردانہ وار ان کا مقابلہ کرتی ہے۔