ایران اور عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے مابین جوہر ی پروگرام پر ہونے والی مفاہمت نہ صرف خطے کی سیاست اور معاشی سرگرمیوں پر دور رس اثرات مرتب کرے گی بلکہ موجودہ سیاسی اور جغرافیائی منظر نامہ بھی یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ایران کی عالمی سیاست میں تنہائی کے باعث پاکستان کو لگ بھگ گزشتہ تین عشروں کے دوران سٹرٹیجک برتری حاصل رہی جو اب برقرار نہیں رہے گی۔1979ء میں جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان کے قرب وجوار میں سٹرٹیجک تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انقلاب کے بعد امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والی ایرانیوں کی مخاصمت نے خطے کا پورا ماحول بدلا۔ ایران جو خطے میں امریکہ کا کلیدی حلیف تھا‘ نہ صرف اس کا حریف بن گیا بلکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے چیلنج بن کر ابھرا۔ ایرانی قیادت کی طرف سے انقلاب برآمد کرنے کے اعلان کے نتیجے میں ایران اور عرب ممالک کے مابین براہ راست محاذآرائی شروع ہوگئی۔
1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی۔ پاکستان کے بھرپور تعاون سے شروع ہونے والے جہاد اور سوویت یونین کی شکست وریخت کے بطن سے نیو ورلڈآرڈر نے جنم لیا۔ سوویت یونین میں شامل کئی ممالک آزاد ہوگئے جنہیں تجارتی راہ داری کی خاطر پاکستانی بندرگاہ پر انحصار کرنا پڑا‘ بالخصوص وسط ایشیائی ممالک میں کھربوں ڈالر کے زیر زمین خزانوں نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا لیکن انہیں عالمی مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے پاکستان اور ایران کے سوا کوئی راستہ میسر نہ تھا۔ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے باعث وسط ایشیائی ممالک کے گیس اورتیل عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے خواب ادھورے رہ گئے۔ مغرب نہ صرف ایران کے راستے یا اس کے ساتھ ہر قسم کے تجارتی اور کاروباری تعلقات کے خلاف تھا بلکہ وہ ایران پر روز بہ روز اقتصادی پابندیاں کا شکنجہ بھی کستارہا۔
فطری طور پر پاکستان واحد متبادل بن کر ابھرا جس کے پاس بندرگاہ اور جغرافیائی قربت بھی تھی۔ افسوس!پاکستان خطے میں موجود اقتصادی امکانات سے استفادہ کرنے کا قابل عمل منصوبہ وضع نہ کرسکا۔گزشتہ 34برس تصادم اور محاذآرائی میں ضائع ہوگئے۔اب افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ء ہورہاہے لیکن بظاہر ایسے امکانات محدود ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے گا۔
ایرانی صدر حسن روحانی اپنے پیش رو کے برعکس عملیت پسند سیاستدان ہیں۔وہ پہلے ہی اصلاح پسند کے طور پر معروف تھے اور روایتی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے خواہاں بھی۔ان کی الیکشن میں کامیابی کے پس منظر میں ایران کی نوجوان نسل کا بڑا ہاتھ ہے ‘جو سابق صدرمحمود احمدی نژاد کی سخت گیر پالیسیوں سے عاجز آچکی تھی اور ایران کو دنیا میں مزید تنہا کرنے کے خلاف تھی۔ علاقائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے اندر مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات کو ازسر نو استوار کرنے اور ملک کو تیزی سے ترقی دینے کا جذبہ بہت شدید ہے۔ایران میں اب وہ لابی غالب آتی جارہی ہے جوعالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی علمبردار ہے۔ ایران کا شاندار محل وقوع ‘ رسل ورسائل کا بہترین اور جدید نظام وسط ایشیائی ممالک ‘افغانستان اور باقی دنیا کے درمیان راہداری فراہم کرنے کے لیے آئیڈیل تصورکیاجاتاہے۔اس کی بندرگاہیں دنیا کوپورے خطے سے آسانی سے مربو ط کرسکتی ہیں۔خاص طور پر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے لیے چاہ بہار کی بندرگاہ کراچی اور گوادر کا بہترین متبادل پیش کرتی ہے۔اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بعد چاہ بہار علاقائی تجارت کا مرکز بن سکتا ہے۔علاوہ ازیں ایران داخلی طور پر ایک مضبوط ملک ہے۔ امن و امان کی صورت حال تسلی بخش اورریاست کی عملدار ی (رٹ) چہار سو قائم ودائم ہے۔ دہشت گردوں کے لیے ملک میں کوئی جائے مفر نہیں۔دنیا کو اور کیا چاہیے۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ خود یورپ اور امریکہ کی اقتصادیات ڈاواں ڈول ہیں۔ چند ہفتے قبل بھارت میں ایشیائی اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ یورپ‘ مشرق بعید اور جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت کے ساتھ کاروبار ی روابط بڑھانے میں گہری دلچسپی لے رہاہے تاکہ موجودہ اقتصادی بحران سے نکل سکے۔وزیراعظم نواز شریف نے 1990ء میں وزارت عظمیٰ سنبھالی تو وہ اس خطّے میں وسیع تجارتی سرگرمیاں شروع کرنا چاہتے تھے۔ موٹروے اسی اقتصادی وژن کی پیداوار تھی لیکن مخصوص قوتوں نے اس قدر سیاسی عدم استحکام پیدا کیا کہ پاکستان وسط ایشیائی ممالک کے وسائل سے استفادہ نہ کرسکا۔جنرل (ر)اسلم بیگ ‘جنرل (ر) حمید گل‘ قاضی حسین احمد (مرحوم) اور دائیں بازو کے مفکرین وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کرنے میں کم اورانہیں ''سچامسلمان‘‘بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔پاکستان سے تاشقند جو پہلی فلائٹ گئی اس میں تبلیغی لٹریچر بھیجا گیا ۔چنانچہ یہ ممالک پاکستان سے خائف ہوگئے اور انہوں نے دیگر ممالک حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرلیے۔
آج کے ایران کے برعکس پاکستان عالمی طاقتوں سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔سرکاری سرپرستی میں امریکہ مخالف جذبات کو بڑھاوا دیاگیا ۔ امریکہ کو خوفزدہ کرنے کے لیے ''غیرت مند‘‘ سیاست کو جنم دیا گیا۔اب اس جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل ہورہاہے۔عمران خان تو پھلتے پھولتے ہی احتجاجی سیاست پہ ہیں لیکن سب سے حیران کن رویہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا ہے۔ حکومتی خارجہ پالیسی پر اس طرح تبریٰ بازی کرتے ہیں جیسے وہ قائد حزب اختلاف ہوں۔ان سے زیادہ ذمہ دارانہ طرزعمل پیپلزپارٹی کے راہنماخورشید شاہ کا رہا؛ حالانکہ سخت گیر موقف اپنانے سے ان کا کچھ نہیں جاتا۔
نون لیگ کی حکومت اور تمام سٹیک ہولڈرز کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کو غیر ضروری محاذآرائی اور تصادم سے کیسے بچائیں۔ تین عشروں کی صحرانوردی کے بعد ایران دوبارہ عالمی سیاسی نظام کا حصہ بن چکا ہے ۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔جہاں شہری آزادیاں میسر ہیں۔میڈیا آزاد اور منظم سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ایک ایسے ملک کو دنیا سے کٹنے کے بجائے مل کر چلنے کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔ سفارتی مسائل کا حل مظاہروں‘ دھرنوں اور ٹرک ڈرائیوروں کی پٹائی کرنے کے بجائے سفارتی ذرائع سے تلاش کرنا چاہیے۔قومی سطح پر یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو دنیا کے ساتھ چلنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔دنیا ہماری محتاج نہیں۔ خصوصاً بہتر متبادلات کی موجودگی میں!