پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نج کاری کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے غریبوں کو بے روزگار اور سرمایہ کاروں کو مزید طاقت وربنانے کے مترادف قراردیاہے ۔چین کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے قوم بتایا کہ چینی حکومت کاروبار میں ایک بڑے اسٹیک ہولڈرکے طور پرموجود ہے۔بلاول بھٹو نے اس مضمون میں ایک سوشلسٹ رہنما کی شناخت ابھارنے کی کوشش کی ہے جو ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میںغریبوں کا ہمدرد اور عام شہریوں کے مفادات کو مقدم رکھتاہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہے حتیٰ کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں‘چہ جائیکہ بیماراور دائمی خسارے کی شکار صنعتوں میں مزید اربوں روپے جھونکے جائیں۔ سیاسی مجبوریوں کی اسیر حکومتوں نے مصنوعی نظام تنفس کے ذریعے ان اداروں کو اب تک زندہ رکھاہواہے تاکہ ان میں خدمات انجام دینے والوں کا چولھا نہ بجھے؛چنانچہ پاکستان کوایسے اداروں کوچلانے کے لیے سالانہ 4.1 بلین ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔محض پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کو 305 ملین امریکی ڈالر کے مساوی خسارے کا سامنا ہے۔
بلاول بھٹو کا مضمون پڑھ کر ماضی میں اس پارٹی کی معاشی حکمت عملیوں سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات کی یاد تازہ ہوگئی۔ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں منافع بخش اداروں کو قومیا کر ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھایا۔ساٹھ کی دہائی میں صدر محمد ایوب خان کی حکومت نے صنعتی ترقی کی جامع منصوبہ بندی کی،امریکہ سمیت مغربی ممالک سے خوشگوار مراسم استوار کیے،مینوفیکچرنگ کی صنعت کی خاص طور پر سرپرستی کی گئی اورچند برسوں کی کوششوں سے پاکستان دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔
جنوبی کوریااور ملائشیا جیسے ممالک کے لیے پاکستان رول ماڈل کے طور پر ابھرا۔پاکستانی اقتصادی ترقی پر عالمی مالیاتی ادارے حیرت کا اظہار کرتے اور دنیا کے ماہرین پاکستان کے تجربات کا مشاہدہ کرنے کے لیے کراچی اور راولپنڈی کے دورے کرتے۔ کہاجاتاتھا کہ اگر پاکستان اسی رفتار سے ترقی کرتارہاتو اسی کی دہائی تک وہ دنیا کے ترقی پذیرممالک میں سب سے آگے ہوگا۔
حریفوں کو پاکستان کی ترقی گوارا نہ تھی،وہ ترقی کا پہیہ الٹا گھمادینے کے منصوبے بناتے رہے مگرانہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘سیکرٹری خارجہ عزیز احمداور میجر جنرل اختر حسین ملک نے ''جبرالٹر‘‘ کے نام سے کشمیر میں گوریلا آپریشن کا منصوبہ بنایا۔جس طرح جنرل (ر)پرویز مشرف نے کارگل آپریشن کی سویلین قیادت کو ہوا نہیں لگنے دی اسی طرح اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل موسیٰ خان سے بھی یہ منصوبہ خفیہ رکھا گیا۔صدر ایوب کو قائل کیا گیا کہ جنگ کا دائرہ کار صرف کشمیر تک رہے گا اور بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا۔کشمیر میں فوجی آپریشن میں شدت آئی تو بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا۔سترہ دن بعد فتح یاشکست کے اعلان کے بغیر جنگ بندی ہوگئی۔اس جنگ نے مسئلہ کشمیر کو مذکرات کے ذریعے حل کرنے کے امکانات ہمیشہ کے لیے دفن کردیے اور پاک امریکہ تعلقات میں بداعتمادی کی دیواریں چن دیں۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کا خواب چکنا چور کردیا۔ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے،تازہ دم جنرل محمدیحیٰی خان نے مارشل لاء نافذکردیا،ملک ٹوٹ گیا،مشرقی بازوبنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک قرارپایا ۔رہی سہی کسر وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے منافع بخش صنعتوں ‘بینکوںاوراہم اداروں کو قومیا کر پوری کرلی۔ شرح ترقی کی رفتارجوچھ فیصد سے زائد تھی‘ گرکردوفیصد رہ گئی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکا تختہ الٹاتو ترقی کی شرح محض 3.6 تھی۔ تما م بڑے سرمایہ کار بیرون ملک فرار ہوچکے تھے۔انہوں نے مشرق وسطی اور یورپ کے ممالک میں ازسر نو اپنی کاروباری سلطنتیں قائم کیں ۔ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور حامیوں کو سرکاری کارپوریشنز میں اعلیٰ عہدے عطا کیے گئے۔ان اداروں میں ''رج‘‘ کر پارٹی کے جیالوں کو کھپایاحتیٰ کہ منافع میں چلنے والے ادارے قومی خزانے پر دائمی بوجھ بن گئے ۔
موجودہ حکومت ان اداروں کونجکاری کے ذریعے فعال بنانا چاہتی ہے تو اس کی مدد کی جانی چاہیے ۔ان اداروں کاچارارب ڈالر سے زیادہ کا خسارا پورا کرنا نہ صرف حماقت ہے بلکہ ظلم ہے۔یہ پیسہ مفاد عامہ کے کاموں میں صرف ہونا چاہیے تاکہ عام لوگوں کے حالات زندگی بہتر ہوں۔آج ملک کوڑی کوڑی کا محتاج ہے۔ چند رو زقبل امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کو خبردار کیا تھا کہ اگر نیٹو سپلائی کے راستے میں حائل بندش کو دور نہ کیا گیاتو امریکہ کے لیے پاکستان کی سیاسی حمایت اور مالی امداد جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس پیغام نے اسلام آباد کو سراسیمہ کردیا ہے۔
حکومت سے یہ امید کرنا کہ وہ سرکاری سرپرستی میں صنعتیں یا کارخانے چلائے گی، سادہ لوحی نہیں بلکہ مذاق ہے۔ حکومتوں کا حال یہ ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بڑے شہروں میں پولیس نے لوگوں سے کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں۔ اسلام آباد جیسے شہر سے دن دیہاڑے گاڑیاں چوری ہوتی ہیںاور پولیس مشورہ دیتی ہے کہ گاڑی کی تلاش میں قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ ایک ایسا ادارہ تلاش کرنا بھی محال ہے جو حکومت کامیابی سے چلارہی ہو،جہاں بدعنوانی کا راج نہ ہو اورمیرٹ پامال نہ کیا جاتاہو۔ریاست انتظامی صلاحیت کھو چکی ہے اور اس کے عمال کے رگ وریشے میں بدعنوانی اور بے وفائی سرایت کرچکی ہے۔
پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس جماعت کومعیشت سدھانے اور روزگار کے ذرائع پیدا کرنے سے شاید ہی دلچسپی رہی ہو۔ پارٹی سربراقتدار آتی ہے توہزاروں سیاسی کارکنوں کو سرکاری محکموں میں یہ دیکھے بغیر بھرتی کرتی ہے کہ اس کے نتیجے میں یہ محکمہ یا ادارہ اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔حالیہ دور اقتدار میں بھی اس پارٹی کا یہی وطیرہ رہا۔بلاول بھٹونجکاری کی مخالفت کرکے دراصل اپنے کارکنوں اور حامیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں جو سرکاری کارپوریشنوں میں بغیر کام کیے بھاری مشاہرہ پارہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مابین اقتصادی امور‘توانائی کے مسائل اور دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا پانے جیسے بنیادی مسائل پر متفقہ حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ناگزیر ہوچکاہے۔مشکل فیصلے کرنے میں حکومت کی مدد کی جائے نہ کہ اس کا راستہ روکا جائے۔یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی ناکامی محض نون لیگ کی ناکامی نہیں بلکہ جمہوری قوتوں اور پور ے ملک کی ناکامی تصور ہوگی۔اس لیے کچھ ایشوز میں وزیراعظم کی مدد کی جانی چاہیے نہ کہ انہیں ناکام کرنے کی کوشش کی جائے۔ اقتصادی زبوں حالی سے نجات تمام جماعتوں کا متفقہ ایجنڈا ہونا چاہیے۔