نیویارک میں ویزے فراڈ کے الزام میں خاتون سفارت کار Khobragade Devyani کی گرفتاری اور پولیس کے ہتک آمیز رویہ پر بھارت میں ناقابل یقین ہیجان پایا جاتا ہے۔ دہلی میں تعینات امریکی سفیر نینسی پاول کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔ امریکی سفارت خانے کے گردونواح میں حفاظتی نقطہ نظر سے رکھی گئی رکاوٹیں اٹھا دی گئیں اور امریکی سفارت کاروں کو حاصل خصوصی مراعات منسوخ کر دی گئیں‘ یعنی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا رہا ہے۔
حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ حکمران جماعت کے رہنمائوں اور وزراء نے بھی بھارت کے دورے پر آئے چھ امریکی ارکانِ کانگریس کے وفد کے ساتھ ملاقاتیں منسوخ کر دیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر لکھا: نیویارک میں ہماری سفارت کار کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک پر بطور احتجاج میں نے امریکی ارکانِ پارلیمنٹ سے طے شدہ ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میڈیا ہو یا سیاستدان‘ کوئی بھی خاتون سفارت کار کی گرفتاری کے اس پہلو پر غور تو درکنار بات تک کرنے کو تیار نہیں کہ بھارتی سفارت کار امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ امریکہ کے اپنے قوانین ہیں‘ جن پر وہ عمومی طور پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ سفارت کار بھارت سے گھریلو کاموں کے لیے ملازمین امریکہ لے جاتے ہیں لیکن انہیں امریکی قانون کے مطابق اجرت ادا نہیں کرتے۔ ویزے کے حصول کے لیے کاغذات میں غلط بیانی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر گرفتار ہونے والی سفارت کار خاتون ملازمہ کو چار ہزار پانچ سو ڈالر کی تنخواہ پر امریکہ لے گئیں‘ حالانکہ ان کی اپنی تنخواہ محض چار ہزار ڈالر ہے۔ اس ملازمہ کو محض پانچ سو ڈالر ملتے تھے۔ سفارت کار کی ملازمہ نے اس استحصال پر احتجاج کیا۔ پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
بھارت اپنی سفارت کار کی توہین کو ذاتی تذلیل خیال کرتا ہے۔ سرِشام دہلی کی اشرافیہ انڈیا انٹرنیشنل نامی کلب میں جمع ہو جاتی ہے جہاں گپ بھی لگتی ہے اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال بھی ہوتا ہے۔ سینئر صحافی شجاعت بخاری کے ہمراہ یہاں ایک شام بہت سے معززین سے گفتگو کا موقع ملا۔ کانگریس کے رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشوک بھان نے بتایا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ امریکہ میں کئی ایک نامی گرامی بھارتیوں کی تذلیل کی گئی۔ سابق صدر عبدالکلام کے دو بار جوتے اتروائے گئے۔ بالی وڈ سٹار عامر خان کے ساتھ گزشتہ برس شکاگو میں اسی طرح کا ناروا سلوک کیا گیا۔ بھارت نے سرکاری سطح پر ان واقعات پر صدائے احتجا ج بلند کی لیکن واشنگٹن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ لوک سبھا کے رکن رتن پوری کا کہنا تھا کہ سخت احتجاج محض حالیہ گرفتاری کا ردعمل نہیں بلکہ ماضی کی متعدد واقعات کا جواب ہے۔
بھارتیوں کو دکھ ہے کہ ان کی حکومت نے امریکہ کی خوشنود ی کی خاطر خال ہی ملکی قوانین کی پروا کی‘ حتیٰ کہ ہم جنس پرست سفارت کاروں کے ساتھیوں تک کو بھی ویزے جاری کیے گئے حالانکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ دہلی میں امریکی سفارت کاروں کو جو سہولتیں دستیاب تھیں وہ کسی بھی دوسرے ملک کو حاصل نہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ اور بھارت کے مابین نیوکلیئر توانائی کے معاہدے پر عمل درآمد بھی پیچیدہ قانونی مسائل کی بدولت رُکا ہوا ہے۔
بھارتیوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پیچیدہ اور پُرخطر عمل ہے۔ اکثر ہنری کسنجر کے ایک قول کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ کی دشمنی تو مہنگی پڑتی ہی ہے‘ دوستی کی بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ دہلی کی ہر محفل میں لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے والے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ کس طرح امریکہ نے ایک شہری کو سفارتی استثنا دلانے کی کوشش کی حالانکہ وہ قتل جیسے سنگین جرم میں ملوث تھا۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا اس واقعے سے امریکہ اور بھارت کے مابین گہرے دفاعی‘ معاشی اور سماجی تعلقات تلپٹ ہو جائیں گے؟ البتہ اتنا ضرور ہے کہ بھارتی غصے میں ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ کو قومی غیر ت کا سوال بنا لیا ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ اگلے انتخابات میں بھی زیر بحث رہے گا‘ جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی دراڑیں نمایاں ہو سکتی ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر شیوشنکر مینن کو امریکہ نواز سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے تمام تر داخلی دبائو اور مشکلات کے باوجود امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر توانائی کے حصول کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اب ملک میں انتخابات کی گہماگہمی شروع ہو چکی ہے اس لیے ان گمبھیر معاملات کو سدھارنے پر زیادہ توجہ دینا مشکل ہے۔ من موہن سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑھاپے کے باعث ان میں اتنی توانائی بھی نہیں کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ کر سکیں۔ علاوہ ازیں کانگریس کی ہائی کمان تمام اہم فیصلے خود کرتی ہے۔
سردجنگ کے خاتمے تک بھارت میں امریکہ مخالف جذبات عروج پر رہے۔ سیاست میں کمیونسٹ اور چین نواز جماعتوں کا اثرورسوخ بھی گہر ا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے اندر بھی مغرب مخالف عناصر کی کمی نہیں۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے شعوری طور پر اسٹیبلشمنٹ بالخصوص وزارت خارجہ کی عمارت بے لچک قوم پرستی اور مغرب مخالف سیاسی فکر پر اٹھائی‘ جس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔ آنجہانی سوویت یونین کے ساتھ قربت نے بھی بھارت میں سوشلسٹ نظریات کو طاقت ور بنایا۔ یہ عناصر بھارت کی شناخت اور قومی وقار پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ دائیں بازو کی سیاست کرنے والی بی جے پی بھی سخت گیر قوم پرست جماعت ہے۔ اس کے زیراثر سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو بھارت کو ہر قیمت پر بالادست اور غالب قوت دیکھنا چاہتی ہے۔ ہیجان کا شکار الیکڑانک میڈیا مسلسل جذبات بھڑکاتا ہے۔ پاکستان تو تختہ مشق بنتا ہی رہتا ہے لیکن اب یہی سلوک امریکہ کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس کاروباری طبقہ امریکہ کے ساتھ گہرے تجارتی اور کاروباری بندھن میں بندھا ہوا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ امریکہ کی مدد سے مغربی دنیا کی منڈیوں پر قبضہ جمائے۔ ان کے نزدیک ملکوں کی غیرت نہیں‘ مفاد اہم ہوتا ہے۔ یہاں دہلی میں کئی بااثر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ بھارت کو اس قدر اشتعال انگیز پوزیشن نہیں لینی چاہیے تھی۔ اخبارات میں تجزیے چھپ رہے ہیں کہ اگر امریکہ اور بھارت میں کشیدگی بڑھی تو اربوں روپے کا مالی نقصان ہوگا۔ سنجیدہ حلقے حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ امریکہ مخالف جذبات کو ہوا نہ دے کیونکہ یہ جن بوتل سے باہر نکل آئے تو اسے قابو کرنا ممکن نہیں رہتا۔
امریکہ ابھی تک اس مسئلہ کو مقامی پولیس اور قانون کی خلاف ورزی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ واشنگٹن سے کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اس طرح کے واقعات پالیسی سازی کے عمل پر اثر ضرور ڈالتے ہیں۔ اگلے چند ہفتوں میں واضح ہو سکے گا کہ امریکہ بھارت تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ خان مارکیٹ میں کتابوں کی ایک دکان کے مینجر راجیش پال نے کہا: ہم بھارتی قومی غیرت کی خاطر اکٹھے ہو جاتے ہیں حالانکہ دنیا میں اسرائیل کے بعد امریکہ سے صرف بھارتی محبت کرتے ہیں۔ یہ فضا بھی جلد بدل جائے گی۔