نئی دہلی کے عین وسط میں پریس کلب ہے۔یہ وسیع وعریض عمارت نہیں بلکہ ذرا سی بوسیدہ ہوچکی ہے۔ لیکن یہاں صحافیوںکو صاف ستھرا اور سستا کھانا فراہم کیاجاتاہے۔صبح شام کافی بھیڑ رہتی ہے۔خبروں کا تبادلہ توہوتاہی ہے ۔تجزیہ اور معلومات کے حصول کے لیے بھی بہترین جگہ ہے۔بھارت جاتے ہوئے ارادہ تھاکہ کانگریس کے وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوار راہول گاندھی کے بارے میں جانکاری حاصل کی جائے گی۔راہول کے بارے میں پریس کلب میں سینئرصحافی افتخار گیلانی سے استفسار کیا توانہوںنے ایک مصرع میں، دریا کوزے میں بند کردیا۔''حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔‘‘
بھارت میں چند دن گزارنے ، عام لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے اور بالخصوص میڈیا کے سرسری جائزے سے یہ نتیجہ اخذکرنا آسان ہوجاتاہے کہ الیکشن سے پہلے ہی حکمران جماعت کانگریس نفسیاتی شکست قبول کرچکی ہے۔حال ہی میں بھارت کی چار ریاستوں میں کانگرس کوعبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ کانگریس قیادت کے زبردست بحران کا شکار ہے۔اس کے برعکس نریندر مودی نہ صرف ایک فعال اور متاثر کرنے والے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں بلکہ انہوں نے دائیں بازو کا روایتی ہندو ووٹ ہی نہیں بلکہ بھارت کے سرمایہ کاروں کی حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔اس لحاظ سے راہول گاندھی ان کی گردراہ بھی نہیں۔
گزشتہ نو برس سے کانگریس بھارت کی حکمران ہے لیکن وہ موثر اور شفاف حکومت فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ 80 سالہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کا زیادہ تروقت خارجہ اور اقتصادی امور سلجھانے میں گزرا۔سیاسی اور جماعتی معاملات میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر توانائی کا معاہدہ کیا لیکن متعدد پروسچرل مسائل کی وجہ سے ابھی تک اس پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔پاک بھارت تعلقات اور کشمیر پر کوئی بریک تھرو نہیں ہوا حالانکہ من موہن سنگھ نے ان مسائل کو سلجھانے میں کافی وقت صرف کیا؛حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے ساتھ جن معاہدوں پر دستخط کیے، انہیں بھی پارلیمنٹ سے منظور نہیں کراسکے۔اب جب کہ ان کی حکومت تمام ہونے کو ہے، امریکہ کے ساتھ ایک سفارتی تنازع شروع ہوچکاہے جو سلجھنے کے بجائے الجھتاجارہاہے۔
سونیا گاندھی پر اسرار بیماری کی وجہ سے غیر فعال ہو چکی ہیں۔وہ بتدریج سیاست سے دستکش ہوتی جارہی ہیں۔ راہول گاندھی ابھی تک کانگریس کی قیادت سنبھالنے کو تیار نہیں۔کہاجاتاہے کہ ان میں اس قدر بھاری ذمہ داری اٹھانے کے لیے درکار بصیرت اور استعداد نہیںپائی جاتی ۔ ان کے اندر اعتماد کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔غالباًاسی وجہ سے وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنے۔ان کا اپنی ذات اور صلاحیت پر عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ وہ قریبی دوستوں میں یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ کانگرس اگلے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو گی۔
بھارت اور پاکستان میں فن خطابت میں مہارت سیاست میں کامیابی کی کنجی تصور کی جاتی ہے۔وہ بھارت میں نریندر مودی کے مقابلے میں انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گے تو ہجوم کو متوجہ کرنا اور لوگوں کو اپنے نقطہ نظر کا قائل کرنا ان کے لیے کافی مشکل لگتاہے۔ایک کالم نگار نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ لوگ مودی کی تقریر سنتے ہیں تو فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اسے ووٹ دیں یا نہ دیں لیکن جب وہ راہول کی تقریر سنتے ہیں تو فوری طور پر طے کرلیتے ہیں کہ وہ کانگریس کو ووٹ نہیں دیں گے۔بھارت میں اس وقت پچاس کروڑ نوجوان ایسے بستے ہیں جن کی عمریں پچیس برس سے کم ہیں۔وہ تبدیلی کی عالمی لہر سے متاثر ہیں۔علاوہ ازیںخاندانی سیاست اور حکمرانی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ کانگرس پر نہروخاندان کی اجارہ داری ہے۔ اس خاندان سے تین وزیر اعظم گزرے ہیں۔وزیراعظم من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنادیا گیا لیکن انہیں اختیار نہیں دیا گیا۔ تمام اہم فیصلے نہرو خاندان ہی کرتاہے ۔بھارتی شہری بالخصوص نوجوان اس طرز سیاست سے عاجز آ چکے ہیں۔وہ دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے جمہوری تجربات سے متاثر ہیں جہاں وراثت نہیں لیاقت کا اصول کارفرماہے۔خود ان کی پارٹی کے لوگ بھی راہول سے خوش نہیں۔وہ توجہ سے بات سنتے ہیں اور نہ ہی ان میں سونیاگاندھی جیسا رکھ رکھائو ہے۔اپنی ماں کے برعکس ان میں جلدی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی کم ہے۔دہلی کی ایک تقریب میں ایک سابق فوجی افسرنے بتایا کہ راہول کا زیادہ انحصار آکسفورڈ یا کی کیمبرج کے فارغ التحصیل ماہرین پر ہے۔وہ دیسی سیاست کاروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جبکہ برطانیہ سے آئے ہوئے ماہرین بھارتی سیاست کے نباض نہیں۔
گزشتہ چار برسوں میںوزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت کی کارکردگی ناقابل یقین حد تک مایوس کن رہی ہے۔اقتصادی ترقی کی شرح 5 فیصد سے بھی نیچے گر گئی۔گزشتہ 10سالوں کے دوران یہ سب سے کم شرح رہی۔حالیہ چند ماہ کے دوران افراط زر 10 فیصد تک پہنچ گیا۔روپے کی قدرمیں 25 فیصد کے قریب کمی آئی۔ دو برس پہلے دولت مشترکہ کھیلوں کے انعقاد میں اربوں نہیں کھربوں روپے کے سکینڈل سامنے آئے۔ جن کی وجہ سے کانگرس حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔خود من موہن سنگھ کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔وہ بدعنوان وزراء کو کابینہ سے نکالنے میں ناکام رہے۔ من موہن سنگھ کو کرپٹ نہیں سمجھاجاتا لیکن شہری یہ جان چکے ہیں کہ کانگریس بطور سیاسی جماعت کے کرپشن کے خلاف ڈٹ جانے کے بجائے ایسے موقعوں پر آنکھیں موندلیتی ہے۔ کانگریس کے اس طرزسیاست نے بھارت میں بدعنوانی اور کرپٹ نظام حکومت کے خلاف سماجی اور سیاسی تحریکوں کو جنم دیا۔اناہزارے کی تحریک نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس تحریک کا بنیادی مطالبہ احتساب کے موثر قانون کا نفاذ اور بااختیار محتسب کا تقرر تھا۔ اسی تسلسل میں دہلی میں عام آدمی پارٹی ''آپ‘‘ نے جنم لیا جس کی سیاست کا مرکزی نقطہ ہی کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ دہلی کے لوگوں نے اس جماعت کو بھرپور پزیرائی دی اور وہ ایک بڑی عوامی طاقت بن کر ابھری۔عوام کے بدلتے ہوئے رجحانات نے کانگریس اور بھارتیہ جنتاپارٹی کو ہلا کر رکھ دیا ۔ مشترکہ طور پر پارلیمنٹ سے لوک پال بل منظور کرایا گیا۔اب عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیچری وال، لوک پال کی موجودہ شکل اور اختیارات میں مزید اضافہ چاہتے ہیں۔
اگلے الیکشن اور مابعد دہلی میں مرکزی حکومت کی تشکیل میں علاقائی جماعتوں کا بھی اہم کردار ہوگا۔بھارت میں گزشتہ پندرہ برس سے علاقائی جماعتوں کا سیاست میں اثر ورسوخ بہت بڑھ گیاہے۔بڑی اہم ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کی حکومت ہے۔بہار میں نتیش کمار ،بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی اور مغربی بنگال میں ترنامول کانگریس پارٹی کی ممتا بینر جی کی حکومتیں ہیں۔یہ جماعتیں اپنی ریاستوں میں نہ صرف گہرا اثررسوخ رکھتی ہیں بلکہ اپنا وزن جس بھی جماعت کے پلڑے میں ڈالیں گی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔