"IMC" (space) message & send to 7575

قانون کی حکمرانی مگر کیسے؟

1990ء کے اوائل کا ذکر ہے‘ مجھے شاہراہِ قراقرم سے سفر کرتے ہوئے ہنزہ جانے کا موقع ملا۔ کچھ جاپانی سیاح بھی ہم سفر تھے۔ وہ بھی دیگر مسافروں کی طرح سڑک کنارے بنے چائے خانوں کی دودھ پتی اور دال ماش سے لطف اندو ز ہوتے اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں مسافروں سے گپ بازی کرتے ۔گاڑی میںدو ایک مسافر وں کو انگریزی کی شدبد تھی‘ وہ جاپانیوں کو دیس دیس کی کہانیاں اور واقعات سناتے۔
ادھیڑ عمر لوگ بتاتے ہیں کہ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو غیر ملکی سفارت کاروں کو رہائش گاہوں کی کمیابی کا سامنا تھا۔ وہ راولپنڈی کی عام سی بستیوں میں کرائے پر پورشن لے لیتے۔نائن الیون کے حملوں تک کراچی ، لاہور اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے بس اڈوں یا لنڈا بازار میں اکثر غیر ملکی گھومتے نظر آتے بلکہ اکثر سیاح سستے ہوٹلوں کی تلاش میںعام سے علاقوں میں قیام کرتے ۔مہمان نواز پاکستانیوں سے انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔بتدریج پاکستان کا شمار دنیا کے ان خطوں میں ہونے لگا جہاں قانون کی حکمرانی کا تصور دم توڑچکا ہے۔اب ہوائی اڈوں پر خال خال ہی کوئی غیر ملکی اترتاہے حتیٰ کہ پاکستانی نژاد باشندے بھی پاکستان آنے سے کتراتے ہیں۔جو لوگ پاکستان کا رخ کرتے ہیں‘ ان کے خاندان والے انہیں منع کرتے ہیں کہ مساجد اور بازاروں میں جانے سے احتراز کریں۔ پاکستان گونا گوں بحرانوں کا شکار ہے‘ ہر مسئلہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل اور ضروری توجہ کا متقاضی ہے‘ لیکن ذرا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتاہے کہ ملک کو درپیش تمام مسائل اور بحرانوں کا منبع قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں روزاوّل سے انصاف کی فراہمی سست تھی۔ زوال اور تنزل دیمک کی طرح معاشرے اور نظام کو چاٹ جاتاہے۔احساس تک نہیں ہوتا‘ اچانک عمارت دھڑام سے زمین بوس ہوجاتی ہے۔ 
چند دن پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں اس وقت تیس لاکھ کے قریب مقدمات زیرالتوا ہیں۔ مقدمہ چلتاہے نہ کوئی فیصلہ ہوتاہے۔پولیس اور سرکاری وکلا عدالتوں میں مقدمہ پیش کرتے ہیں اور پھر بھول کر بھی اس کی پیروی نہیں کرتے۔ہزاروں لوگ محض اس وجہ سے جیلوں میں بند ہیں کہ کوئی ان کے مقدمات کی پیروی کرنے والا نہیں۔بعض افرادمعمولی نوعیت کے جرائم یا جرمانہ ادا نہ کرسکنے کے باعث زندگی کے بہترین ماہ وسال کال کوٹھڑی کی نذر کردیتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کی شق 10اے‘ ملک کے ہر شہری کو منصفانہ مقدمے اور مرضی کی قانونی مشاورت حاصل کرنے کا حق دیتی ہے۔ملکی دستور کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجرم کو سزادلائے اور بے گناہ کو سزاسے بچائے۔چنانچہ دنیا بھر کی ریاستیں ملزموں کو مفت وکیل فراہم کرتی ہیں؛ تاکہ وہ شہری جو مقدمات لڑنے کی سکت نہیں رکھتے اپنا دفاع کرسکیں ۔یہ وکلا پوری دیانت داری اور لگن سے اپنے موکل کا دفاع کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی وکیل بھاری بھرکم فیس لے کر کرتاہے۔
پاکستان میں بھی یہ سہولت دستیاب ہے لیکن اکثر ایسے افراد کو سرکاری وکیل مقرر کیا جاتاہے جو پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی خاص کامیاب نہیں ہوتے۔ انہیں بہت کم اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ کام کی زیادتی کا یہ عالم ہے کہ انہیں سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی۔ پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے تکنیکی معاونت فراہم نہیں کرتے۔جدید میڈیکل سائنس نے تفتیش کے عمل کو نئی جہت دی ہے لیکن عمومی طور پرسرکاری وکلا اس شعبے میں ہونے والی جدتوں سے آگاہ نہیں۔ چنانچہ سرکاری پراسیکیوشن کا نظام حصول انصاف میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوسکا ۔پنجاب میں مقدمات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لہٰذا یہاں انصاف کی فوری فراہمی اور مظلوم کی جلد دادرسی ایک اہم سیاسی اور سماجی مسئلہ کے طور پر زیربحث ہے۔ جو سیاسی جماعت شہریوں کو ایسی 
سہولت فراہم کرتی ہے وہ مقبولیت اور ووٹ حاصل کرتی ہے۔خوش قسمتی سے پنجاب میں باقی صوبوں کی نسبت سیاسی استحکام رہا ہے۔ اسی کی دہائی سے فعال اور متحرک صوبائی حکومتیں قائم رہی ہیں۔اس لیے پنجاب کے حالات دوسرے صوبوں کی نسبت کافی بہتر ہیں۔ پنجاب حکومت نے شہریوں کو زیرتفتیش فوجداری مقدمات میں بلامعاوضہ وکلا کی مدد فراہم کرنے کی غرض سے کریمینل پراسیکیوشن سروس اور پراسیکیوشن کا محکمہ قائم کیا۔ تین ارب کی لاگت سے فرانزک لیبارٹری قائم کی‘ تاکہ تفتیش کے سائنٹیفک طریقوں بالخصوص فرانزک شہادت کے حصول کو ممکن بنایاجاسکے۔وکلاء کی تربیت کے لیے عالمی اداروں سے بھی معاونت حاصل کی گئی ۔جرمن ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی(جی ای زیڈ)نے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے اشتراک سے پنجاب حکومت کے سرکاری وکلا (پراسیکیوٹرز) کو بین الاقوامی معیار کی تربیت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ جدید تقاضوں کے مطابق پراسیکیوشن کی استعداد بڑھائی جاسکے۔ تفتیشی نظام کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔ کچھ افسروں کو بیرون ملک سے تربیتی کورسز بھی کرائے گئے۔ یہ ادارے شہریوں کوسرکاری وکلا (پراسیکیوشن ) کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باخبر کرنے کے لیے بھی 
مہم چلارہے ہیں۔ان کوششوں کے نتیجے میں صور ت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ بڑی تعداد میںمقدمات نمٹائے گئے ہیں۔بے گناہ قیدیوں کو رہا ئی ملی اور مجرموں کو سزا۔دوسرے صوبوں کو بھی شہریوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے پنجاب کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
افسوس!حکومت نے پولیس کی تربیت اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ نہیں دی حالانکہ یہ ملکی دفاعی کی پہلی لائن ہوتی ہے ۔پولیس اور مقامی سطح پر خفیہ اداروں کی استعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہوتا تو پاکستان کو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔فوج یا نیم فوجی دستوں کو گلی محلوں میں شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے اور شہروں میں امن وامان کی بحالی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔ فوج، ایف سی، رینجرز سرحدوں کے تحفظ کے بجائے سول خدمات انجام دینا شروع کردیں تو ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں ماند پڑھ جاتی ہیں۔ موثر اور فعال پولیس ہی عدالتوں کے تعاون سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ضمانت ہے ۔لہٰذا پولیس ، عدالتوں اور سرکاری وکلا پر جس قدر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے‘ کی جانی چاہیے۔فوجی آپریشن وقتی طور پر مسائل کا حل تو ہیں لیکن مستقل اور پائدار حل مستعد پولیس اور فعال انتظامیہ کھڑی کرنے میں ہی مضمر ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قانون کی حکمرانی کا راستہ شہر کے تھانوں اور مقامی عدالتوں کے صحن سے گزرتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں