"IMC" (space) message & send to 7575

بابا آپ کھسک گئے ہیں

دکھے دل کے ساتھ ادیب محمد حنیف نے کراچی میں طلبہ وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا:پریس کلب کے باہر ماماقدیرنامی اک شخص نے جس کی عمر چوہتر سال ہے ،ایک نمائش سجائی ہے جس میں زیادہ ترلاپتا اورمسخ شدہ پائے جانے والے لوگوں کی تصویریں ہیں۔ یہ اس وقت کی تصویریں ہیں جب وہ مسنگ اورمسخ شدہ نہیں تھے،آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکال کر اس نمائش کو دیکھنے ضرور جائیں، داخلہ مفت ہے۔ محمد حنیف کے اکسانے پر میں نمائش دیکھنے چلاگیا۔ واقعتاً اس بابے نے کمال کی نمائش سجائی ہے۔ سفرکی تھکاوٹ اوردھول سی اٹی عورتیں اور بچوں نے اپنے پیاروں کی تصویریںاٹھائی ہوئی ہیں جنہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا‘کچھ معلوم نہیں۔
لاپتابلوچ خاندانوں کے لواحقین کی حالت زاردیکھ کر پتھر دل بھی پگھل جاتاہے۔انہوں نے 105دن کی طویل مسافت پیدل طے کی۔ بولان کے چٹیل پہاڑوں کو عبورکیا، مہران کے ریگستانوں میں آبلہ پائی کی۔ صدیوں قبل تعمیر ہونے والی شیر شاہ سوری کی گرینڈ ٹرنک روڈ جسے عرف عام میںجرنیلی سڑک کہاجاتاہے ‘پر سفرکرتے ہوئے اس امید پر اسلام آباد وارد ہوئے کہ بڑے گھر کے مکین ان کی کتھا سنیں گئے۔ زخموں پر پھاہا رکھیں گے ، ماضی کی بے رحمیوں اور تلخیوں کو بھولنے کی استدعا کریں گے، یقین دہانی کرائیں گے کہ اب کوئی نوجوان لاپتا نہیں ہوگا مگراس شہر پرقبرستان کی سی خاموشی طاری رہی،کوئی ہل چل نہ ہوئی۔کاروبار زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رہا۔ یہ ہے اسلام آباد جو ہر مسئلے کو''قومی مفاد‘‘کی آنکھ سے دیکھنے اور پرکھنے کا عادی ہے۔اس شہر کے سینے میںدل نہیں۔
لاپتا افرادکی کہانی ایک بار پھرانہی کی زبانی سنی ۔ سنانے والوں نے وہی واقعات دہرائے جو برسوں سے سنتے آئے ہیں لیکن ان کی آواز میں سوزوگدازاس قدرگہراتھاکہ آنکھیں چھلک چھلک جاتیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو رلاتی ہے، دل کو تڑپاتی اور روح کوبے قرار کرتی ہے ، بے بسی اورلاچارگی کی کیفیت طاری کرتی ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو دو جہانوں کی خوشیاں اور راحتیں نصیب ہوں جو لاپتا افرادکی بازیابی کے لیے آخری دن تک لڑتے رہے۔ ان کی مساعی رنگ لائی اورکچھ گھروں کے بجھے چراغ دوبارہ روشن ہوئے۔ 
ماما قدیرخود ایک افسانوی کردار ہے جس پر ہالی وڈ کی فلم بننی چاہیے۔ یہ شخص پہاڑ اتنے حوصلے کا مالک ہے۔اس کا جوان سال صاحبزادہ اوربلوچوں کے حقو ق کا علمبردار، جلیل ایک دن لاپتا ہوگیا۔برسوں بعد اطلاع ملی کہ جلیل کی مسخ شدہ نعش لے جائیں۔ حکام نے پیشکش کی وہ تدفین کے لیے سرکاری گاڑی لے جاسکتاہے۔''مجھے کفن دفن کاانتظام توخودکرنے دو‘‘۔ یہ تھا جواب جس نے سرکاری افسرکے پائوں تلے سے زمین کھسکا دی ۔ سفیدکفن میں لپٹا جلیل گھر لوٹا توکہرام مچ گیا۔بوڑھا ماماقدیرچاربرس کے پوتے کو دیکھتاتوکلیجہ منہ کوآتا۔ بچہ استفسارکرتاکہ اس کے باپ کا قاتل کون ہے تو منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ لوگوں نے اکسایا بہت کہ ریاست کے خلاف زہراگلو،دنیا کا میڈیا آپ کی آواز بننے کو تیار ہے، نوجوانوں کے جذبات سے کھیلو اورہیروبن جائو، پہاڑوں میں روپوش بندوق برداروںکوکمک فراہم کرواورنام کمائو۔ بیٹے کی المناک موت کا دکھ اسے کسی کل چین نہ لینے دیتا ۔ ماماقدیرکہتے ہیںکہ وہ نفرت اورانتقام کی آگ میں جلتارہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ا س کا سینہ کشادہ کردیااوراسے جدوجہدکا واضح راستہ دکھایاگیا۔
جذبات چھٹے، دل کا غبار ہلکا ہوا تواس عمررسید ہ شخص نے جدوجہدکے ایک میدان کا انتخاب کیا۔ نوجوانوں کے سے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور عہد کیاکہ میرا بیٹا اپنے مالک حقیقی سے جاملا،اب میں مزیدنوجوانوں کو اس انجام سے دوچار نہیں ہونے دوں گا۔ بہت ہوچکا،اب مسنگ پرسن کا قصہ تمام ہونا چاہیے۔ تشدد سے پاک مزاحمتی جدوجہدکاایک انوکھااسلوب اختیار کیا گیا۔ ایک ایسا راستہ جس کی ہرشہری حمایت کر سکتا ہے۔ ماما قدیر نے اپنے عزیرواقربا سے کہا کہ کوئی ایساکام کیا جائے کہ حکمرانوںکے دلوں پر پڑے تالے کھل جائیں ، وہ جاگ اٹھیں ؛ چنانچہ کسی نواب، سردار اور تمندارکی سرپرستی کے بغیرگزشتہ برس اکتوبرکے آخری ہفتے میںپچاس کے لگ بھگ عورتوں،بچوں اور مردوں نے کوئٹہ سے کراچی کی جانب لانگ مارچ شروع کیا۔ وائس فاربلوچ مسنگ پرسنزکے نام سے تنظیم قائم ہوئی اوراس کی آوازدنیابھر میںگونجنے لگی۔ 
افسوس!راولپنڈی اوراسلام آباد میں شہریوں نے لانگ مارچ کاپرجوش سواگت نہیں کیا۔انسانیت کے بھاشن دینے والے گھروں میں دبکے رہے۔یہاں کے باسی بڑے ایوان کے اشارہ ابروکے منتظر رہتے ہیں۔دوستوںکو لانگ مارچ کے استقبال کے لیے مدعوکیاتو اکثرطرح دے گئے ،کچھ کوملازمت کا خوف آڑے آیا،چند ایک نے کہا کیوں ہماری حب الوطنی مشکوک کرانے لگے ہو، بلوچوں کی خاطرہم کیوں اپنے خرمن امن میںآگ لگائیں۔
کاش شہریوں کی بڑی تعداد لانگ مارچ کا استقبال کرتی۔ ان کے راستے میں پھولوں کی پتیاںنچھاورکرتی۔انہیں احساس دلایا جاتاکہ پنجاب کے لوگ بلوچ بھائیوںکو اپنے جسم کا حصہ سمجھتے ہیں،انہیں حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاسکتا، ہمارے دکھ سکھ سانجھے ہیں۔
بیزاراورناراض بلوچوںکودوستی اورمحبت کاپیغام بھیجنے کا ایک سنہری موقع ضائع کردیاگیا۔یہ بحث عبث ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی کون پشت پناہی کرتاہے یا وہ عام شہریوں کوکس طرح تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو احتجاج کے پرامن طریقے کو پذیرائی بخشنی چاہیے تھی تاکہ مسلح گروہوںکو معلوم ہوسکے کہ پرامن احتجا ج میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایوان اقتدارکے درویوارکوہلا 
سکتاہے۔اتنی دوراندیشی حکومت میں ہے نہ سول سوسائٹی میں ۔
حال ہی میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدرافضل بٹ بلوچستان کا تفصیلی دورہ کر کے لوٹے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں لاپتا ہونے والے افرادکا مسئلہ بہت سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس سے صرف نظر نہیںکیا جاسکتا۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔ وقت گزاری سے یہ مسئلہ مزید الجھ جائے گا۔ بلوچستان کے شہریوں کی وزیراعظم نواز شریف سے توقعات دم توڑرہی ہیں۔انہوں نے الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے لیکن آٹھ ماہ گزرجانے کے باوجود وہ اس انسانی مسئلے پرتوجہ نہیں دے سکے یاشاید انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔ 
گھرلوٹا تو چھٹی جماعت کی طالبہ صاحبزادی حنین باربارپوچھتی کہ آخرہمارے شہریوںکو اپنے ہی ملک میںکون لاپتاکرتاہے؟ان کی نعشیں کیسے مسخ ہوجاتی ہیں؟وہ کون ہے جو ہماری ریاست سے بھی زیادہ طاقت ور ہے اور پورا ملک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھی دس ہزار نوجوان لاپتا ہوگئے ہیں۔ میں نے اسے گجرات کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت سے آگاہ کیا،عراق میں امریکیوں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کا حوالہ بھی دیا۔میراجواب اسے مزیدکنفیوژکرتا۔ وہ کہتی: بابا وہ تو ٹھیک ہے لیکن بلوچ تو ہمارے اپنے بھائی ہیں۔ان کی نعشیں کیوں مسخ کی جاتی ہیں؟میں نے اسے بتایا کہ کمبوڈیا کے تنازعے میں دس لاکھ لوگ مارے گئے۔اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اورکہا :بابا آج آپ کھسکے ہوئے لگتے ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں