"IMC" (space) message & send to 7575

آخری موقع

مذاکراتی کمیٹیوں کی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات‘ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی اور بعدازاں اسلام آباد کچہری حملے سے لاتعلقی کا اعلان اس ہفتے کی مثبت خبریں ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کے محدود امکانات کے باوجود وزیراعظم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جو ایک غیرمعمولی اقدام ہے۔ آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے حکومت پر بہت دبائو تھا لیکن وہ ٹالتے رہے۔ طالبان کے ''کارنامے‘‘ اور مطالبات دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ان کے خلاف ویسے آپریشن ہو جیسا سری لنکا نے تامل باغیوں کے خلاف کیا تھا، شورش پسند ہلاک کر دیے گئے اور ان کے حامی زندگی کے باقی دن جیلوں کی چاردیواری میں گزار رہے ہیں۔ ایسا ہی آپریشن حکومت کے پیش نظر ہے لیکن وزیر اعظم بے گناہ شہریوں کو بچانے کی خاطر ڈھیل دے رہے ہیں۔
دنیا میں کسی ریاست کا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ مذاکرات کرنا اور سیاسی سمجھوتے پر اتفاق رائے حاصل کر لینا سہل کام نہیں۔ یہ بہت ہی پیچیدہ اور صبرآزما ہوتا ہے۔ دقت یہ ہے کہ خود ریاست کوئی ایک اکائی نہیں ہوتی، اس کی باگیں متعدد اداروں اور شخصیات کے کنٹرول میں ہوتی ہیں‘ جنہیں ایک صفحے پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی بے شمار لابیاں اپنا اپنا نقطہ نظر منوانے کی سرتوڑ کوشش کرتی ہیں۔ ہر طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کو اپنا آلہ کار بناتی ہیں اور میڈیا کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے خوب خرچ کرتی ہیں۔ آج کا پاکستان ایک ایسی ہی کشمکش سے دوچار ہے۔ کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ بھرپور فوجی آپریشن ہو، شرپسندوںکے خلاف ایسا لڑا جائے کہ چھ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی یاد تازہ ہو جائے، نور جہاں کے گیتوں اور نغموں سے فضا گونج اٹھے اور قوم فوج کی پشت پر کھڑی ہو۔ وزیرستان میں ہونے والے حالیہ فضائی حملے اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ ریاست کو اپنے شہریوں کو قتل و غارت گری سے بچانے کی خاطر تمام آپشن استعمال کرنے چاہئیں، ناک نیچی کرنی پڑے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مخالفین کمزوری کا الزام لگائیں تو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیا جائے۔ وزیر اعظم نوازشریف اسی فکر کے علمبردار ہیں۔ وہ اس حکمت عملی کی سیاسی قیمت چکانے کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ بعض ادارے اور سیاسی مخالفین اس طرز عمل کو بزدلی ہی نہیں ملک سے بے وفائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ لچکدار رویّے کو قومی وقار اور یکجہتی پر سودے بازی کے مترادف قرار دے کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی‘ جو پانچ برس تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ تو دور کی بات زبانی جمع خرچ بھی نہ کر سکی‘ اب شیر کی سواری کرنا چاہتی ہے۔ فرنٹ لائن پر ڈٹے ہوئے محافظ دستے اور ان کی قیادت بھی لو اور دو کی بنیاد پر سمجھوتے قبول نہیں کرتی۔ جن علاقوں پر اس نے اپنا خون بہا کرکنٹرول حاصل کیا‘ وہ اسے کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
ان حالات میں حکومت نے مذاکرات کا علم لہرا رکھا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے درجنوں تنازعات ہیں‘ جہاں حکومتوں نے سول سوسائٹی یا ممتاز شہریوں اور غیرسرکاری اداروں‘ بالخصوص این جی اوز کی مدد سے پیس پراسیس شروع کرایا۔ حکومت خود پس منظر میں رہی تاکہ وہ کوئی دوٹوک موقف اختیار کرنے سے بچ سکے۔ مثال کے طور پر حکومت آئین کے خلاف نہیں جا سکتی۔ وہ قیدیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کر سکتی جب تک ان کے مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ وہ مذاکرات کی میز پر کوئی بڑی پیشکش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ ان حالات میں نیم سرکاری کمیٹیاں نان اسٹیٹ ایکٹرز کو قائل کرنے اور انہیں ایسی مراعات دلانے میں کردار ادا کرتی ہیں‘ جن کا کوئی سرکاری اہلکار تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ سماجی دبائو پیدا کرتی ہیں، شدت پسند گروہوں کو اچھے مستقبل کی امید دلاتی ہیں، انہیں سیاسی کردار ادا کرنے کی جانب راغب کرتی ہیں اور ان کے لیے سیاسی اور سماجی مواقع پیدا کرتی ہیں۔ عسکریت سے سیاست تک کے سفر میں معاونت فراہم کرنے کا وعدہ ایک محفوظ زندگی کا ضامن ثالث ہی کر سکتا ہے۔
باخبر لوگ کہتے ہیں کہ میجر عامر نے طالبان قیادت کے ساتھ اپنے پرانے رابطوں‘ نسلی و لسانی قربت اور مذہبی پس منظر کا بھرپور استعمال کیا، انہیں باور کرایا کہ موجودہ موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنے لوگوں کی زندگی بچا سکتے ہیں اور تحریک طالبان کے ساتھ وابستہ لوگوں کے لیے بھی حکومت سے کچھ مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ فوج کی نئی قیادت معرکہ آرائی سے گریزاں نہیں بلکہ بیتاب ہے۔ دس برس تک وزیرستان کے پہاڑوں کی خاک چھاننے کے بعد فوج فیصلہ کن جنگ لڑنے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ عالم یہ ہے کہ بھارت کی سرحد پر محض ایک لاکھ فوج اور طالبان کے مقابلے کے لیے ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات ہے۔ اس سے ارادوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ فوج تذبذب کی کیفیت سے نکل چکی ہے۔
بہت سے مبصرین کو کمیٹیوں کی تشکیل پر اعتراض ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ عجیب لگتا ہے کہ عام شہری‘ جن میں صحافی اور سابق فوجی افسر شامل ہوں‘ کمیٹی بنا کر ایک نازک مسئلے پر مذاکراتی عمل شروع کر لیں۔ آئرلینڈ سمیت کئی خطوں میں معتبر شہریوں نے جنگجو گروہوں اور حکومت کے مابین مذاکرات کا پل تعمیر کیا۔ معترضین چاہتے ہیں کہ فوج اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوں۔ ماضی میں ایسے بہت سے مذاکرات ہوئے جن میں فوج براہ راست شریک تھی مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر بدعہدی کے الزامات لگے اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا‘ جس کے اثرات ابھی تک سمیٹے نہیں جا سکے۔
اس پس منظر میں سیاسی قیادت کو مذاکرات کے عمل کی خود نگرانی کرنی چاہیے۔ ہر پہلو پر نظر رکھنی چاہیے اور ہر مسئلے میں خود شریک رہنا چاہیے۔ مذاکرات کو لگنے والے دھچکوںسے جو فضا پیدا ہوتی ہے وہ صرف سیاسی قیادت ہی برداشت کر سکتی ہے۔ سابق کمیٹیوں نے ابھی تک اچھا کام کیا، ان کی تحسین کی جانی چاہیے نہ کہ انہیں رگڑا لگانا چاہیے۔ نئی مجوزہ کمیٹیاں کیا کرتی ہیں‘ اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ آخری مرحلے میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم کا رویہ بہت محتاط اور معقول رہا۔ پروفیسر ابراہیم نے تمام تر اشتعال کے باوجود مذاکرات کی بحالی پر اصرار جاری رکھا۔
تحریک طالبان پاکستان بظاہر اپنے خول سے باہر نکل رہی ہے۔ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اس کا مثبت نفسیاتی اثر ہوگا۔ وہ عناصر جو ابھی تک شدت پسندی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تنہا اور غیرموثر ہوتے جائیں گے۔ طالبان کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ مذاکرات ان کے لیے مفید ہیں، اس عمل میں شریک رہنے سے انہیں اپنا سیاسی ایجنڈا مرتب کرنے کا راستہ مل سکتا ہے، وہ ایک سیاسی قوت کے سانچے میں ڈھل سکتے ہیں۔
تصادم زدہ علاقوں میں ایک بار سیاسی عمل شروع ہو جائے تو بتدریج تصادم کی جہت بدل جاتی ہے۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کا عمل ایک نفسیاتی کھیل بھی ہے جس میں مضبوط اعصاب کی حامل پارٹی ہی فاتح قرار پاتی ہے۔ یہ پیش نظر رہے کہ یہ لمبا اور تکلف دہ عمل ہے جس میں تحمل‘ عزم اور ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ امن عمل ون ڈے میچ کی طرح نہیں ہوتا کہ چھ گھنٹوں میں فتح کا جشن بھی منا لیا جائے۔ یہ ایک پراسیس کا نام ہے جو بتدریج ارتقا پذیر ہوتا ہے۔ جو گروہ مذاکراتی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ ہیں انہیں دھتکارا نہ جائے، اخلاص کے ساتھ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کاوشیں جاری رکھی جائیں۔ امن کو آخری موقع ملنا چاہیے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں