"IMC" (space) message & send to 7575

سیاسی بلوغت کا غیر معمولی مظاہرہ

وزیراعظم نواز شریف کا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اقامت گاہ پرجاکرملاقات اور قومی امور پر مشاورت کرنا بہت اچھا لگا۔ایسا لگاکہ خواب دیکھ رہاہوں۔ وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم گئے جب سیاستدان ایک دوسرے کی جان کے درپے ہواکرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور پرویز الہٰی کے ضعیف والد تک کی تضحیک کی گئی۔خودآصف علی زرداری نے عمر عزیز کا بہترین حصہ اڈیالہ جیل میں گزارا۔ جناب زرداری کے بچوں نے شباب کی دہلیز کو چھوا تو انہیں عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے پایا۔ نفرت اور انتقام کے اس سیاہ باب کو بند ہوئے مدت ہوئی۔ اب بدترین حالات میں بھی سیاستدان باہم مشاورت کرتے ہیں۔متضاد نظریات اور خیالات کے باوجود ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں۔ اکثر اوقات مختلف امور پرایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔یہ طرزعمل سیاسی بلوغت کی عکاسی کرتا ہے۔ جمہوریت جڑپکڑرہی ہے۔ پاکستان باصلاحیت لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہ دنیا کے جس ملک میںبھی گئے اپنی قابلیت اور صلاحیت کے جھنڈے گاڑے۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کو بہترین ماہرین طب کا درجہ حاصل ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مالیاتی اداروں اور ایئر لائینوں کو پاکستانی ماہرین نے خون جگر دے کر کھڑا کیا۔ گزشتہ ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ وہی پولیس جو پاکستان میں ناکارہ اور ناکام کہلاتی ہے‘ اس کے افسر اور جوان اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل ہوکر بیرون ملک خدمات سرانجام دیتے ہیں تو عالمی ادارہ انہیں حسن کارکردگی کے اعزازات عطا کرتاہے۔ ان ممالک اور اداروں میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے‘اس لیے پاکستانی چھا جاتے ہیں۔پاکستان میں شہریوں کو یکساں ترقی کے مواقع ملتے ہی نہیں‘ لہٰذا وہ ہیراپھیری پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں کی اجتماعی ناکامی کی ذمہ دار ان کی قیادت ہے جوچھوٹے چھوٹے مفادات اور جھوٹی اناکی خاطر ملک کے طویل المیعاد مفادات کو قربان کرتی رہی۔شہریوں کو ترقی کے لیے کبھی سازگار ماحو ل دستیاب ہی نہ ہوا کہ اپنے جوہر دکھاتے۔ سیاستدانوں یا فوج کی حکمرانی کے دور میں‘ کسی نے بھی عام آدمی کے بھلے کا نہیں سوچا۔ گزشتہ چند برسوں سے حالات بتدریج بدل رہے ہیں۔ رواداری کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اکثر اوقات سیاستدان اہم قومی امور پر یکساں موقف اختیار کرتے ہیں۔یہ ماحول بنانے میں سابق صدرآصف علی زرداری اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف کا بنیادی کردار ہے۔ ان دونوں رہنمائوں نے ماضی کی تلخیوں کو دفن کیا اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج دفاعی ادارے اور حکومت عمومی طور پر ایک صفحے پر نظر آتے ہیں ۔ماضی میں یہ ادارے نہ صرف قومی امور پر الگ الگ پالیسیاں چلاتے رہے بلکہ کئی اہم معاملات میں باہم دست وگریباں بھی ہوجاتے تھے۔
جمہوریت کاکمال ہی یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف مشترکہ طور پر اہم قومی امور پر فیصلے کرتے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی اطلاع امریکی صدر باراک اوباما نے سب سے پہلے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو دی۔ امریکہ میں کوئی بھی بڑی تقریب ہو تواس میں سابق صدوراور ان کی بیگمات کو مدعو کیا جاتاہے۔بھارت میں بھی یہ روایت بہت پختہ ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک امورپر فیصلہ سازی کا مرحلہ درپیش ہو‘ حکومت حزب اختلاف کو اعتماد میں لیتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے تو ہر اہم معاملے پر مشورے کے لیے اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا کو کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کے پاس بھیجتے۔اب عالم یہ ہے کہ وزیراعظم من موہن سنگھ ہر اہم موقع پر ایل کے ایڈوانی کے گھر جاتے ہیں۔انہیں بریف کرتے ہیں اور مختلف امور پر حمایت بھی طلب کرتے ہیں۔یہ کام بغیر کسی تشہیر کے کیا جاتاہے۔
پاکستان میں جمہوریت ارتقائی سفر طے کررہی ہے اس لیے ایسی ملاقاتیں غیر ضروری تشہیر اور تبصروں کا موضوع بن جاتی ہیں۔دنیا میں یہ معمول کی کارروائی تصورکی جاتی ہیں؛ تاہم تشہیر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب چھوٹے شہروں کی سطح تک بھی سیاسی درجہ حرارت معمول پر آگیا ہے۔کل تک تحریک انصاف کے کارکن بالخصوص نوجوان خواتین وحضرات کو نون لیگ اور شریف برادران ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ اب وہ عمران خان کو چودھری نثار علی خان کی تعریفیں کرتے دیکھتے ہیں‘ تو ضرور ان کا خون کھولتاہوگا یا اپنی نادانی پر ماتم کرتے ہوں گے۔سیاست کا حسن ہی یہ ہے کہ یہاں تغیر ہی کوثبات ہے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں ایک ایسے مسئلہ پر مکالمہ کررہی ہیں جو پاکستان کی بقااور سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔جسے اب فوجی ادارے بھارت سے بڑا خطرہ قراردیتے ہیں۔یہ ایسی ان دیکھی جنگ ہے جس میں پاکستان کے اتنے فوجی شہید ہوئے جتنے بھارت کے ساتھ ہونے والی تین جنگوں میں نہیں ہوئے ہوں گے۔ اتنے شہری شہید ہوئے جتنے 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں بھی نہیں ہوئے۔اس کے باوجود ملک شدت پسندوں کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار نہیں تھا۔قوم تقسیم رہی اور اس کا بڑا سبب سیاستدانوں کی تقسیم تھی۔ اگر سیاستدان اور فوج ایک صفحے پر اکٹھے ہوجائیں تو دہشت گردوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔
شدت پسندی ایک ایسا معاملہ ہے جس کا کوئی فوری تدارک نہیں۔یہ مرض ایک مرتبہ لاحق ہوجائے تو افاقہ ہوتے ہوتے دہائیاں بیت جاتی ہیں۔وزیرستان میں ممکن ہے کچھ گروہوں کے ساتھ معاہدہ ہوجائے اور وہ عسکری کارروائیاں ترک کرنے پر آمادہ ہوجائیں لیکن تمام گروہ ایسا نہیں کریں گے۔اسی امکان کی طرف عمران خان نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد اشارہ بھی کیا۔خود عمران خان بھی اب ایسے شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کے قائل ہوچکے ہیں جو مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ کل تک عمران خان وزیرستان میں کسی بھی قسم کے آپریشن کے خلاف تھے مگر اب ان کے اور پی ٹی آئی کے دیگر راہنمائوں کے طرزعمل میں نمایاں لچک آچکی ہے۔
شدت پسندوں کے ساتھ معرکہ آرائی کے لیے فوج میں زبردست یکسوئی نظرآتی ہے۔ وہ فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہے۔ قوم بھی فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔مثبت بات یہ ہے کہ علما کا بھی ایک بڑا طبقہ طالبان کو جنگ وجدل سے منع کررہاہے۔چند ماہ قبل ملک کے جید علمائے کرام نے حکومت اور طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کریں۔ جب تک مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائیں‘ مسلح کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔ مفتی رفیع عثمانی، مولانا مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا فضل محمد، قاری حنیف جالندھری، سید عدنان کاکاخیل، مفتی ابولبابہ شاہ منصور ،مولانا محمد حسن، مولانا مختارالدین اور مولانا سلیم اللہ خان نے یہ اپیل مشترکہ طور پر جاری کی۔مولانا فضل الرحمان بھی مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ مولاناسمیع الحق اور جماعت اسلامی کے راہنما پروفیسر ابراہیم تو طالبان کمیٹی کا حصہ ہیں۔ایک مثبت منظر نامہ ابھر رہاہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ طالبان کے ایسے گروہ‘ جو امن اور معمول کی زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں‘ سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں۔دیگر متحارب گروہوں کو بھی سمجھائیں ۔انہیں پر ا من سیاسی جدوجہد کی اہمیت اور برکات سے آگاہ کریںتاکہ پاکستان موجودہ بحران سے باہر نکل سکے۔دوسری صورت میں تباہی اوربربادی سینہ پھیلائے ان کی منتظر ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں