افغانستان کے صدر حامد کرزئی صدارتی محل میں بارہ برس تک متمکن رہنے کے بعد اب رخصت ہواچاہتے ہیں۔ بڑے سے بڑا سیاسی پنڈت بھی قطعی پیش گوئی کرنے کے قابل نہیں کہ افغانستان میں اب کیا سیاسی نقشہ بننے جارہاہے۔اگلے چند ہفتوں میں (5 اپریل کو)افغانستان میں تیسرے صدارتی الیکشن برپا ہونے ہیں۔ صدر کرزئی آئینی پابندی کے باعث تیسری مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے ۔سابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ ، ڈاکٹر اشرف غنی،سابق وزیرخارجہ زلمے رسول اور سابق مجاہد رہنما عبدالرسول سیاف سمیت دس معروف سیاسی شخصیات کی قسمت کا فیصلہ ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹرز کرنے والے ہیں۔طالبان کے حملوں اور تشدد کے خطرات کے باوجود انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے مابعد کی صورت حال کے بطن سے موجودہ افغان صدر حامد کرزئی کی شخصیت طلوع ہوئی۔انہیں ایک گرینڈ جرگے میں عبوری صدر مقرر کیا گیالیکن بعد میں انہوں نے دوصدارتی انتخابات کرائے اور کامیابی حاصل کی۔2009ء کے صدارتی الیکشن پر بڑی لے دے ہوئی حتیٰ کہ امریکہ نے بھی انہیں تاریخ کا بدترین فراڈ قراردیا لیکن اس کے باوجود حامد کرزئی صدارتی محل میں براجمان رہے اور دنیا کو انہی کے ساتھ معاملات کرنا پڑے۔
صدر کرزئی نے افغان سیاست میں جارحانہ بیٹنگ کی طرح رکھی۔ پاکستان کی حکومتوں کو بہت آڑے ہاتھوں لیا۔پرویزمشرف کے ساتھ ان کا جنم جنم کا بیر تھا ۔ مشرف نے ان کا سرپرست بننے کی بہت کوشش کی لیکن وہ زخمی شیر کی طرح جوابی وار کرتے اور مشرف کو بے حال کردیتے۔عالمی کانفرنسوں میں بھی انہیں مشکل صورت حال کا شکار کرتے۔پرویزمشرف انہیں احسان فراموش قراردیتے ‘بسااوقات معاملہ توتکار تک بھی جا پہنچا۔پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوںپر ہمیشہ سیخ پارہے بلکہ انہوں نے پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں دھکیلے رکھا۔گزشتہ ایک برس سے وہ امریکہ پر بھی خوب گرجے برسے ،بالخصوص فضائی بمباری میں افغان شہریوں کی ہلاکتوں پر انہوں نے کئی مرتبہ امریکہ سے معافی کا مطالبہ بھی کیا۔حالیہ چند ماہ میں امریکہ نے اپنی پوری سیاسی اورسفارتی طاقت لگا ئی کہ صدر کرزئی امریکہ اور افغانستان کے مابین دوطرفہ دفاعی معاہدہ کرلیں تاکہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج رکھنے کا قانونی جواز مل سکے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔حتیٰ کہ صدر بارک اوباما نے زچ ہوکر دھمکی دی کہ اگر صدر کرزئی نے دفاعی معاہد ے پر دستخط نہ کیے تو وہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرلیں گے۔ اس کے باوجود کرزئی نہ مانے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے صدر کرزئی کے ساتھ ذاتی سطح پر معمول کے تعلقات استوار کیے ۔انہیں عزت واحترام دیا ۔افغانستان کو یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ وہ آزاد اور خودمختار ملک ہے اور پاکستان اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتا۔دونوں رہنمائوں نے اپنے فوجی اور خفیہ اداروں کے سربراہوں سمیت صدر کرزئی سے کئی مرتبہ ملاقاتیں کیں۔یہ ملاقاتیں کابل، اسلام آباد کے علاوہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں وزیراعظم طیب اردوان کی میزبانی میں بھی ہوئیں اور لندن میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی صدارت میں بھی ،لیکن ڈھاک کے وہی تین پات ،کوئی جامع پیش رفت نہ ہوسکی۔ابھی دو دن پہلے کرزئی نے ایک بار پھر کہا کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں چھپی ہوئی ہے۔ دفاعی ادارے بھی شاکی رہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت صدر کرزئی اور غیر ملکی سربراہوں کے سامنے ان کا دفاع کرنے سے اجتناب کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ صدر کرزئی کا جانشین کون ہوگا اور وہ پاکستان کے بار ے میں کیا رویہ اختیار کرے گا؟اشرف غنی احمدزئی ، تاجک رہنما عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے مابین کانٹے دار مقابلے کی اطلاعات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر کرزئی الیکشن کے بعد خاموشی سے غیر سیاسی زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں۔صدارتی محل کے نواح میں ان کی رہائش گاہ تیارہورہی ہے جہاں وہ متحرک سیاسی زندگی بسرکرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔موجودہ الیکشن کے عمل میں بھی وہ غیر جانبدار نہیں بلکہ واضح طور پر زلمے رسول کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔وہ الیکشن میں اپنے حمایت یافتہ امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔2009ء کے صدارتی الیکشن میں وہ دھاندلی کا وسیع تجربہ حاصل کرچکے ہیں۔ اس وقت کرزئی کی انتظامیہ نے جعلی ووٹ بھگتانے کے نئے نئے حربے استعمال کیے تھے۔علاوہ ازیں اس وقت پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی صدر کرزئی کو دوبارہ صدرمنتخب کرانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔چنانچہ ان کی شہ پر پاکستان میں مقیم سولہ لاکھ مہاجرین کی بھاری اکثریت نے کرزئی کو ووٹ دیا ۔اس مرتبہ ان مہاجرین کے لیے ووٹ ڈالنے کا کوئی انتظام نہیں ۔
گزشتہ صدارتی انتخابات میں احمد شاہ مسعود کے دست راست اور تاجک رہنما عبداللہ عبداللہ صدر کرزئی کے سب سے مضبوط اور موثر حریف کے طور پر سامنے آئے تھے ۔ انہوں نے الیکشن میں کرزئی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔دوسرے صدارتی امیدواروں کے برعکس انہوں نے حکومت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔گزشتہ برس پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ایک وفد کے ہمراہ کابل میں عبداللہ عبداللہ سے طویل تبادلہ خیال کا موقع ملا۔انہوں نے بتایا کہ وہ پشاور کے ایک ہسپتال میں ایک برس تک خدمات سرانجام دیتے رہے ۔وہ صدر کرزئی کی حکومت میں وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔انہوں نے ہمارے وفد کوسابق صدر مشرف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا احوال نمک مرچ لگا کر سنایا۔صدر کرزئی کے اتحادی اور نائب صدر محمد قاسم فہیم کی حال ہی میں ہونے والی موت کے نتیجے میں عبداللہ عبداللہ کو تاجک،ازبک اور ہزارہ علاقوں میںکوئی بڑا مقابلہ درپیش نہیں۔صدر کرزئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو اب ان علاقوں سے کم ووٹ پڑنے کا امکان ہے۔صدر کرزئی کے برعکس عبداللہ عبداللہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ جلدازجلد کرنے کے زبردست حامی ہیںتاکہ 2014ء کے فوجی انخلا کے بعد بھی ہزاروں امریکی فوجی تربیتی امور اور دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر افغانستان میں مقیم رہ سکیں۔
اشرف غنی دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔دلچسپ گفتگو کرتے ہیں اور بہادر افغان رہنما کے طورپر سامنے آئے ہیں۔پاکستان کے سخت ناقد ہیں۔کابل میں انہو ں نے ہمیں بتایا کہ اگر پاکستان افغانستان کو عدم استحکام کاشکار کرنے سے باز نہ آیا تو وہ یہ جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنا پسند کریں گے ۔ پشتون پس منظر رکھتے ہیں اور سخت گیر افغان رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔وہ 1985ء میں پاکستان میں ایک سال تک مقیم رہے جہاں انہوں نے دینی مدارس کے نظام تعلیم پر تحقیق کی۔وہ صدر کرزئی کے وزیرخزانہ بھی رہے ہیں۔گزشتہ صدارتی انتخابات میں وہ محض تین فیصد ووٹ حاصل کرسکے تھے ۔اس مرتبہ انہوں نے وارلارڈ رشید دوستم کے ساتھ اتحاد کیا جس نے نوجوانوں اور اعتدال پسند افغان ووٹروں کو سخت مایوس کیا ہے کیونکہ رشید دوستم کا دامن بے گناہ افغان شہریوں کے خون سے رنگین ہے۔
کچھ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیرخارجہ زلمے رسول کے دیگر صدارتی امیدواروںکے مقابلے میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہیںکیونکہ انہیں صدر کرزئی کی حمایت حاصل ہے۔چند ہفتے قبل صدرکرزئی کے بھائی قیوم کرزئی نے نہ صرف صدارتی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا بلکہ اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ زلمے رسو ل کو ووٹ دیں۔کہاجاتا ہے کہ اس طرح صدر کرزئی نے اپنے حامیوں اورسرکاری انتظامیہ کو پیغام دیا کہ ان کا پسندیدہ امیدوار زلمے رسول ہے۔صدر کرزئی کا خیال ہے کہ زلمے کو صدر بنواکر وہ پردہ کے پیچھے سے حکومتی معاملات میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہاہے کہ بتدریج دیگر پشتون رہنما بھی زلمے رسول کے حق میں دستبرد ار ہوسکتے ہیں تاکہ ووٹ تقسیم نہ ہوں اورعبداللہ عبداللہ کو شکست دی جاسکے۔تاہم زلمے رسول کوئی عوامی شخصیت نہیں۔وہ ہمارے بلاول بھٹو زرداری کی طرح اب جاکر اپنی قومی زبان( پشتو) سیکھ رہے ہیں۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات ذرا سے پیچیدہ بھی ہیں۔کامیاب ہونے والے امیدوار کو پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنا پڑتے ہیں۔اگر کوئی امیدوار پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکے تو پہلے دوامیدواروں کے مابین دوبارہ مقابلہ کرایا جاتاہے۔پشتون امیدوار پریشان ہیںکہ ان کے علاقوں میں طالبان کے حملوں کے خطرے کے سبب کم ووٹ پڑیں گے جس کا فائدہ غیر پشتون امیدوار وں کو ہوسکتاہے۔شفاف انتخابات اور پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ بخیر وخوبی طے پاجائے تو افغانستان کی داخلی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوسکتاہے۔