اطلاعات ہیں کہ اگلے چند دنوں میں تحفظ پاکستان بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا ہے جسے حزب اختلاف کی جماعتیں کالا قانون قرار دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی بعض حلیف شخصیات بھی اس کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ بل قانون بن گیا تو بے لگام پولیس اور بعض اداروں کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ پولیس، اور دیگر ادارے مستند اطلاعات یا شک کی بنیاد پر بغیر وارنٹ کے کسی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث شخص کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔ حکام شک کی بنیاد پر کسی بھی جگہ چھاپے مارسکیں گے۔
یہ بل مستند معلومات یا اطلاعات کی کوئی واضح تشریح نہیں کرتا بلکہ جان بوجھ کر ابہام چھوڑا گیا ہے؛ تاکہ سلامتی سے متعلقہ ادارے من مانی تعبیر اور تشریح کرنے میں آزادہوں۔اس قانون کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ زیرحراست شخص کو چالیس دن بعد یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی گرفتار ی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے۔کیا پاکستان کا عام شہری سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی جسارت کرسکتاہے؟اگر کوئی گرفتار شخص بے گناہ ثابت ہوجائے تو سرکاری اہلکاروں کو جوابدہی کا سامنا کرنے پڑے گا یا نہیں؟ا س سوال کابھی کوئی جواب اس بل میں موجود نہیں۔
بلاشبہ پاکستان غیر معمولی حالات سے گزررہاہے۔ انتہا پسندی اور امن و امان کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانے کے لیے غیر معمولی اقدامات ناگزیز ہیں۔اسی پس منظر میں طویل عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے
لیے سخت قانون سازی کی جائے تاکہ مجرموں کو فوری سزاسنائی جاسکے ۔اسی پس منظر میں تحفظ پاکستان بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا ہے۔اس بل میں بعض ایسی شقیں بھی ہیں جو پاکستان میں انسانی حقوق کی پہلے سے دگرگوں صورت حال میں مزید ابتری کا باعث بن سکتی ہیں۔امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف قانون متعارف کرائے لیکن پاکستان کے برعکس وہاں جوبداہی کا موثر اور قابل اعتماد نظام قائم ہے۔کوئی پولیس افسر یا اہلکار متعین حدود کی پامالی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں ان قوانین کو سیاسی مخالفین یا مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیاجاتا۔
سرکار کی سامنے آنے والی پالیسیوں کا سرسری جائزہ بھی یہ باورکرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کاشمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہونے والاہے جو شہری آزادیاں سلب کرنے کی طرف مائل ہیں۔سرکار ی اداروں کے پاس جاسوسی کے ایسے جدید ترین آلات موجود ہیں جن کی دسترس سے کوئی ای میل محفوظ ہے نہ فون۔ اب ای میل اور ٹیلی فونک گفتگو کو عدالتوں میں بطور شہادت پیش کیا جانے والا ہے۔یہ وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کو پولیس سٹیٹ میں بدل دیں گے۔
دنیا میں کئی اور ممالک میں بھی دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین بنائے گئے لیکن جمہوری ممالک میں خفیہ اداروں اور پولیس کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر کڑی جواب دہی کا خوف ہوتاہے۔انہیں پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے اپنے ہر اقدام کا دفاع کرنا پڑتاہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ ادارے بے لگام رہے ہیں اور ان کے پاس پہلے ہی لامحدود اختیارات ہیں۔سپریم کورٹ گزشتہ سات برسوں سے لاپتہ افراد کے مقدمات سن رہی ہے لیکن ابھی تک یہ سلسلہ نہیں رُکا۔
قیام پاکستان سے ہی اسٹیبلشمنٹ کی بری عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے شہریوں، سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں پر اعتماد نہیں کرتی۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقاعدہ طور پر یہ طے کیا گیا کہ ملک کے اندر کوئی جمہوری قوت اس قدر مضبوط نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ڈکٹیٹ کراسکے۔ دوسری جانب شہری آزادیوں کے تصور کو ابھی تک ہضم نہیں کیا جاسکا۔ ہر شخص اور ادارے کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ قومی مفاد کی من مانی تشریح اور اختلاف رائے کرنے والوں کو بلاتامل غیر ملکی قوتوں کا آلہ قراردینے سے بھی نہیں چُوکا جاتا۔
پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ایک قیامت سے گزر رہا ہے۔پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت چونکہ شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی تصورات سے نہ صرف آشنا تھی بلکہ ان کی پرچارک بھی تھی لہٰذا وہ ایسی قانون سازی کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی جو وقتی طور پر مفید لیکن پاکستان کے طویل المیعاد مفاد میں نہیں تھی۔ نون لیگ کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بعض ادارے فیصلہ سازی کے امور پر حاوی ہونا شروع ہوگئے ۔ نون لیگ کی فکری اور سیاسی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کے روایتی نقطہ نظر سے قریب تر ہے۔ وہ قومی مسائل کو رجعت پسندانہ آنکھ سے دیکھتی ہے۔مسائل کا حل مزید جکڑبندیوں میں تلاش کرتی ہے۔اس لیے دونوں کی گاڑھی چھنتی نظرآرہی ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس اسی نظریاتی اتحاد کا مظہر ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان دنوںغیر سرکاری اداروں بالخصوص این جی اوز پر پابندیوں کا ایک بل بھی حکومت کے زیر غور ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تمام امور پر عالمی اداروں سے عطیات وصول کرنے پر پابندی زیر غور ہے جو اچھی حکمرانی کی فراہمی،انسانی حقوق، سماجی اور عمرانی امور پر تحقیق اور شفافیت کو یقینی بنانے کا باعث بن سکتے ہوں۔حالانکہ یہ وہ امور ہیں جن پر حکومت کو تحقیق، سماجی سرگرمیوں اور رائے عامہ کو بیدارکرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔نون لیگ جب حزب اختلاف میں تھی تو وہ سول سوسائٹی اور غیر سرکاری اداروں کو اپنی طاقت اور جمہوریت کا ہر اوّل دستہ قراردیتی تھی اور اب ان اداروں کا مکو ٹھپنے کے منصوبے،دوغلاپن نہیں تو کیا ہے؟
گزشتہ دونوں صدر پاکستان جناب ممنون حسین کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں بھی یہ موضوع زیر بحث آیا ۔وہاں بھی عرض کیا کہ شفافیت کو یقینی بنایاجائے۔اداروں کی نگرانی کی جائے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کیا جائے نہ کہ سول سوسائٹی اور غیر سرکاری اداروں کا گلاگھونٹا جائے۔ حکومت اور اداروں کا ایک صفحے پر ہونا اچھی بات سہی لیکن اس کا مطلب شہری آزادیوں اور لوگوں کی نجی زندگیوں کو درہم برہم کرنا ،شہری تنظیموں کو کمزور کرنانہیں ہونا چاہیے۔
عالمی شہرت یافتہ سکالرولی نصر نے لاہور ادبی میلے سے خطاب کرتے ہوئے بڑی گہری بات کہی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کو آزادمعاشرے‘شہری آزادیوںاور کثیر الجہات ملک اور قوم ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ پاکستان کا شمار مسلم دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتاہے جہاں اقلیتی فرقے کے لوگ صدر اور وزیراعظم بن جاتے ہیں۔حکومت کوولی نصر کی رائے کو وزن دینا چاہیے اور ملک کو بھارت کے نقش قدم پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے جہاں کئی ایک ریاستوں میں کالے قوانین نافذ ہیں اور شہری تنظیموں کو بین الاقوامی اداروں کے اشتراک سے سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں۔