"IMC" (space) message & send to 7575

ادارے نہیں‘ ملک

وزیراعظم محمد نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے مابین ہونے والی ملاقات مقتدر قوتوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ایک صفحے پر ہیں۔یہاں تک بات سمجھ آتی ہے لیکن ملک میں اپنے اپنے ادارے اور شخصیات کے تحفظ کی جو دوڑ شروع ہوچکی وہ نہایت ہی خطرناک رجحان ہے۔ چند دن قبل قومی اسمبلی میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا: تمام ادارے اپنا اوراپنے افراد کا دفاع کرتے ہیں۔ جب بھی اقتدار پر شب خون مارا جاتا ہے ‘ ہمارے اپنے ساتھی سیاستدان ہی ہمیں نیچا دکھاتے ہیں۔اگر ہم خود ایسا کریں گے تو دوسروں سے پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہ کرنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔قبل ازیں جنرل راحیل شریف نے کہا: فوج اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کرنا جانتی ہے۔ 
جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری اور ساتھی ججوں کی بحالی کی تحریک کے وقت اور مابعد عدلیہ نے بطور ایک ادارہ اپنے تحفظ کی جنگ لڑی اور سرخ رو ہوئی ۔اگرچہ ان کی پشت پر وکلاء‘سول سوسائٹی اور سیاستدان پوری قوت سے کھڑے تھے لیکن بطور ادارہ سپریم کورٹ اور عدلیہ نے اپنی بقا کی جنگ خوب جم کر لڑی۔ اسی اثنا میںایک نیا تماشا بھی شروع ہوا۔وکلاء نے ججوں کی بحالی میں سنہری کردار ادا کرنے کے بعد اپنی نئی طاقت دریافت کی۔اب و ہ عدالتوں میں مخالفین کو سرعام زدوکوب کرتے ہیں۔وہ ایک گروہ کے طور پر منظم ہوچکے ہیں۔ گروہ کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کی پرواہ نہیں کرتا‘ محض اپنے ساتھیوں کی حفاظت یقینی بناتاہے۔
سیاستدانوں نے بہت چوٹیں کھائی ہیں۔ان کے دل دکھی ہیں اور بعض انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔پچاس کے عشرے سے ہی سویلین اور خاکی بیوروکریسی اور بعدازاں فوجی حکومتوں نے انہیں بری طرح استعمال کیا۔جنرل ایوب خان نے بلدیاتی نظام متعارف کرایا تاکہ آزمودہ سیاستدانوں سے جان چھڑاکر قیادت کی نئی نرسری لگائی جاسکے۔ضیا ء الحق اور پرویز مشرف نے بھی ان کی پیروی کی۔اسی کی دہائی میں جنرل ضیا ء الحق نے بہاولپور کی فضائوں میں داعی اجل کو لبیک کہا تو جمہوری نظام بحال ہوا لیکن جلد ہی سیاستدانوں کو احساس ہوگیا کہ وہ محض کٹھ پتلی ہیں۔طاقت کا مرکز پارلیمنٹ نہیں بلکہ مقتدر قوتیں ہیں۔اسی زمانے میں سیاستدان بدعنوانی ،بدانتظامی اور نالائقیوں کا استعارہ بن گئے یا بنا دیئے گئے۔عشروں کی بھوک اور روپیہ جمع کرنے کی ہوس نے سیاست کو بے توقیر کیا۔طاقتور اسٹبلشمنٹ نے بھی سیاستدانوں کا امیج برباد کرنے کی سازشیں کیں ۔انہیں کسی دشمن کی ضرورت ہی نہ تھی وہ خود ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے لیے کافی تھے۔کبھی بھی حقیقی اقتدار سویلین حکومت کے پاس نہیں رہا۔ان کی ذہانت اور لیاقت پر بھی ا عتماد نہیں کیاجاتاتھا۔کچھ امور ایسے تھے جنہیں نو گو ایریاز کہاجاتا تھا یعنی جہاں سویلین حکومت کا گزر نہیں۔کچھ برس قبل ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے کہا تھا کہ اگر سویلین ہمارے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کریں گے تو ہم بھی انہیں نہیں چھیڑیں گے۔انہوں نے حاضرین کو بتایا:پاک بھارت تعلقات ، کشمیر، افغانستان ،پاک امریکہ تعلقات، ایٹمی پروگرام اور فوج کے داخلی امور وہ معاملات ہیں جن میں مداخلت قابل قبول نہیں۔
اب نون لیگ کی حکومت نہ صرف ان امور میں مداخلت کررہی ہے بلکہ ایک متبادل ویژن اور تر جیحات متعارف کرانا چاہتی ہے۔وزیراعظم نواشریف چاہتے ہیں کہ وہ ان پانچ برسوں میں اپنی مرضی کے مطابق قومی پالیسیوں کی تشکیل نو کریں۔پاک بھارت تعلقات پر روایتی پالیسی وہ پہلے ہی ترک کرچکے ۔افغانستان میں سیاسی حکومت کا کوئی پسندیدہ گروہ یا شخصیت نہیں۔حالیہ الیکشن میں پاکستان کی عدم مداخلت کی پالیسی کو افغانستان کے طول وعرض میں سراہاگیا۔امریکہ کے ساتھ معاملات میں بھی حکومت ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی۔ طالبان کے ساتھ معاملات میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔دیگر معاملات میں بھی بتدریج اسٹیبلشمنٹ پس منظر میں جارہی ہے ۔
بظاہر ‘یہ مثبت تبدیلیاں ہیں جن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ دقت یہ ہے کہ حکومت تیزی سے تمام معاملات پر کنٹرول چاہتی ہے۔جبکہ ذمہ دار اداروں نے بھارت ،کشمیر اور افغانستان کے نام پر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر کھڑا کیا ہواہے۔جو روایتی طرز فکر کا علمبردار ہے۔مثال کے طور پر آج بھی سرکاری ریڈیو اورٹی وی پر جو پروگرام کشمیر پر نشر ہوتے ہیں ان کا لب ولہجہ اور استدلال وہی ہے جو نوے کی دہائی میں اختیار کیا گیا تھا حالانکہ اس دوران دنیا بدل گئی۔دفاعی اداروں نے چھ عشروں میںجو ڈھانچے کھڑے کیے انہیں راتوں رات مسمارنہیں کیا جاسکتا۔وہ نئے خیالات کی مزاحمت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے تاآں کہ کوئی بامعنی اسٹرٹیجک تبدیلی رونما نہ ہوجائے۔
فوجیں اور اسٹیبلشمنٹ‘مخالف قوتوں اور ممالک کے محض اخباری بیانات نہیں بلکہ ان کی دفاعی تیاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلے کی تیاری کرتی ہیں۔بھارت میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت سے سنجیدہ چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔یاد رہے کہ 1989ء میں بی جے پی نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو جوابی دھماکوں پر مجبور کیا ۔جس کے نتیجے میں پاکستان کو کئی برسوں تک اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔علاوہ ازیںنریندر مودی‘ اٹل بہاری واجپائی کی طرح لچک دار نہیں بلکہ سخت گیر حکمران کی شہرت رکھتے ہیں۔موجودہ بھارتی اسٹیبشلمنٹ خاص طور پر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر شیوشنکر مینن اور فوجی سربراہ پاکستان کے ساتھ اس وقت تک مذاکرات کی بحالی کے حامی نہیں جب تک کہ راولپنڈی میں زیرحراست ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو سزا سنائی نہیں جاتی۔افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کے صدر منتخب ہونے کے امکانات روشن ہیں جو پاکستان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ایران بھی پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیتاہے۔ان حالات میں فطری طور پرسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات خودبخود بڑھ جاتے ہیں اور وہ زیادہ محتاط بھی ہوجاتی ہے۔جب تک خطے میں کشیدگی کی فضا برقراررہے گی اس وقت تک دفاعی اداروں کو مکمل طور پر پس منظر میں دھکیلنا ممکن نظر نہیں آتا۔دنیا کاجوبھی ملک داخلی یا خارجی بحرانوں کا شکار ہوتاہے وہاں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر پرزے نکال لیتی ہے۔
سویلین بالادستی اورجمہوری نظام کی کامیابی ہر پاکستانی کی آرزو ہے لیکن حکومت کو اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے قد م بقدم چلنا ہوگا۔اداروں کے درمیان جاری موجودہ مسابقت کے ماحول کی حوصلہ شکنی کی جائے۔دفاعی اداروں کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کا آغاز کیا جائے۔قومی سلامتی کے تصورات پر نئے سرے سے بحث کی جائے ۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں بھی ان موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ رسمی اور مصنوعی تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے کی تالیف قلب کی کاوشیں عبث ہیں۔رواں تنائو نے اختلافی موضوعات پر بامقصد گفتگو کا موقع دیا ہے‘ اسے ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔اس مباحثے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیاجائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اپنے اداروں کا نہیں بلکہ قومی مفاد کاسوچنا چاہیے۔ملک مضبوط ہوگا تو اداروں کی بھی شان وشوکت ہوگی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں