میری نیند انتہائی کچی ہے ۔ ہلکی سی آہٹ پر جاگ جانے کی عادت اس وقت پڑی جب میرے بچے بہت چھوٹے تھے ۔ ان کی ہلکی سی جنبش سے میری آنکھ کھل جاتی تھی۔بچے اب بڑے ہوچکے لیکن میری کچی نیند کی عادت پختہ ہوچکی ہے۔ بچے اب میری نیند کے دوران انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔دو سال پہلے مجھے لاہور ایئرپورٹ کے قریب ایک نئی ہائوسنگ سوسائٹی میں کرائے کا گھر لینے کا اتفاق ہوا۔ پُرہجوم رہائشی علاقوں سے دور یہ گھر میرے لیے انتہائی جاذب نظر تھا۔ پُرسکون، وسیع اور کشادہ گھر۔ سوسائٹی کی بیرونی حد کے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہائشی علاقہ تھا جس میں موجود ایک مسجد کے مینار پر چاروں سمت لگے لاؤڈ اسپیکروں سے تین یا چار مؤذن اذان دینے پر مامور تھے۔ ویسے تو ان سب کی آواز میں ترنم اور سریلے پن کا فقدان تھا لیکن ایک کی آواز تو انتہائی درشت تھی۔ اللہ اکبر کی ادائیگی پر وہ 'ر‘ کے حرف کو انتہائی طویل سانس کے ساتھ ناقابلِ یقین حد تک لمبا کر کے کھینچتا تھا تو انتہائی پھٹی اور بلند آواز ہتھوڑے کی طرح دماغ پر ٹکراتی تھی۔ اس طوالت کے باعث اذان پندرہ منٹ پر محیط ہو جاتی تھی۔
مجھے امید تھی کہ میں اس کی عادی ہو جاؤں گی لیکن ایک دن آدھی رات کو اچانک لاؤڈ سپیکرکے شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہ وہی تند و تیز آواز تھی لیکن اس دفعہ وہ شخص دعا مانگ رہا تھا۔
پوری طاقت سے کھلے ہوئے سپیکروں میں دعا کے دوران بار بار کھانسی اور اس کے بعد گلے کی گہرائی سے پڑھنے کے عمل نے میرے اعصاب جکڑنے شروع کر دیئے۔ یوں ساری رات بے آرامی کی نذر ہو گئی۔اگلی رات پھر یہی عمل دہرایاگیا۔ میں سارا دن سر درد کی گولیاں لیتی رہی ۔ بے آرامی نے میری آنکھوں کے گرد حلقے گہرے کر دیئے تھے۔ جب تیسری رات بھی سکون نہ ملا تو میں نے سوسائٹی کی انتظامیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوسائٹی کے مینیجر نے میری بات ہمدردی سے سنی اور اپنی بے بسی کااظہار کرتے ہوئے صبر کا مشورہ دیا۔ اس کا کہنا تھا: لوگ پہلے بھی یہ شکایت کرتے رہے ‘ مسجد کیونکہ سوسائٹی کی حدود سے باہر ہے اس لیے وہ کچھ نہیں کرسکتے۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں خود مسجد جاکر انتظامیہ سے بات کروں۔ اگرچہ کسی عورت کا اس طرح گاؤں کی مسجد میں جانا روایات کے خلاف تصور کیا جاتا ہے ۔ مسجد کے امام کو اپنی ساری بپتا سنائی اور کئی دیگر افراد کی بے آرامی کا ذکر بھی کیا۔میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ لاؤڈ سپیکر کا اذان کے علاوہ استعمال غیر قانونی ہے۔میں نے بالخصوص اس ایک درشت اور بے ڈھنگی آواز والے آدمی کی شکایت کی اور درخواست کی کہ وہ یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں۔امام نے بتایا کہ وہ گاؤں کا ایک بوڑھا آدمی ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ مؤذن کے فرائض سرانجام دے‘ لہٰذا اسے سبکدوش کرنا ممکن نہیں۔ میں نے التجا کی کہ مجھ پر رحم کریں اور آدھی رات کی بے سکونی سے نجات دلائیں۔ بادل ناخواستہ امام نے میری کچھ گزارشات پر عمل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
حیرت انگیز طور پر اگلی آدھی رات کے وقت سپیکر پر وہ کھردری آواز سنائی نہ دی۔صبح معمول کی اذانوں کی آواز چاروں اطراف سے آ رہی تھی ۔سارا دن میں خوشی سے جھومتی رہی کہ میں نے دلیل سے اپنی بات منوا لی‘ مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ اگلی ہی رات ابھی سوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ میں بستر سے تقریباً اچھل پڑی ۔ مسجد سے پھر اسی طرح لائوڈ سپیکر پر وقفے وقفے سے کھانسی کا شور بلند ہو رہا تھا۔ باقی رات انگاروں پہ گزاری۔ جونہی بچے سکول گئے، ڈرائیور کو ساتھ لیا اور سیدھی مسجد جا پہنچی۔ چیختے ہوئے کہا کہ مجھے امام سے ملوائیں ۔ وہ سامنے آئے تو میں نے چلاتے ہوئے کہا کہ میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکاہے ۔ اگر وہ اس ٹارچر کو روکیں گے نہیں تو پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ میرے پرانے اور وفادار ڈرائیور کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔ اس کے نزدیک میں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال کر اچھا نہیں کیا ۔
مجھے حقیقت کا تو علم نہیں کہ کیوں‘ لیکن اگلے تین ہفتے مسجد سے سوائے اذان کے کوئی آواز نہ آئی۔یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی۔رمضان شریف کا چاند نظرآنے کا اعلان کیا ہوا‘ گویا گردونواح کی تمام مساجد کولاؤڈ سپیکروں کو پورے زور و شور سے کھول دینے کا لائسنس مل گیا۔غالباً وہ اسے بخشش کا واحد ذریعہ تصور کرتے ہیں۔سحری سے لے کر رات تک مختلف نوعیت کی دعاؤں کی بلند آوازیں گرد ونواح کی تمام مساجد سے بلند ہوتی رہیں۔ میرے لیے اعصاب شکن مرحلہ وہ تھا جب اسی مؤذن نے مسلمانوں کو تہجد کے لیے یہ کہتے ہوئے جگانا شروع کر دیاکہ پہلے ہی اڑھائی بج جانے کے باعث تاخیر ہو چکی ہے۔ اس نے یہ صدا پندرہ بیس دفعہ دی۔ وہ بار بار یہ یاد دہانی کراتا رہاکہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے کھانا پینا بالکل بند کر دینا چاہیے۔۔ اتنی دیر میں میرے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔میں لگ بھگ نیم بے ہوش ہوکر بستر پر گر پڑی۔ مجھے بالکل پتہ نہ چلاکہ وہ کس وقت خاموش ہوا ۔ جب میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے وقت لاؤڈ سپیکروں سے اس عمل کا دوبارہ آغاز ہو چکا تھا۔
بالآخر میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مالک مکان کو بلا کر آگاہ کیا کہ میں گھر خالی کر رہی ہوں۔مکان بدلنے پر مزدوروں کو ادائیگی، قالینوں اور پردوں پر اُٹھنے والے اخراجات اور میری محنت سب کچھ ضائع ہو گیا۔میں ایک ایسی سوسائٹی میں منتقل ہوگئی جہاں سوائے اذان کے، مسجد کے لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت نہ تھی۔
یہ کہانی لاہور کی ایک خاتون کی ہے جس نے زندگی کے کئی قیمتی ایام بڑی اذیت میں گزارے۔ہم سب لوگ لگ بھگ ہرروز اسی کرب سے گزرتے ہیں ‘صرف اظہار نہیں کرتے۔ آئمہ مساجد اور حکومت کو بھی ان مسائل پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح شہریوں کے آرام اور سکون میں خلل ڈالے بغیر وہ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔